تخلیق کس لیے
Creation For What
۳ جنوری ۲۰۰۶ کی رات کو میں دہلی میں اپنی رہائش گاہ(سی۔ ۲۹، نظام الدین ویسٹ) میں تھا۔ رات کو پچھلے پہرمیں نے ایک خواب دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ امریکا کے صدر جارج بش جو نیئر، میرے پاس آتے ہیں اور مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ آپ میرے بیٹے کو پڑھا دیجئے۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ میں ایک بڑے مکان میں ہوں۔ میں اس مکان کے اوپر کی منزل کے ایک کمرے میں جاتا ہوں۔ وہاں جارج بش کے بیٹے مغربی لباس پہنے ہوئے میرے پاس آتے ہیں۔ ان کی عمر تقریباً ۱۲ سال ہے۔ بیٹے نے مجھ سے پہلا سوال یہ کیا:
Why was man created
نیند کھلی تو میں نے اس خواب پر غور کیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے یہ آج کی پوری دنیا کا سوال ہو۔ آج پوری انسانیت شعوری یا غیر شعوری طورپر اس سوال سے دوچار ہے۔ آج ہر انسان یہ جاننا چاہتا ہے کہ موجودہ دنیا میں اس کے آنے کا حقیقی مقصد کیا ہے۔ زندگی کیا ہے اور موت کیا۔ کائنات کے وسیع نقشے میں اس کا مقام کیا ہے۔ وہ کون سا راستہ ہے جس پر چل کر وہ اپنی اس مطلوب منزل تک پہنچ سکتا ہے، جو اس کے دماغ میں بسی ہوئی ہے۔
وہ دنیا جس کو جدید دنیا کہا جاتا ہے، وہ پوری بشری تاریخ کا ایک انوکھا دور ہے۔ انسان ہر زمانے میں اپنے اندر کچھ آرزوئیں لے کر پیدا ہوتا تھا۔ وہ ان آرزوؤں کو صرف اپنی کہانیوں میں ظاہر کرسکتا تھا۔ مگر ساری عمر کی کوشش کے باوجود وہ ان آرزوؤں کی تکمیل نہیں کرسکتا تھا اور محرومی کے احساس کے ساتھ مرجاتا تھا۔
موجودہ دنیا میں بظاہر اِن آرزوؤں کی تکمیل کا سامان حاصل ہوچکا ہے۔ جس اڑن کھٹولے کا تصور صرف کہانیوں میں پایا جاتا تھا وہ اب ہوائی جہاز کی صورت میں ایک واقعہ بن چکا ہے۔ جو عالمی کمیونی کیشن صرف افسانوی کبوتر کے ذریعے متصور ہوتا تھا وہ اب جدید کمیونی کیشن کے ذریعے ایک عملی واقعہ بن چکا ہے۔
یہی معاملہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں ہوا ہے۔ قدیم زمانے کے تمام خواب آج بظاہر واقعہ بن چکے ہیں۔ قدیم زمانے کے افسانوی شہر اب بظاہر عملاً بنائے جاچکے ہیں جن کے اندر دنیا بھر میں عورت اور مرد رہ رہے ہیں۔ قدیم زمانے کی افسانوی زندگی اب بظاہر واقعہ بن چکی ہے۔
لیکن جہاں تک حقیقی خوشی کا سوال ہے، انسان آج بھی حقیقی خوشی حاصل نہ کرسکا۔ درخت کی شاخوں پر چہچہانے والی چڑیاں خوش ہوں گی لیکن انسان اب بھی خوشی سے محروم ہے۔ آج دنیا کے بازار میں ہر چیز مل سکتی ہے، مگر سکون کا سرمایہ کسی بازار میں میسر نہیں۔
اِس اَلم ناک صورتِ حال کاواحد سبب ایک ہے۔ اور وہ ہے—صرف،قبل از موت دورِ حیات(pre-death period) کو سامنے رکھ کر زندگی کو اکسپلین کرنے کی کوشش کرنا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کا ایک بعد از موت دورِ حیات (post-death period) ہے، اور اس ابدی دورِ حیات کو شامل کیے بغیر زندگی کی اطمینان بخش توجیہہ کرنا ممکن نہیں۔
اصل یہ ہے کہ خالق کے کریشن پلان (creation plan)کے مطابق، انسان کی زندگی دو دَوروں میں تقسیم ہے— قبل از موت دَور، اور بعد از موت دَور۔ قبل از موت دَورکی مدتِ حیات گویا فصل بونے کی مدت ہے، اور بعد از موت دَورکی مدتِ حیات گویا پھل حاصل کرنے کی مدت۔ اِس دنیا کا قانون یہ ہے کہ فصل کے بغیر پھل نہیں اور پھل کے بغیر ذراعت کی کوئی معنویت نہیں۔ انسانی زندگی کے اِس معاملے کو جانے بغیر، انسانی زندگی کی اطمینان بخش توجیہہ کرنا ممکن نہیں۔