دعوت عام، اصلاح امت
جس طرح صلاۃ اور زکاۃ دین کے دو الگ الگ شعبے ہیں، اسی طرح دعوت اور اصلاح دین کے دو الگ الگ شعبے ہیں۔ اگر دعوت عام اور اصلاح امت ، دونوں کو ایک سمجھ لیا جائے تو دونوں میں سے کسی کا بھی تقاضا پورا نہیں ہوگا۔ جس طرح صلاۃ اور زکاۃ دونوں کو ایک سمجھ لیا جائے تو نہ صلاۃ کا تقاضا پورا ہوگا اور نہ زکاۃ کا۔
اصلاحِ امت دراصل امت کی ایک داخلی ضرورت ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، امت کے اندر ہمیشہ زوال کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ امت کی ہر نسل میں احیاء (revival) کا عمل جاری رہے، امت کی ہر نسل میں دین کی اسپرٹ کو دوبارہ زندہ کیا جاتا رہے۔ یہ امت کے علماء کا ایک مستقل فریضہ ہے۔ لومۃ لائم (المائدہ: 54)کا اندیشہ کیے بغیر اس فریضے کو مسلسل طور پر جاری رکھنا ضروری ہے۔
دعوت الی اللہ سے مراد وہی چیز ہے جس کو قرآن میں انذار اور تبشیر (النساء 165:) کہا گیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہر قوم اور ہر انسانی گروہ کو مسلسل طور پر یہ بتانا کہ ان کے پیدا کرنے والے نے ان کو کس لیے پیدا کیا ہے۔ خالق کا تخلیقی نقشہ (creation plan) کیا ہے۔ ابدی کامیابی کیا ہے، اور ابدی خسران کیا ہے ۔ یہ دین کی عمومی پیغام رسانی کا کام ہے۔
دعوت کے دو خاص تقاضے ہیں جن کو قرآن میں ناصح اور امین (الاعراف: 68) کے الفاظ میں بیا ن کیا گیا ہے۔ یعنی مدعو کے ساتھ کامل خیر خواہی اور دعوت کے معاملے میں پوری دیانت داری۔ اس کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ دعوت کو مدعو کی قابلِ فہم زبان میں بیان کیا جائے۔ دعوت کو ایسے اسلوب میں بیان کیا جائے جو مدعو کے ذہن کو ایڈریس کرے۔ دعوت محض اعلان (announcement) کا نام نہیں ہے ، بلکہ وہ مدعو کے ساتھ کامل رعایت کا نام ہے۔ داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ یک طرفہ حسنِ تعلق کی روش اختیار کرے۔ تاکہ داعی اور مدعو کے درمیان اعتدال کی فضا باقی رہے۔