خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۷۸
۱۔ انڈیا ٹی وی (نئی دہلی) نے ۲۹ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو رکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو طلاق کے مسئلے کے بارے میں تھا۔ سوال اور جواب کے دوران بتایا گیا کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے کا طریقہ سرتاسر غیر اسلامی ہے۔ طلاق کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ تین مہینے میں اس کو دیا جائے۔ اِس طرح یہ ممکن ہوتا ہے کہ دونوں کے جذبات معتدل ہوجائیں اوروہ رجوع کرکے باہم موافقت کے ساتھ رہ سکیں۔
۲۔ ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر اَمت بھٹا چاریہ نے ۴ ؍اکتوبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ٹیلی فون پر رکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو اسلام میں عورت کے مقام کے بارے میں تھا۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں ان کے سوالات کاجواب دیا گیا۔
۳۔ آکاش وانی (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر راجیو ملک نے ۸؍ اکتوبر ۲۰۰۶ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو رکارڈ کیا گیا۔ سوال کا تعلق مہاتما گاندھی کی ’’ستّیہ گرہ‘‘ سے تھا۔ ستیہ گرہ کا مطلب ہے: سچائی پر جمنا۔ یہ وہی بات ہے جس کو قرآن میں وتواصو بالحق وتواصوا بالصبر (العصر) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں بتایاگیا کہ سچائی اپنے آپ میں ایک طاقت ہے۔ بشرطیکہ آدمی امن کے اصول پر قائم رہے۔
۴۔ دوردرشن (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میں ۱۳ اکتوبر ۲۰۰۶کو صدر اسلامی مرکز کا لائیو ٹیلی کاسٹ کے تحت ایک پروگرام تھا۔ یہ رمضان کے روزے کے بارے میں تھا۔ پروگرام میں بتایا گیا کہ روزہ سیلف ڈسپلن کی تربیت ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہاگیا کہ رمضان کے مہینے کو حدیث میں شہر المواساۃ (month of philanthropy) کہاگیا ہے، یعنی انسانی ہمدردی کا مہینہ۔ اِس مہینے میں روزے داروں کے جذبات میں خصوصی طورپر عام انسانوں کے لیے ہمدردی کے احساسات جاگ اٹھتے ہیں۔ لوگ زیادہ سے زیادہ رفاہی کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وغیرہ۔
۵۔ ۱۴؍ اکتوبر ۲۰۰۶ کو امریکا کے ایک ٹی وی آرگنائزیشن کی ٹیم مرکز میں آئی۔ اس نے صدر اسلامی مرکز کے تفصیلی انٹرویو کی ویڈیورکارڈنگ کی۔ انٹرویور کا نام مزٹیری (Teri C.Mcluhan) تھا۔ اس آرگنائزیشن کا نام یہ تھا:
Peace on earth productions, New York.
انٹرویو کا موضوع بنیادی طورپر ’’اسلام اور امن‘‘ تھا۔ سوال اور جواب کی صورت میں موضوع کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کی گئی۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ اِس وقت مسلمانوں کی طرف سے مختلف مقامات پر تشدد کے جو واقعات ہورہے ہیں، وہ سرتاسر اسلام کے خلاف ہیں۔ اسلام کے مطابق، جہاد پُر امن عمل کا نام ہے نہ کہ متشددانہ عمل کا۔
۶۔ نئی دہلی (دریا گنج) میں ایک پبلشنگ ادارہ ہے جس کا نام ’’وزڈم ٹری”(wisdom tree) ہے۔ اس کے تحت، ایک کتاب چھپی ہے۔ جس کا نام یہ ہے:
A Surprise Way to Listen to Intuition and Do Business Better.
by Arupa Tesolin.
۱۸؍ اکتوبر ۲۰۰۶ کو اشوک ہوٹل (نئی دہلی) کے ایک ہال میں مذکورہ کتاب کے اجرا کا ایک فنکشن تھا۔ اس موقع پر تین تقریر ہوئی۔ کتاب کی مصنّفہ کی، اور ڈاکٹر کرن بیدی کی، اور صدر اسلامی مرکز کی۔ کتاب کی مصنفہ کناڈا سے تعلق رکھتی ہیں اور آج کل وہ نیویارک (امریکا) میں رہتی ہیں۔ وہ اس فنکشن میں شرکت کے لیے نیویارک سے انڈیا آئی تھیں۔ صدر اسلامی مرکز نے جو تقریر کی اس کا خلاصہ یہ تھا کہ انٹیوشن (intuition) ایک خدائی آواز ہے۔ اگر آدمی اپنے دل و دماغ کو پاک وصاف رکھے تو وہ انٹیوشن کی صورت میں خدا کا انسپریشن پاتا رہتا ہے۔
۷۔ زی نیوز (نئی دہلی) نے ۲۴ اکتوبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویورکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر رویتِ ہلال کے مسئلے سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ اِس معاملے میں اصل بات چاند کا ہوجانا ہے، نہ کہ دیکھنا۔ چاند کو دیکھنا اِس معاملے میں اضافی ہے۔ ایلاء کے واقعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے موجودہ زمانے میں فلکیاتی حساب کا اعتبار کرتے ہوئے چاند کا تعین حتمی طورپر کیا جاسکتا ہے۔
۸۔ بی بی سی لندن کی نمائندہ مز ماہ پارہ صفدر نے ۲۶ ؍اکتوبر ۲۰۰۶ کو لندن سے ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو اسلام میں عورتوں کے حقوق کے بارے میں تھا۔ ایک سوال یہ تھا کہ حال میں حکومتِ ہند نے ایک قانون پاس کیا ہے جس کے مطابق، کسی مرد کے لیے اپنی عورت کو مارنا سنگین جرم کی حیثیت رکھتا ہے، اس پر سخت سزا اور جُرمانہ مقرر کیاگیا ہے۔ انھوں نے سوال کیا کہ یہ قانون اسلام کے خلاف ہے۔ کیوں کہ اسلام میں تو مرد کو یہ حق دیاگیا ہے کہ وہ عورت کو مار سکتا ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ یہ قانون اسلام کے خلاف تو نہیں، البتہ وہ عقل کے خلاف ہے۔کیوں کہ عو رت کے ساتھ بہتر سلوک کا معاملہ اخلاق سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ قانون سے۔ یہ مقصد اخلاقی شعور کو بیدار کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے نہ کہ کسی قانون کو نافذ کرکے، اور جہاں تک قرآن (النساء ۳۴) میں عورت کو مارنے کی بات ہے، اس کا مطلب مارنا نہیں ہے بلکہ صرف علامتی تنبیہہ ہے۔ جیسے کہ ٹوتھ برش کے ذریعے اپنی ناراضگی کا اظہار کرنا۔ کیوں کہ اسلام میں متشددانہ سزا کا حق صرف عدالت کو ہے، افراد کو نہیں۔
۹۔ انڈیا ٹی وی (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر شہاب صدیقی نے ۲۷؍ اکتوبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو رکارڈ کیا۔ ایک مسلم خاتون نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ مسلم خواتین کو بُرقع نہیں پہننا چاہئے۔ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ برقع محض ایک کپڑے کا نام نہیں، برقع دراصل ایک کلچر کی علامت ہے۔ خواتین کے معاملے میں اسلام کی تعلیمات اِس اصول پر مبنی ہیں کہ عورت اور مردکے درمیان آزادانہ اختلاط نہیں ہونا چاہیے۔ دونوں کے حدود الگ الگ رہنے چاہئیں۔ اِسی کلچر کو علامتی طورپر ’’پردہ کلچر‘‘ کہا جاتا ہے۔
۱۰۔ ۲۷ ؍اکتوبر ۲۰۰۶ کی شام کو ’’ہیپی ہوم‘‘ بٹلہ ہاؤس (نئی دہلی) میں ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان شریک ہوئے۔ اِس پروگرام کے ذمے دار ڈاکٹر ظفر محمود تھے۔ یہ پروگرام دراصل ناروے (اسکینڈی نیویا) کے ایک صاحب کی آمد پر ہوا تھا۔ ان کا نام اورپتہ یہ ہے:
Arne Saeveras. Special Advisor Peace and Reconciliation Norwegian Church AID, Norway.
اِس کاموضوع یہ تھا کہ اسلام کے بارے میں پوپ کا بیان (۱۲ ستمبر ۲۰۰۶) پر علماء اسلام کارد عمل کیا ہے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور وہاں ایک تقریر کی۔ انھوں نے بتایا کہ پوپ کی تقریر کا پورا ٹکسٹ میں نے پڑھا۔ میں کہوں گا کہ یہ ایک غلط فہمی کا معاملہ ہے نہ کہ عناد کا معاملہ۔ اور یہ غلطی فہمی خود مسلمانوں کی اُن مسلّح کارروائیوں سے ہوئی ہے جن کو وہ اسلامی جہاد کے نام پر کرتے ہیں۔ اِس لیے اصل کام غلط فہمی کو دور کرنا ہے، نہ کہ پوپ کی مذمت کرنا۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں ہوا۔ شرکا کو کچھ انگر یزی کتابیں بھی مطالعے کے لیے دی گئیں۔
۱۱۔ انڈیا ٹی وی، اور این ڈی ٹی وی (نئی دہلی) نے ۲؍اکتوبر ۲۰۰۶ کو فتویٰ کی حقیقت کے بارے میں صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو رکارڈ کیا۔ ان سے یہ کہاگیا کہ فتویٰ یا دار الافتا، کوئی متوازی عدالت نہیں ہے۔ یہ صرف اس لیے ہے کہ مسلمانوں کے مخصوص مذہبی معاملات میں ان کو شرعی رہنمائی دی جائے۔ جہاں تک ملکی قانون کا تعلق ہے، وہ مسلمانوں پر بھی اُسی طرح عائد ہوتا ہے، جس طرح وہ ملک کے دوسرے فرقوں پر عائد ہوتا ہے۔
۱۲۔ ۲۹؍اکتوبر ۲۰۰۶ کو بی بی سی لندن (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میں ایک پروگرام ہوا۔ صدر اسلامی مرکز کو اس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ مختلف بیرونی مقامات کے لوگ ٹیلی فون پر سوال کررہے تھے اور صدر اسلامی مرکز، دہلی کے اسٹوڈیو میں بیٹھ کر ان کا جواب دے رہے تھے۔ یہ پروگرام آدھ گھنٹے کا تھا۔ سوالات کا تعلق ’’ہندستان اور شرعی قانون’’ سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہاگیا کہ ہندستان ایک سیکولر ملک ہے، اس لیے جب ملکی قانون اور شرعی قانون میں ٹکراؤ ہوگا تو اس کے فیصلے کا حق عدالت کو ہوگا۔ کسی فریق کو اس کے فیصلے کا حق نہیں ہوسکتا۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کو جانیں۔
۱۳۔ نئی دہلی کے ٹی وی چینل ٹائمس ناؤ (Times Now) کی ٹیم نے ۳۱ اکتوبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویور رکارڈ کیا۔ انٹرویور مسٹر تابش نصیر (9818914936) تھے۔ سوال کاتعلق اِس مسئلے سے تھا کہ اسلام میں عورت کا شرعی پردہ کیا ہے۔ جوا ب میں بتایا گیا کہ قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں ہے کہ مسلم خاتون کو اپنا چہرہ ڈھکنا چاہیے۔ فقہ حنفی کے مطابق، وجہ اور کفّین اور قدمَین پردے سے مستثنی ہیں۔ عورت کا اصل پردہ یہ ہے کہ اس کاڈریس ماڈیسٹ ڈریس (modest dress) ہو، یعنی وہ پورے جسم کو کوَر کرتا ہو، ڈھیلا ڈھالا ہو اور بھڑک دار نہ ہو، جسم کے حصے نمایاں نہ ہوتے ہوں، یہی اصل شرعی پردہ ہے۔
۱۴۔ جَن مت ٹی وی(نئی دہلی) کے اسٹوڈیومیں ۲ نومبر ۲۰۰۶ کوایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اِس میں اینکر کے علاوہ تین پولٹکل پارٹیوں کے نمائندے شریک تھے۔ صدر اسلامی مرکز کو اس میں اسلام کے نمائندے کی حیثیت سے شرکت کی دعوت دی گئی۔ اِس موقع پر دو مسئلے زیرِ بحث آئے۔ ایک، یہ کہ فتویٰ کے حدود کیا ہیں۔ صدر اسلامی مرکز نے تبایا کہ فتویٰ کا تعلق کسی کے ذاتی مسئلے کے بارے میں مفتی کا اپنی رائے دینا ہے۔ جہاں تک سماجی اور فوج داری معاملات کا تعلق ہے، وہ فتویٰ کے حدود سے باہر ہے۔ ایسے معاملات میں عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔ دوسرا مسئلہ، مسلمان اور رزرویشن کے بارے میں تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے بتایا کہ مسلمانوں کا مسئلہ رزرویشن سے حل ہونے والا نہیں۔ اِس مسئلے کے حل کی صورت صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ بنایا جائے۔
۱۵۔ زی نیوز ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۵ نومبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو ٹیپ رکارڈ کیا۔ ان کے سوالات کا تعلق زیادہ تر صدام حسین کے بارے میں عدالتی فیصلے سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ مسائل سے اعراض کیا جائے اور مواقع کو استعمال کیا جائے۔ صدام حسین نے اس کے برعکس، یہ کیا کہ مواقع کو نظر انداز کرکے وہ مسائل سے لڑتے رہے۔ اِس قسم کی پالیسی کا نتیجہ ہمیشہ منفی صورت میں نکلتا ہے۔
۱۶۔ عراق کی عدالت نے عراق کے سابق صدر صدام حسین کے لیے پھانسی کی سزا کا حکم دیا ہے۔ اس سلسلے میں ۵اکتوبر ۲۰۰۶ کو اسٹار ٹی وی (نیوز) کی ایک ٹیم نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو رکارڈ کیا۔ اس سلسلے میں ایک بات یہ کہی گئی کہ صدام حسین کے لیے بہتر یہ تھا کہ وہ پولٹکل گدی کو چھوڑ کر کوئی تعمیری کام کرتے۔ امریکا کے سابق صدر جیفر سن (۱۸۲۶)نے آٹھ سال امریکا میں حکومت کی۔ اس کے بعد انھوں نے سیاست کو چھوڑ کر ایک یونیورسٹی بنوائی جو یونیورسٹی آف ورجینیا کے نام سے مشہور ہے۔ صدام حسین نے عراق میں ۲۴ سال تک حکومت کی۔ ان کے پاس بہت بڑے بڑے آٹھ محل تھے۔ وہ ایسا کرسکتے تھے کہ سیاسی عہدہ چھوڑ کر آٹھ کالج یا یونیورسٹی بنائیں۔ یہ ان کے لیے صدقۂ جاریہ ہوتا لیکن وہ ’’اُمّ المعارک‘‘ کی جذباتی تقریریں کرتے رہے اور آخرکار عراق کو کچھ دیے بغیر ختم ہوگیے۔
۱۷۔ سائی انٹرنیشنل (نئی دہلی) میں ۸ نومبر ۲۰۰۶ کو ایک پروگرام ہوا۔ اس میں ملک بھر سے کیندریہ ودّیالیہ کے پرنسپل بلائے گیے تھے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ یہاں انھوں نے ’’بیسک ہیومن ویلوز اِن اسلام’’ کے موضوع پر ایک تقریرکی اور آخر میں سوالات کے جواب دیے۔
۱۸۔ بی بی سی لندن (اردو سکشن) نے ۱۶ نومبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا، انٹرویو کا موضوع ہندستان میں مسلمانوں کے لیے رزرویشن کا مسئلہ تھا۔ جواب میں بتایاگیا کہ رزرویشن کی بات صرف ایک سیاسی اشو ہے، مسلمانوں کی حقیقی ترقی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اصل یہ ہے کہ ترقی کا تعلق کسی لا آف لینڈ سے نہیں ہے بلکہ لا آف نیچر سے ہے۔ زندگی کامپٹیشن کے اصول پر قائم ہے۔ مسلمانوں کو جدوجہد کرکے ترقی مل سکتی ہے۔ رزرویشن اور رعایت سے نہیں۔
۱۹۔ انٹرفیتھ کولیشن فار پیس (Interfaith Coalition for Peace) کی طرف سے ۲۵ نومبر ۲۰۰۶ کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ایک سیمنار ہوا۔ اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے۔ بعض غیر ملکی افراد بھی اس میں شامل تھے۔ اس سیمنار کا موضوع یہ تھا:
Religious Significance of Light
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور اس موضوع پر قرآن اور حدیث کی روشنی میں ایک تقریر کی۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ اسپریچول لائٹ کا سورس صرف خدا ہے۔ اس سے تعلق قائم کرکے ہی کوئی آدمی اپنے لیے روحانی روشنی حاصل کرسکتا ہے۔
۲۰۔ حکومتِ کویت کی طرف سے ہر سال مؤتمر (کانفرنس) کی جاتی ہے۔ ۲۶ نومبر تا ۲۹ نومبر ۲۰۰۶ کو کویت میں اعجازِ قرآن پر آٹھویں کانفرنس (المؤتمر الثامن للإعجاز العلمی فی القرآن الکریم والسّنۃ النبویۃ) منعقد ہوئی۔ اِس کانفرنس میں شرکت کے لیے کویت کی وزارۃ الأوقاف والشؤون الاسلامیۃ (Ministry of Awqaf and Islamic Affairs) کی طرف سے صدر اسلامی مرکز کے نام دعوت نامہ موصول ہوا۔ اِس دعوت نامے پَر وکیل الوزارہ دکتور عادل عبد اللہ الفلاح کا دستخط تھا۔ یہ بہت اچھا موضوع تھا، لیکن بعض وجوہ سے صدر اسلامی مرکز اس میں شرکت نہ کرسکے۔ چناں چہ انھیں معذرت نامہ بھیج دیاگیا اور موضوع سے متعلق، اسلامی مرکز کی چھپی ہوئی بعض انگریزی کتابیں بھی روانہ کردی گئیں۔
۲۱۔ سوامی اوم پورن سوتنترا (راجستھان) کی طرف سے صدر اسلامی مرکز کے نام ایک خط مؤرخہ ۳۰؍ اکتوبر ۲۰۰۶ موصول ہوا جو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
Reverved National Saint,
Just now I heard your talk on the BBC. I feel proud of you! It is only a national saint, a true Indian, a genuinely spiritual authority who would speak with such honesty, frankness and boldness about the respective positions of the Law of the Land and the Personal Law of the Muslim community.
In a secular country like India all religions are equal and free to follow their ways in their respective spheres but the love of the Lord is supreme and all Indian citizens are obliged to follow it.
But the beauty of your presentation was that you placed your position very clearly and candidly without being offensive to anybody. It is this 'divinity' of the Maulana to which I bow down my head in reverence. All glory to thee, O, the embodiment of the soul of India.