ایک غیر حقیقی سوچ
علامہ اقبال کی ایک نظم ہے ، جس کا عنوان ہے، وطنیت۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ :
تہذیب کے آزرنے ترشو ائے صنم اور
اِس کے بعد ان کا اگلا شعر یہ ہے :
اِ ن تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیر ہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے
یہ نظم کلیاتِ اقبال کے بانگِ درا میں شامل ہے۔ اقبال کے اِس شعر کا اسلام کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ۔ موجود ہ دنیا میں قومیت (nationhood)کو مبنی بر وطن (homeland based)چیز سمجھا جاتا ہے ۔ میرے نزدیک اِس تصور میں اوراسلام میں کوئی ٹکراؤ نہیں، مگر اقبال کے ذہن میں اسلام کا وہ تاریخی تصور تھا، جو بعد کو مسلم ایمپائر کے زمانے میں بنا۔ مسلم ایمپائر کے دَور میں سارے مسلمانوں کا وطن ایک ہی مانا جاتا تھا، لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد جب مسلم ایمپائر ٹوٹ گیا اور پچاس سے زیادہ الگ الگ ملک بن گئے تو اب مسلمانوں کی قومیت اُن کے موجودہ وطن کی نسبت سے متعین کی جائے گی۔ اِس معاملے میں مسلم ایمپائر کا زمانہ کوئی معیاری چیز نہیں ، قدیم مسلم ایمپائر مسلمانوں کی سیاسی تاریخ کا ایک وقتی ظاہر ہ تھا، وہ اسلام کا دوامی حصہ نہیں۔ (ڈائری، 12دسمبر 2007)
