پختہ کرداری اور نفع بخشی
قرآن کی سورہ نمبر ۵۷ میں ارشاد ہوا ہے:
“بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو بیّنات کے ساتھ بھیجا۔ اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ قسط پر قائم ہوں۔ اور ہم نے لوہا اتارا جس میں بڑی قوت ہے اور لوگوں کے لیے اس میں دوسرے منافع بھی ہیں، اور تاکہ اللہ یہ جانے کہ کون اس کے رسولوں کی مدد غیب میں کرتا ہے۔ بے شک اللہ قوی اور عزیز ہے‘‘ (الحدید ۲۵)
قرآن کی اِس آیت میں بنیادی طورپر دو باتیں کہی گئی ہیں۔ ایک بات کتاب خداوندی کے حوالے سے، اور دوسری بات لوہا (حدید) کے حوالے سے۔ کتابِ خداوندی کے حوالے سے جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا نے اپنے رسولوں کے ذریعے بہ شکلِ وحی وہ رہنما اصول بھیجے جن کے ذریعے انسان یہ جان سکے کہ خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق، خدا کی زمین پر زندگی گذارنے کا طریقہ کیا ہے، اور وہ کون سا طریقہ ہے جس کا اتباع کرنے سے آدمی اُس سچے راستے پر چلے جو خدا کے نزدیک قسط اور عدل کا راستہ ہے، یعنی گفتگو اور معاملات اور لین دین میں انصاف کی روش اختیار کرنا۔
آیت کے دوسرے حصے میں لوہے کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ تخلیق کے عالمی نقشے کے ایک پہلو کی طرف اشارہ ہے۔ اِس دنیا میں خدا نے اخلاقی روش کے مادّی ماڈل قائم کیے ہیں۔ مثلاً ستاروں کا ایک مدار میں گھومنا اس بات کا ایک نمونہ ہے کہ لوگ اِسی طرح اپنے اپنے دائرے میں رہ کر ٹکراؤ کے بغیر اپنا سفرِ حیات طے کریں۔ اسی طرح گلاب کا پودا اِس بات کا ایک مادّی نمونہ ہے کہ پھول اور کانٹا جس طرح ایک ساتھ معتدل انداز میں رہتے ہیں، اسی طرح انسان کو چاہیے کہ وہ سب کے ساتھ معتدل انداز میں رہے، وغیرہ۔
اسی قسم کا ایک مادّی نمونہ لوہا ہے۔ لوہا اپنی خصوصیات کے اعتبار سے طاقت (strenth) کا نمونہ ہے۔ لوہا کردار کی مضبوطی کو بتاتا ہے۔ لوہا صلابت اور استقامت کا نشان ہے۔ اسی لیے ہر زبان میں لوہا پختہ کرداری کی صفت کو بتانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً— عربی میں رجل حدید، فارسی میں مردِ آہن، ہندی میں لوہا پُرش، انگریزی میں آئرن مین(iron man) اور آئرن ہینڈ (iron hand) وغیرہ۔
لوہے کی دو خاص صفتیں ہیں۔ ایک ہے اس کی مضبوطی، یہ مضبوطی اتنی زیادہ ہے کہ پیشگی طورپر اس کا یقینی انداز کیا جاسکتا ہے۔ اور اس کی دوسری صفت ہے نفع بخشی۔ اپنی مضبوطی کی بنا پر وہ بہت سے پہلوؤں سے انسان کے لیے نفع بخش بن گیا ہے۔ اگر لوہا نہ ہو تو تمدن کی اکثر سرگرمیاں ٹھپ ہوکر رہ جائیں۔ تمدن کی گاڑی آگے نہ بڑھ سکے۔
مذکورہ قرآنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ نظریاتی اعتبار سے خدا کی کتاب کو اپنے لیے رہنما کتاب بنائے۔ وہ پورے یقین کے ساتھ اُس کا مومن بن جائے۔ وہ اپنے صحیح اور غلط کو ناپنے کے لیے خدا کی کتاب کو اپنی میزان (ترازو) بنالے۔
دوسری بات جو آیت میں کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آدمی اپنی عملی زندگی میں فطرت کے اُس نمونے کی پیروی کرے جو لوہے کی صورت میں اِس دنیا میں رکھا گیا ہے۔ یعنی قول و عمل میں پختگی۔ قول و عمل میں اِس حد تک پختگی کہ آدمی قابلِ پیشین گوئی کردار(predictable character) کا حامل بن جائے۔ دوسرے یہ کہ وہ لوگوں کے لیے اُسی طرح نفع بخش (useful) بن جائے، جس طرح لوہا ہزاروں سال سے نفع بخش بنا ہوا ہے۔