ایک خط
عزیزی اُم السلام سلمہا!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
۵ نومبر ۲۰۰۶ کی شام کو ٹیلی فون کے ذریعے معلوم ہوا کہ عثمان بن سعید چاؤش کا انتقال ہوگیا— انّا للہ واِنّا الیہ راجعون۔ مرحوم کی صحت عرصے سے اچھی نہ تھی۔اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور پس ماندگان کے لیے حُسنِ تلافی کا سامان فرمائے۔
مرحوم سے میرا پہلا تعارف اُس وقت ہوا جب کہ میں رام پورمیں تھا۔ یہ تعارف غائبانہ سطح پر شروع ہوا۔ پندہ روزہ ’’الحسنات‘‘ کو دیکھ کر انھوں نے مجھ کوخطوط لکھے، اِس طرح ان سے خط وکتابت شروع ہوئی۔ بعد کو اُن سے براہِ راست ملاقات ہوئی اور پھر ان سے وہ تعلق قائم ہوا جو آخر وقت تک باقی رہا۔
مرحوم بلا شبہہ ایک مخلص انسان تھے۔ وہ ہمیشہ دین کی بات کرتے تھے۔ اُن کو میں نے کبھی اِدھر اُدھر کی غیر دینی بات کرتے ہوئے نہیں سُنا۔ الرسالہ مشن کو پھیلانے میں انھوں نے بہت زیادہ کام کیا۔ برسوں تک ان کا یہ حال تھا کہ سفر کرکے وہ ہر جگہ پہنچتے اور الرسالہ، اور الرسالہ مطبوعات کو لوگوں تک پہنچاتے۔ اِس معاملے میں ان کی قربانیاں بے مثال ہیں۔
مرحوم مثبت ذہن کے حامل تھے اور خالص داعیانہ مزاج رکھتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے ایک قریبی ساتھی برادرم محمد ضمیر (کامٹی) کا ایک خط مجھے ملا۔ اپنے اِس خط میں انھوں نے مرحوم کے دعوتی اور مثبت مزاج کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا ایک واقعہ اِس طرح لکھا ہے:
“ایک مرتبہ مُکھِیڈ (ناندیڑ) میں کسی غیرمسلم نے اپنی دیوار پر لکھ دیا تھا کہ— ’’گَرو سے کہو، ہم ہندو ہیں ‘‘ اس کے جواب میں آپ نے کوئی چیخ وپکار نہیں کی، نہ ہی انھوں نے مسلمانوں کو بھڑکایا، بلکہ انھوں نے اس کے جواب میں صرف محبت کا ایک جملہ لکھ دیا جس پر شرمندہ ہو کر مذکورہ ہندو بھائی نے اپنا جملہ دیوار سے مٹا دیا۔ مرحوم کی وہ بات یہ تھی—’’مذہب گَرو کرنے کی چیز نہیں ہے‘‘۔ یہ جملہ انھوں نے مراٹھی زبان میں لکھا تھا۔
مرحوم کی ایک بات مجھے بہت یاد آتی ہے۔ وہ اکثر پُر یقین انداز میں کہا کرتے تھے: ’’اللہ بہت بڑے ہیں ‘‘۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مومنانہ نفسیات کا خلاصہ ہے۔ یہ بلا شبہہ سب سے بڑی بات ہے کہ آدمی کے دل میں خدا کی عظمت بیٹھی ہوئی ہو۔ خدا کی عظمت کا احساس آدمی کو ایک طرف یقین کا سرچشمہ عطا کرتا ہے، اور دوسری طرف وہ اس کے اندر کامل تواضع پیدا کردیتا ہے۔ یہی دو چیزیں انسان کی شخصیت کی اعلیٰ تعمیر کرنے والی ہیں۔
مرحوم خود اِس بات کا کامل نمونہ تھے۔ ان کی ہر اَدا سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ خدا کی ذات پر کامل یقین رکھتے ہیں اور اِسی کی ساتھ ان کے اندر تواضع کی صفت بھی کامل درجے میں پائی جاتی تھی۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں شاعر نے کہا ہے:
خدا، رحمت کُند ایں عاشقانِ پاک طینت را!
گھر کے تمام لوگوں کو حسبِ مراتب سلام اور دعاء۔
نئی دہلی، ۶ نومبر ۲۰۰۶ء دعاگو وحید الدین