بصیرِ زمانہ

ایک طویل حدیث، ابو ذر غفاری نے روایت کی ہے۔ایک سوال کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وَعَلَى الْعَاقِلِ أَنْ یَکُونَ بَصِیرًا بِزَمَانِہِ (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 361) ۔ اور عاقل کو چاہیے کہ وہ اپنے زمانے کو جاننے والا ہو۔ اس حدیث میں عاقل سے مراد عاقل مومن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن کے اندر یہ دانش مندی ہونا چاہیے کہ وہ اپنے زمانے سے پوری طرح باخبر ہو۔ اپنے زمانے سے بے خبر ہونا مومن کے لیے جائز نہیں ہے۔

بصیر زمانہ ہونے کا مقصد کیا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مومن اپنے عمل کی صحیح منصوبہ بندی (right planning) کر سکے۔ زمانے سے باخبری کے بغیر اسلامی عمل کی صحیح منصوبہ بندی نہیں ہوسکتی ہے۔ اس بنا پر مومن کو یہ کوشش کرنا ہے کہ وہ اپنے زمانے کے حالات سے پوری طرح باخبر ہو، ورنہ اس کی سرگرمیاں بے نتیجہ ہوکر رہ جائیں گی۔

مثال کے طور پر مومن اگر ایسے زمانہ میں ہے جو امن کا زمانہ ہے۔ ایسے زمانے میں صرف پر امن منصوبہ بندی نتیجہ خیز ہو سکتی ہے۔ اگر مومن زمانے کے حالات سے بے خبر ہو، اور وہ امن کے زمانے میں جنگ کی تیاری کرے، اور پھر اپنے زمانے کے لوگوں کے خلاف لڑائی چھیڑ دے تو بلاشبہ اس کا منصوبہ غلط ہوجائے گا۔اپنے جان و مال کو قربان کرنے کے باوجود وہ کوئی مثبت نتیجہ (positive result) حاصل نہ کرسکے گا۔

اسی طرح اگر مومن پرنٹنگ پریس کے زمانے میں ہے، اور وہ ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابوں کی لائبریری بنا رہا ہے تو اس کا ایسا کرنا عملاً ایک ایسا کام ہوگا جس کا کوئی حقیقی نتیجہ نہیں ۔ اسی طرح اگر مومن ایسے زمانے میں ہے جب کہ اظہارِ رائے کی آزادی ایک مسلمہ حق سمجھا جاتا ہے، اور وہ دوسروں کی اظہارِ رائے پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرے تو یہ مطالبہ عملاً کبھی پورا نہ ہوگا۔البتہ وہ معتدل ماحول ختم ہوجائے گا جس میں مومن کے لیے بھی اظہارِ رائے کی یکساں آزادی ہو۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom