اسلام کی سیاسی تعبیر کا فتنہ
پرنٹنگ پریس کا زمانہ آنے کے بعد مسلم دنیا میں کچھ انقلابی مفکرین اٹھے۔ یہ لوگ اسلام کی سیاسی حاکمیت قائم کرنے کے نام پر جہاد اور قتال کی پُرزور تبلیغ کرنے لگے۔ اب مسلم دنیا، اِس قسم کے انقلابی مفکرین کی تیسری نسل کو دیکھ رہی ہے۔ پہلی نسل کے مفکرین میں سید جمال الدین افغانی اور ڈاکٹرمحمد اقبال کا نام لیا جاسکتا ہے۔ دوسری نسل کے مفکرین میں سید قطب اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کے نام شامل ہیں۔ تیسری نسل کے مفکرین میں اسامہ بن لادن اور ڈاکٹر اسرار احمد کے نام معروف ہیں۔
یہ انقلابی ذہن در اصل ایک طرف خلافتِ عثمانیہ کے زوال اور دوسری طرف مسلم دنیا کے بڑے حصے پر نو آبادیاتی نظام کے غلبے کا ردّعمل تھا۔ ابتدائی دور میں یہ لوگ صرف مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کی واپسی پر زور دیتے تھے، پھر دھیرے دھیرے یہ ذہن ایک مکمل نظریے اور فلسفے کی روپ میں ابھرا۔اب یہ کہا جانے لگا کہ— اسلام ایک مکمل نظام ہے (الإسلام دین شامل وکامل)، اِس لیے ضروری ہے کہ اسلام کو ایک کامل ریاست کے طورپر قائم کیا جائے، اِس کے بغیر اسلام ناقص رہے گا، اور ناقص اسلام ہمارے لیے دنیا میں بھی خسارے کا سبب ہے اور آخرت میں بھی خسارے کا سبب۔
واقعات بتاتے ہیں کہ اسلام کی سیاسی تعبیر کا ذہن تدریجی طورپر بنا۔ پہلی نسل کے مسلم رہ نماؤں کا نشانہ زیادہ تر زمین کی واپسی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ مسلم علاقوں پر مغربی قوموں نے غلبہ حاصل کرلیا ہے، اب ہمیں اِس غلبے کو ختم کرکے مسلم علاقے کو دوبارہ آزاد کرانا ہے۔ سید جمال الدین افغانی نے اِسی بات کو’ الشّرقُ للشّرقیین‘کے الفاظ میں بیان کیا تھا، یعنی مشرق کے مسلم ممالک سے مغربی غلبے کو ختم کرکے دوبارہ اُس کو مشرق کے مسلمانوں کے قبضے میں دینا۔
بعد کو شعوری یا غیر شعوری طورپر مسلم رہ نماؤں کے اندر یہ ذہن بنا کہ مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو وہ اپنا حامی بنا سکیں، چناں چہ عالمی اسلامی اتحاد (Pan-Islamism) کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انھوں نے یہ کیا کہ سیاسی مسئلے کو اعتقادی مسئلے کی حیثیت سے پیش کرنا شروع کردیا، یعنی انھوں نے مسلمانوں کو یہ تاثّر دینا چاہا کہ اُن کی مہم صرف ایک قومی مہم نہیں ہے، بلکہ وہ خالص مذہبی مہم ہے۔ اِس طرح انھوں نے ایک سیاسی مسئلے کو اعتقادی مسئلہ بنا دیا۔ انھوں نے اپنی تقریر اور تحریر کے ذریعے مسلمانوں کو یہ تاثر دینا شروع کیا کہ اسلام ایک مکمل نظام ہے، جس میں سیاست بھی لازماً شامل ہے۔اگر مسلمان، اسلام کو ایک مکمل نظام کے طورپر غالب اور نافذ نہ کریں تو ان کا اسلام ہی ادھورا رہ جائے گا۔
اس مقصدکے لیے بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ اِن کتابوں میں اسلام کی تعبیر ایک مکمل نظامِ حیات کے طورپر کی گئی۔ اسلام کی سیاسی تعبیر کے طورپر جو لٹریچر تیار کیا گیا، اُن میں سے قر آن کی دو مکمل تفسیریں بھی تھیں۔ سید قطب کی چھ جلدوں میں عربی تفسیر ’’فی ظِلال القرآن‘‘ اِسی فکر کے تحت لکھی گئی۔ اِسی طرح سید ابوالاعلیٰ مودودی کی چھ جلدوں میں لکھی جانے والی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ بھی خاص اِسی نظریے کے تحت تیار کی گئی۔جو آدمی اِن دونوں تفسیروں کو پڑھتا ہے، اُس کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ اسلام ایک مکمل سیاسی نظام ہے اور اس کو زمین پر غالب اور نافذ کرنا، یہی امتِ مسلمہ کا اصل مشن ہے۔
اِن مسلم رہ نماؤں نے اپنے نقطۂ نظر کی بنا جن آیتوں اور حدیثوں پر رکھی، وہ سب کی سب بلاشبہہ بے بنیاد تھیں۔ ان کی یہ تشریحات یا تو تفسیر بالرائے ہیں، یا وہ تحریف کی نوع سے تعلق رکھتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اِن حضرات نے یہ کام غیر شعوری طورپر کیا ہو، لیکن جہاں تک اُن کے استدلال کی علمی حیثیت کا تعلق ہے، وہ بلاشبہہ مکمل طورپر غلط اور غیر اسلامی ہیں۔ یہاں ہم ان کے بعض دلائل کا تجزیہ کریں گے۔
چند مثالیں
1 - قرآن کی سورہ نمبر بارہ میں آیا ہے کہ حضرت یوسف نے جیل میں اپنے رفیق پر تبلیغ کرتے ہوئے کہا: إن الحکم إلاّ للّٰہ، أمر أن لاّ تعبدوا إلاّ إیّاہ (یوسف: 40) اِس آیت کو لے کر کہا جاتا ہے کہ یہاں ’حکم‘ سے مراد سیاسی اقتدار ہے، حضرت یوسف یہ کہہ رہے ہیں کہ سیاسی اقتدار صرف خدا کا حق ہے، اِس لیے خدا ہی کی حکومت زمین پر قائم ہوناچاہیے۔
یہ تفسیر بلاشبہہ ایک باطل تفسیر ہے۔ اِس آیت کا پورا سیاق بتا رہا ہے کہ یہاں حُکم سے مراد فوق الفطری اقتدار ہے، یعنی وہی بات جس کو قرآن میں دوسرے مقام پر ربّ العالمین کہاگیا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ زمین اور آسمان کا خالق و مالک صرف خدا ہے، نہ کہ تمھارے مفروضہ معبود۔ اِس لیے تم کوچاہیے کہ تم اَصنام کی پوجا چھوڑ دو اور صرف ایک خدا کی عبادت کرو۔ خود حضرت یوسف کی عملی روش سے یہی بات ثابت ہوتی ہے، کیوں کہ حضرت یوسف نے مصر کے معاصر بادشاہ کے تحت ایک سرکاری عہدہ قبول کرلیا، حالاں کہ یہ بادشاہ مشرک تھا اور وہ اپنے قومی مذہب کے مطابق، اصنام پرستی میں مبتلا تھا۔
2 - اِس معاملے میں ایک استدلال ایک صحابی کے قول کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ یہ صحابی رَبعی بنِ عامر تھے۔ وہ حضرت عمر کی خلافت کے زمانے میں مسلم فوج کے ساتھ ایران گیے، وہاں ان کی گفتگو ایرانی سپہ سالار رستم سے ہوئی۔ اُس نے پوچھا کہ تم لوگ کیوں ہمارے ملک میں آئے۔ ربعی بن عامر نے جواب دیا کہ ہم یہاں اِس لیے آئے ہیں تاکہ خدا کے بندوں کو بندوں کی عبادت سے نکال کر خدا کی عبادت میں لائیں (لنُخرج مَن شاء مِنْ عبادۃ العبادِ إلی عبادۃ اللہ، تاریخِ طبری) صحابی کے اِس قول کو لے کر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسلام کا مشن ’تحریر الانسان‘ ہے، یعنی انسان کو انسانی جبر اور انسانی استحصال سے آزاد کرانا۔
یہ تشریح سرتاسر غیر علمی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اور اصحابِ رسول کو جو مشن سپرد کیا تھا، وہ ان کے زمانے ہی میں انجام پاگیا۔ اُس زمانے میں ساری دنیا میں بادشاہت کا نظام تھا اور بادشاہ لوگ اپنے سیاسی مفاد کے لیے مذہبی جبر (religious persecution) قائم کیے ہوئے تھے۔ یہ نظامِ جبر، خدا کے تخلیقی پلان کے خلاف تھا، اِس لیے خدا نے حکم دیا کہ اِس جبر کا خاتمہ کردو۔ چناں چہ پہلے عرب میں اِس کو ختم کیا گیا، اس کے بعد ایرانی شہنشاہیت اور رومی شہنشاہیت کا خاتمہ کرکے ایک ایسے دَور کا آغاز کیاگیا جس کے نتیجے میں ساری دنیا میں مذہبی جبر کے بجائے، مذہبی آزادی کا دَور دَورہ ہو۔
اِسی حقیقت کو صحابیِ رسول حضرت عبد اللہ بن عمر نے اِن الفاظ میں بیان کیا تھا: فعلنا علیٰ عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (فتح الباری، جلد 8، صفحہ 32)، یعنی وہ تو ہم نے عہدِرسالت ہی میں آخری طورپر انجام دے دیا۔ اب اہلِ اسلام کے لیے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ مذہبی آزادی کے مواقع کو استعمال کرکے دعوت الی اللہ کا کام کریں، نہ کہ جھوٹی لڑائی چھیڑ کر دوبارہ دنیا میں جبر کا ماحول قائم کردیں۔
3 - ایک حدیثِ رسول، ابنِ ماجہ، الترمذی اور مسند احمد میں آئی ہے۔ اس کو مشکاۃ المصابیح میں حدیث نمبر 29 کے تحت دیکھا جاسکتا ہے۔ اِس روایت کے مطابق، ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مجھے ایسا عمل بتائیے جو مجھ کو جنت میں داخل کردے اور مجھ کو جہنم سے دور کردے۔اِس کے جواب میں آپ نے اُن کو عبادتِ خدا، روزہ، نماز، حج، زکوٰۃ، ذِکر اللہ، صدقہ (انفاق)اور حفظِ لسان کی تلقین کی۔ آپ نے جو جواب دیا، اُس میں ایک جملہ یہ تھا: وذِروَۃُ سَنامِہ الجہاد (اور اُس کی چوٹی جہاد ہے)۔
’وذروۃُ سَنامہ الجہاد‘ کے جملے کو لے کر یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام میں خیرِاعلیٰ (summum bonum)گردن کٹانا ہے، یعنی جہاد اور قتال کرکے ساری دنیا میں اسلام کی حکومت قائم کرنا، اور خدا کی زمین پر خدا کے احکام نافذ کرنا۔
حدیث کی یہ تشریح سخت غیر علمی اور غیر منطقی ہے۔ اِس میں جہاد کا لفظ ہے، نہ کہ قتال کا لفظ۔ سیاق کے مطابق، یہاں جہاد سے مراد جہادِ نفس ہے، جیسا کہ دوسری حدیث میں آیا ہے: المجاہد من جاہد نفسَہ فی طاعۃ اللہ (مسند احمد، جلد 6، صفحہ 21) بالفرض اگر اِس حدیث میں جہاد کو قتال کے معنیٰ میں لیا جائے، تب بھی وہ صرف بوقتِ جارحیت قتال کے معنی میں ہوگا، پھر بھی اِس سے یہ خود ساختہ مفہوم نہیں نکلتا کہ اسلام ایک مکمل نظام ہے اور اس کو لڑکر ساری دنیا میں نافذ کرنا ہے۔
اسلام کی سیاسی تعبیر کے موضوع پر جو کچھ اُردو، یا عربی، یا انگریزی میں لکھا گیا ہے، اُس کا بڑا حصہ میں نے پڑھا ہے۔ذاتی مطالعے کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ تعبیر کسی نص کی بنیاد پر قائم نہیں ہے،وہ صرف قیاس اور استنباط کی بنیاد پر قائم ہے۔ اوریہ ایک مسلّم بات ہے کہ اساسی امور میں منصوص استدلال درکار ہوتا ہے، قیاسی اور استنباطی استدلال اِس طرح کے معاملے میں کبھی بنائِ استدلال نہیں بن سکتا۔
اِن حضرات کا ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ غلط استنباط کے ذریعے ایک سادہ آیت، یا حدیث میں سیاسی مفہوم شامل کردیتے ہیں۔ مثلاً دین کو اسٹیٹ کے ہم معنیٰ بتانا، نماز یا جماعت کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ عسکری ٹریننگ ہے، روزے کو فوجی مشقت کی تربیت بتانا، وغیرہ۔ اِس قسم کا استدلال سخت غیرعلمی استدلال ہے۔ اگر اِس قسم کے استدلال کو جائز استدلال قرار دیا جائے تو دنیا کی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو قرآن اور حدیث سے ثابت نہ کی جاسکے، حتی کہ اِس قسم کے استنباطی استدلال کے ذریعے اسلام کو ایک منسوخ دین بھی ثابت کیا جاسکتاہے۔
اِس سلسلے میں غیر علمی استدلال کی ایک اور قسم وہ ہے جس میں حرفِ عطف (واو) کی مدد سے بے بنیاد طورپر ایک غیر متعلق چیز کو اسلام کی کسی تعلیم میں شامل کردیا جاتا ہے۔ مثلاً کچھ لوگوں نے اِسی طریقے کے مطابق یہ کہا کہ شرکِ اعتقادی اور شرکِ عملی کے ساتھ شرک کی ایک اور قسم ہے اور وہ شرکِ سیاسی ہے۔ لا معبودَ إلاّ اللہ کے ساتھ اُس کا ایک اور جز ہے اور وہ لا حاکمَ إلا اللہ ہے۔ اِسی طرح کہا گیا کہ عبادت کے لفظ میں پرستش کے سوا ایک اور مفہوم شامل ہے اور وہ اطاعت ہے، وغیرہ۔ مگر اِس قسم کے تمام اضافے بلاشبہہ بے حقیقت اور بے بنیاد ہیں۔
تعلیماتِ اسلام کے دو پہلو
مطالعہ بتاتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے دوبڑے پہلو ہیں۔ قدیم اصطلاح میں اِن دونوں پہلوؤں کو ’حَسَن لذاتہ‘ اور ’حَسَن لِغیرہ‘ کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے، یعنی کچھ چیزیں وہ ہیں جو اپنے آپ میں مطلوب ہوتی ہیں، اور کچھ چیزیں وہ ہیں جو کسی اور چیز کی نسبت سے مطلوب ہوتی ہیں۔ اِس تقسیم کے مطابق، ذکر اللہ ’حسن لذاتہ‘ ہے اور قتال ’حسن لغیرہ‘۔
اِس فرق کو دوسرے الفاظ میں اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اسلام میں کچھ چیزیں وہ ہیں جو میٹر آف پرنسپل (matter of principle) کی حیثیت رکھتی ہیں، اور کچھ چیزیں وہ ہیں جن کی حیثیت میٹر آف کنوی نینس (matter of convenience) کی ہے۔ اِس تقسیم کے مطابق، سیاسی اقتدار کا معاملہ دوسری نوعیت کے حکم سے تعلق رکھتا ہے۔
چناں چہ جہاں تک پہلی نوعیت کے احکام کا تعلق ہے، اُن کے بارے میں قرآن میں براہِ راست زبان میں احکام دیے گیے ہیں۔مثلاً توحید کے بارے میں فرمایا کہ: قل ہو اللّٰہ أحد (الإخلاص: 1)، عبادت کے بارے میں فرمایا کہ: لا إلٰہ إلاّ أنا فاعبدنِی (طٰہٰ: 14)، عدل اور انصاف کے بارے میں فرمایا: إنّ اللّٰہ یأمرکم بالعدل والإحسان (النّحل: 95)،مگر جہاں تک سیاسی اقتدار کا تعلق ہے، اس کے بارے میں کہیں بھی اِس طرح براہِ راست حکم نہیں دیاگیا، یعنی کہیں بھی اِس طرح کے الفاظ نہیں آئے کہ تم لوگ اسلامی حکومت قائم کرو، یا زمین میں اسلامی قوانین کو نافذ کرو، یہی امت کی حیثیت سے تمھارا نصب العین ہے۔ اِس معاملے میں سیاست پسند افراد کی طرف سے جو دلائل دیے گیے ہیں، وہ سب کے سب قیاسی اور استنباطی ہیں، مگر اِس قسم کے اساسی معاملے میں مبنی بَر نص استدلال درکار ہے، نہ کہ مبنی برقیاس استدلال۔
حاکم کا تقرر
تمام دنیا کے سیاسی نظاموں میں واضح طورپر یہ موجود رہتا ہے کہ حاکم کا تقرر کس طرح کیا جائے، مگر قرآن میں اِس معاملے میں کوئی واضح حکم موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی زمانے کے مثالی دَور میں جن خلفائے اسلام کا تقرر ہوا، اُن میں سے ہر ایک کا تقرر الگ الگ ڈھنگ سے ہوا، گویا کہ ان کا تقرر حالات کے مطابق ہوا، نہ کہ کسی مستقل اصول کے مطابق۔
اسلام کے دورِ اوّل کو ہر معاملے میں ایک معیاری دَور مانا جاتا ہے۔ اُس زمانے میں چھ خلفاء ایسے تھے جن کو اسلام میں مثالی حکم راں کا درجہ حاصل ہے— ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان بن عفّان، علی بنِ ابی طالب، معاویہ بن ابی سفیان، عمر بن عبد العزیز۔ اِن میں سے ابتدائی پانچ خلفاء اصحابِ رسول میں شامل تھے۔ چھٹے خلیفہ عمر بن عبد العزیز کا شمار اجلّۂ تابعین میں سے ہوتا ہے۔ علماء نے بالاتفاق ان کو ’خلیفۂ راشد‘ کا درجہ دیا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اِن تمام خلفاء کا تقرر الگ الگ طریقے سے کیاگیا نہ کہ کسی ایک مقرر طریقے کے مطابق، کیوں کہ اس معاملے میں کوئی ایک متعین طریقہ موجود ہی نہ تھا۔ یہ واقعہ واضح طورپر بتاتا ہے کہ سیاسی اقتدار کا معاملہ اسلام میں نماز او رروزے کی طرح اصولی معاملہ نہیں ہے، اگر وہ اصولی معاملہ ہوتا تو توحید اور عبادت کی طرح اُس کے لیے بھی متعین احکام موجود ہوتے۔ یہ واقعہ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اسلام میں سیاسی اقتدار کا معاملہ میٹرآف کنوی نینس (matter of convenience) کی قسم سے تعلق رکھتا ہے، وہ عقیدے اور اصول کا معاملہ نہیں۔
خیرِ اعلیٰ: معرفتِ خداوندی
اسلام میں خیرِ اعلیٰ (summum bonum) کا درجہ صرف ایک چیز کو حاصل ہے، اور وہ معرفت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معرفتِ خداوندی کے سوا، کسی اور چیز کو خیرِ اعلیٰ کا درجہ دینا، خدا کی بھی تصغیر ہے اور خدا کے دین کی بھی تصغیر۔ جو لوگ سیاسی نظام کو خیر اعلیٰ سمجھتے ہیں، ان کے بارے میں کم سے کم جو بات کہی جاسکتی ہے، وہ یہ ہے کہ انھوں نے معرفتِ خداوندی کی عظمت کو دریافت نہیں کیا۔ اگر وہ معرفتِ خداوندی کی عظمتوں سے واقف ہوتے تو انھیں یہ بات سخت مضحکہ خیز معلوم ہوتی کہ معرفتِ خداوندی کے بجائے، ایک سیاسی نظام کو خیر اعلیٰ کا درجہ دیا جائے۔
قرآن کی سورہ نمبر تین میں ارشاد ہواہے: کونوا ربّانییّین (آل عمران: 79) یعنی تم لوگ ربّانی بنو۔ اِسی طرح قرآن میں ایسی آیتیں ہیں جن میں تلقین کی گئی ہے کہ تم لوگ ذاکرین بنو، تم لوگ خاشعین بنو، تم لوگ مخبتین بنو، تم لوگ عارفین بنو، تم لوگ خائفین بنو، تم لوگ متقین بنو، تم لوگ قانتین بنو، وغیرہ۔ یہ تصور سارے قرآن میں پھیلا ہوا ہے۔ ایک امریکی اسکالر نے اسلام کے گہرے مطالعے کے بعد ایک کتاب شائع کی ہے۔ اِس میں وہ بجا طورپر لکھتا ہے کہ:
The greatest concern of Islam is Allah.
اِس کے برعکس، قرآن میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اے اہلِ ایمان، تم لوگ سیاسی بنو، تم لوگ زمین کے حاکم بنو، اِس قسم کی بات قرآن میں کہیں بھی موجود نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن کتابِ معرفت ہے، نہ کہ کتابِ سیاست۔ یہی بات قرآن کے موضوع کے مطابق ہے۔ قرآن کا موضوع خدائے برتر کا تعارف ہے۔ اور زمین و آسمان کے خالق و مالک کا تعارف جس کتاب میں بیان کیا جائے، اس کا سب سے زیادہ اہم موضوع بلا شبہہ معرفت ہوگا، نہ کہ سیاست۔
سیاسی تعبیر کا نقصان
اسلام کی سیاسی تعبیر کوئی سادہ بات نہیں، یہ خود اسلام کی نفی کے ہم معنیٰ ہے۔ اِس قسم کی تعبیر فطری طور پر لوگوں کا ذہن سیاسی بنا دیتی ہے۔ سیاسی موضوعات ہی اُن کے لیے سب سے زیادہ اہم موضوعات بن جاتے ہیں۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ معرفت ایک ایسا موضوع ہے جس کا نشانہ خود آدمی کا اپنا وجود ہوتا ہے۔ ایسے آدمی کی توجہ ہمیشہ اپنی اصلاح پر لگی رہتی ہے، اپنی شخصیت کی تعمیر اور اپنے آپ کو خدا سے وابستہ کرنا، یہی اس کا سپریم کنسرن بن جاتا ہے۔
اِس کے مقابلے میں سیاست کا موضوع بالکل برعکس ذہن بناتا ہے۔ معرفت کی صورت میں سوچ کا نشانہ اگر داخلی تھا، تو سیاست کی صورت میں سوچ کا نشانہ خارجی بن جاتا ہے۔ مزید یہ کہ اِس خارجی نشانے کی حیثیت آدمی کے لیے حریف کی ہوتی ہے۔ آدمی یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اُس کی اصل کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی مدّ ِمقابل کو شکست دے اور اُس کے اوپر غلبہ حاصل کرے۔
معرفت کا نشانہ آدمی کے باطن کو خدا کی روشنی سے بھر دیتا ہے، اس کے اندر ہر قسم کی مثبت صفات پیداہونے لگتی ہیں۔ اِس کے برعکس، سیاست کا نشانہ آدمی کے باطن کو ظلمات سے بھر دیتا ہے۔ اُس کا وجود ہر قسم کی منفی نفسیات کا جنگل بن جاتا ہے۔ یہاں پہنچ کر آدمی کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ بظاہر ’مکمل اسلام‘ کی بولی بولتا ہے، لیکن عملاً اس کا وجود ’جزئی اسلام‘ سے بھی خالی ہوکر رہ جاتا ہے۔