حب الوطنی

28 مارچ 1998 كو انڈيا انٹرنيشنل سنٹر (نئی دهلي) ميں ايك سيمینار تھا۔ اس كا اهتمام اردو اكادمی كی طرف سے كيا گيا تھا۔ اس كا موضوع مولانا ابو الكلام آزاد كی شخصيت اور كارناموں كا جائزہ تھا۔ اس موقع پر ميں نے بھی ايك تقرير كي۔ ميں نے جو باتيں كہیں ان ميں سے ايك حب الوطنی كا مسئلہ تھا۔

ميں نے کہا كہ 20 ويں صدی ميں لمبی مدت تك مسلم مفكرين كسی نہ كسی طور پر اس نظريہ سے متاثر رہے  هيں، جس كو عام طورپر پان اسلامزم (pan islamism)کہا  جاتا ہے ۔ اس ميں دَور جديد كے بهت سے مفكرين كےنام شامل هيں۔ مثلاً سيد جمال الدين افغانی (1838-1897)، محمداقبال (1877-1938)، محمد علی جناح (1876-1948)، سيدابو الاعلی مودودی (1903-1979)، وغيرہ ۔ يہ لوگ مسلمانوں كو ايك بين اقوامی برادری سمجھتے تھے، اور مسلمانوں كو ايك عالمی قوميت كا ركن بتاتے تھے۔ اپنے اس نظريہ كی بنياد پر ان كا كهنا تھاكہ قوميت (nationhood) كی بنياد مذہب پر ہے ، نہ كہ وطن پر۔

ميں نے کہا كہ ميری عمر هجری كيلنڈر كے لحاظ سے 78 سال هو ر هی ہے ۔ ميں نے اپنی عمر كا بيشتر حصہ اسلام اوراسلام سے متعلق علوم كے مطالعہ ميں گزارا ہے ۔ ميں پورے اعتماد سے كهہ سكتاهوں كہ قوميت كو مذهب پر مبنی قرار دينا كوئی اسلامی نظريہ نہیں۔ يہ سراسر ايك سياسی نظريہ ہے  جو مخصوص حالات ميں پيدا هوا۔ 20 ويں صدی كے نصف اول ميں مسلمانوں كے سياسی قائدين يورپی استعمار كے خلاف تمام دنيا كے مسلمانوں كو ابھارنا چاهتے تھے۔ اپنے اس سياسی مقصد كے نظرياتی جواز كے ليے انھوں نے عالمی قوميت كا مذكورہ نظريہ پيش كيا۔ يہ اسلام كا سياسی استحصال تھا، نہ كہ اسلام كی حقيقی ترجماني۔

اس معاملہ ميں اسلام كا نقطہ نظر وهی ہے ، جو پوليٹكل سائنس كا نقطۂ نظر ہے ، اور جس كو تمام دنيا ميں نظری يا عملی طورپر قبول كرليا گيا ہے ۔ وہ يہ كہ قوميت (nationhood) كی بنياد وطن (motherland) پر ہے ۔ يهی وجہ ہے  كہ تمام دنيا ميں پاسپورٹ پر كسی آدمی كی قوميت (nationlity) وهی لكھی جاتی ہے ، جو وطن كی نسبت سےاس كی ہے ، خواہ وہ ايك مذهب سے تعلق ركھنے والا هو، يا دوسرے مذهب سے۔ مثلاً انڈيا ميں هر مسلمان يا غير مسلمان پاسپورٹ ميں اپنے آپ كو انڈين لكھتا ہے ، برطانيہ ميں برٹش، امريكا ميں امريكن، وغيره۔

مبنی بروطن قوميت كا يہ نظريہ اسلام كے عين مطابق ہے ۔ اس معاملہ ميں اسلام اور بقيہ دنيا ميں كوئی اختلاف يا ٹكراؤ نهيں۔ مولانا سيد حسين احمد مدنی نے کہا تھا كہ موجودہ زمانے ميں قوميں اوطان سے بنتی هيں۔ اس پر كچھ لوگوں نے يہ اضافہ كرنے كی كوشش كی ہے  كہ مولانا مدنی كا يہ جملہ خبر ہے ، وہ انشاء نہیں  ۔ يعنی يہ ايك واقعہ ہے  كہ بقيہ دنيا ميں وطن كو قوميت كی بنياد مان ليا گيا ہے ۔ مگر اس كا يہ مطلب نہیں كہ اسلام ميں بھی قوميت كی بنياد وطن پر قائم ہے ۔ مگر يہ تشريح درست نہیں  ۔ اس سلسلہ ميں یہاں ميں چند باتيں عرض كروں گا۔ فقہ كا ايك مستقل اصول يہ ہے  كہ چیزوں کی اصل (بنیادی حکم) ان كا مباح هونا ہے  (الأَصْل ‌فِی ‌الْأَشْيَاء ‌الْإِبَاحَة)، جب تک کہ حرام ہونے کی دلیل نہ ملے:

Everything is lawful unless it is declared unlawful.

یہاں چیز سے مراد دنیوی معاملات ہیں۔ يہ ايك واضح بات ہے  كہ قومیت کے مسئلہ كے بارے ميں قرآن وحديث ميں كوئی براہ راست حکم موجود نهيں۔ قرآن وحديث ميں نہ يہ کہا گياہے  كہ قوميت كی بنياد مذهب پر ہے ، اور نہ يہ كہ اس كی بنياد وطن پر ہے ۔ اس ليے اس معاملہ كو ان امور سے متعلق سمجھا جائے گا، جن كی بابت پيغمبر اسلام نے كها: أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2363)۔ یعنی ، تم اپنی دنيا كے معاملہ كو زيادہ جانتے هو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جهاں تك عقيدہ اور عبادت اور آخرت كے معاملات كا تعلق ہے ، ان ميں مسلمان پابند ہیں كہ وہ شريعت كی رهنمائی كو تاويل كے بغير قبول كريں، مگر جو امورانتظام دنيا سے تعلق ركھنے والے هيں، ان ميں انسان كو اختيار ہے  كہ وہ اپنے حالات كے لحاظ سے جس طريقہ كو درست سمجھے اس كو اختيار كرے۔

اس معاملہ ميں ايك پيغمبرانہ واقعہ سے مزيد رهنمائی ملتی ہے ۔ پيغمبر اسلام صلی اللہ عليہ وسلم كے زمانے ميں يمن ميں ايك شخص نے نبوت كا دعويٰ كيا اس كا نام مسيلمہ تھا۔ اس نے دو آدميوں پر مشتمل اپنا ايك سفارتی وفد مدينہ بھيجا۔ انھوں نے مدينہ آكر پيغمبر اسلام صلی اللہ عليہ وسلم سے ملاقات كي، اور مدعی نبوت كا يہ تحريری پيغام پهنچايا كہ ميں نبوت ميں آپ كے ساتھ شريك كيا گيا هوں (فَإِنِّی قَدْ أُشْرِكْتُ فِی الْأَمْرِ مَعَكَ

 مسيلمہ كے دونوں سفيروں سے كلام كرنے كے بعد آپ نے ان سے پوچھا كہ اس بارے ميں تمهاری رائے كيا ہے ۔ انھوں نے کہا كہ هماری بھی وهی رائے ہے  جو همارے صاحب كی رائے ہے ۔ يہ سن كر آپ فرمايا كہ خدا كی قسم اگر ايسا نہ هوتا كہ سفيروں كو قتل نہیں كيا جاتا تو ميں تم دونوں كو قتل كرديتا :أَمَا وَاَللہ لَوْلَا أَنَّ الرُّسُلَ لَا تُقْتَلُ لَضَرَبْتُ أَعْنَاقَكُمَا (سيرت ابن هشام، جلد2، صفحہ 600)۔

پيغمبر اسلام كے اس واقعہ سے اسلام كا ايك اصول معلوم هوتا ہے ۔ وہ يہ كہ بين اقوامی معاملات ميں شريعت كا طريقہ بھی وهی هوگا، جو دوسری قوموں كا طر يقہ ہے ۔ دوسری قوموں ميں اگر سفير كی جان كو هر حال ميں محترم سمجھا جاتا ہے ، تو اسلام ميں بھی اس كو هر حال ميں محترم سمجھا جائے گا۔ اسی طرح اس پر قياس كرتےهوئے يہ كهنا بھی بالكل درست ہے  كہ وطنيت كے معاملہ ميں دنيا ميں جس اصول كو عمومی طور پر مان ليا جائے وهی شريعت ميں بھی اختيار كرليا جائے گا۔ اس معاملہ كو غير ضروری طورپر عقيدہ اور مذهب كا مسئلہ نہیں بنايا جائے گا۔

ايك بار ميں ايك جلسہ ميں شريك تھا۔ وهاں ايك صاحب نے اپنی تقرير ميں وطن کی محبت كی اهميت بيان كي، اور کہا كہ اسلام ميں بھی اس كی اهميت كو تسليم كياگيا ہے ۔ چنانچہ حديث ميں آياہے :حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الإِيمَانِ (الموضوعات للصغاني،حدیث نمبر 81)۔یعنی، وطن سے محبت كرنا ايمان كا ايك حصہ ہے ۔ ايك عالم دین جو اس وقت جلسہ ميں موجود تھے، انھوں نے اس كی ترديد كرتےهوئے کہا كہ حب الوطن من الايمان كوئی حديث نہیں ہے ، يہ تو صرف ايك عربی مقولہ ہے ۔

ميں نے کہا كہ يہ درست ہے  كہ حب الوطن من الايمان حديث نهيں۔مگر وہ سادہ طورپر صرف عربی كا ايك مقولہ نهيں، بلكہ وہ فطرت كا ايك مقولہ ہے  ،جو انسانی نفسيات كی ترجمانی كرتاہے ۔ محدثین عام طورپر اِس قول کو حدیث رسول نہیں مانتے، وہ اِس کو ضعیف یا موضوع قرار دیتے ہیں۔ تاہم کچھ علما نے اس قول کو معنوی اعتبار سے درست قرار دیا ہے۔ مثلاً آٹھویں صدی ہجری کے مشہور عالم محمد بن عبد الرحمن السخاوی (وفات1497 ء) نے اِس قول کے بارے میں لکھا ہے:لَمْ أَقِفْ عَلَيْهِ، وَمَعْنَاہ صَحِيحٌ (المقاصد الحسنۃ، حدیث نمبر386) ۔ یعنی، میں اِس حدیث سے واقف نہیں، لیکن اس کا مفہوم درست ہے۔ محدثین کے اصول کے مطابق، امام السخاوی کے اِس قول کا مطلب یہ ہے کہ یہ قول حدیثِ رسول کے طورپر ان کو نہیں ملا، لیکن دینِ اسلام میں اس کی اصل پائی جاتی ہے۔کتابوں کے ذخیرے میں بہت سی چیزیں ہیں، جو خواہ حدیث رسول نہ ہوں، لیکن وہ یقینی طور پر حدیثِ فطرت ہیں۔ اس بات کو بتانے کے لیے محدثین نے وہ اصول بنایا ہے، جس کو السخاوی کے حوالے سے اوپر بیان کیا گیا ۔

راقم الحروف کا خیال یہ ہے کہ یہ قول اگر کلامِ رسول کے طور پر ثابت شدہ نہ ہو، تب بھی وہ حدیث ِ فطرت ہے۔ جو آدمی وطن کی محبت کو فطرت کا جزء نہ سمجھتا ہو، وہ جانتا ہی نہیں کہ فطرت کیا چیز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وطن سے محبت انسانی فطرت کا ایک لازمی تقاضا ہے، اور فطرت کا تقاضا ہونا ہی اس بات کے لیے کافی ہے کہ حب الوطنی (patriotism) کو اسلام کا ایک حصہ سمجھا جائے۔ اسلام جب دین فطرت (religion of nature) ہے تو فطرتِ بشری کی ہر چیز اسلام کا حصہ قرار پائے گی۔

 ميں نے کہا كہ اسلام دين فطرت ہے  اس ليے فطرتِ انسانی كا هر صحيح تقاضا بھی عين اسلام كا تقاضا ہے ۔ مثال كے طورپر حديث ميں كہیں يہ نہیں آيا ہے  كہ: حبُّ الأمِّ من الإيمان (ماں كی محبت ايمان كا حصہ ہے ) ۔اس كے باوجود يہ حقيقت ہے  كہ هر مسلمان اس كو اپنا فرض سمجھتاہے  كہ اس كے دل ميں اپنی ماں سے محبت هو۔ جس آدمی كے دل ميں اپنی ماں كی محبت نہ هو، وہ اپنے ايمان ميں بھی كامل نہ هوگا۔ كيونكہ فطرت اور ايمان ميں كوئی تضاد نهيں۔

اِسی طرح وطن سے محبت بھی بلاشبہ ہر مسلمان کے لیے ایک ایمانی تقاضے کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آدمی جس ملک میں پیدا ہوا، جہاں اُس کی پرورش ہوئی، جہاں کی ہوا میں اس نے سانس لیا، جہاں کے لوگوں سے اس کے تعلقات قائم ہوئے، جہاں اُس نے اپنی زندگی کی تعمیر کی، ایسے ملک سے محبت کرنا انسانی شرافت کا تقاضا ہے، اور اِسی طرح وہ انسان کے ایمان واسلام کا بھی تقاضا ۔

ميں نے کہا كہ جو چيز فطرت انسانی كا جزء هو، اس كو قرآن وحديث ميں لكھنے كی ضرورت نهيں، وہ قرآن وحديث ميں لكھے بغير هی شريعت كا ايك لازمی جزء ہے ۔ قرآن وحديث ميں يہ حكم نہیں ديا گيا كہ اے مسلمانو، تم اپنی ماں سےمحبت كرو۔ كيونكہ يہ چيز حكم كے بغير اپنے آپ هی فطرت كے زور پر حاصل تھي۔ اسی طرح قرآن وحديث ميں يہ لكھنے كی ضرورت بھی نہیں كہ اے مسلمانو، تم اپنے وطن سے محبت كرو۔ كيونكہ وطن سے محبت انسانی شرافت كا تقاضا ہے ، وہ انسان ايك پست انسان ہے  جس كے دل ميں اپنے وطن كے ليے محبت نہ هو۔ ايسے گهرے فطری تقاضے كے ليے شريعت ميں كسی لفظی حكم كی ضرورت نهيں، وہ اپنے آپ هر مومن كے دل ميں پهلے هی سے موجود هوتاہے ۔

يهاں ايك معاملہ كی وضاحت ضروری ہے ۔ بعض انتها پسند هندو ليڈروں نے لكھا ہے  كہ هندستان كے عيسائی اور مسلمان سچے محب وطن نہیں هوسكتے۔ اس ليےكہ محب وطن هونے كے ليے ضروری ہے  كہ اس وطن يا اس جغرافی خطہ كو آدمی مقدس سمجھتا هو، جهاں وہ پيداہواہے ۔ هندو چونكہ اپنے وطن (ماتر بھومي) كو مقدس سمجھتا ہے ، اور اس كو معبود كا درجہ ديتاہے ۔ اس ليے وهی بھارت كا سچا محبِ وطن (ديش بھگت) ہے ۔ عيسائی اور مسلمان چونكہ اپنے مخصوص عقيدہ كی بنا پر زمين يا كسی زمينی خطہ كو معبود كی طرح مقدس نہیں سمجھ سكتے، اسی ليے وہ بھارت كے سچے ديش بھگت بھی نہیں هو سكتے۔

يہ ايك بے بنياد بات ہے ۔ اگر كوئی شخص اپنے خود ساختہ عقيدہ كی بناپر اپنی ماں كو معبود مان لے، اور اس كی پر ستش كرنے لگے، تو اس بنا پر اس كو يہ كهنے كا لائسنس نہیں مل جائے گا كہ اس كے سوا بقيہ لوگ اپنی ماں سے محبت نہیں كرتے، كيونكہ وہ اپنی ماں كو معبود نہیں سمجھتے۔ كسی شخص يا گروہ كو بلاشبہ يہ آزادی حاصل ہے  كہ وہ اپنی ماں كو يا اپنے وطن كو معبود سمجھنے لگے۔ مگر كسی کو بھی قانون يا اصول كی بنا پرايسے لوگوں كو يہ حق نہیں ديا جاسكتا كہ وہ دوسروں كے بارےميں يہ حكم لگائيں كہ وہ اپنی ماں كو يا اپنے وطن كو معبود مانيں، ورنہ وہ نہ اپنی ماں سے محبت كرنے والے قرار پائيں گے، اور نہ اپنے وطن سے۔

حقيقت يہ ہے  كہ اس طرح كے معاملات كا تعلق عالمی سطح پر مانے هوئے رواج سے ہے ، نہ كہ كسی شخص يا گروہ كے اپنے مفروضہ سے۔ عالمی اور بين اقوامی سطح پر جب يہ مان ليا گيا ہے  كہ قوميت كی بنياد وطن پر ہے ، اور وطن سے مرادمعروف معنوں ميں جغرافی وحدت(geographical unity) ہے ، نہ كہ پُراسرار معنوں ميں تقديسی وحدت (religious unity)۔ اس ليے حب الوطنی (patriotism) كا معيار هر ايك كے ليے يهی هوگا۔ البتہ هر ايك كو يہ آزادی حاصل رہے  گی كہ وہ اس كے علاوہ كوئی اورعقيدہ پسند كرتا هو تو اس كو اپنے ليے اختيار كرلے۔ (الرسالہ، ستمبر 1998)

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom