دین اورمنہاج
قرآن کی سورہ نمبر 42 میں بتایاگیا ہے کہ خدا کا جو ’الدّین‘ہے، اُس کو خدا نے تمام پیغمبروں کو یکساں طورپردیا ہے (الشوریٰ:13)۔ الدّین سے مراد، خدا کے دین کی ابدی تعلیمات ہیں۔ یہ تعلیمات ہمیشہ یکساں رہتی ہیں، اِس میں حالات یا زمانے کے تغیر سے کوئی فرق نہیں ہوتا۔ دین کی یہ ابدی تعلیمات تمام پیغمبروں کو یکساں طورپر دی گئی ہیں۔ اِن ابدی تعلیمات کے اعتبار سے ایک اور دوسرے کے درمیان کوئی فرق نہیں (لانفرّق بین أحدٍ من رّسُلہ، البقرۃ: 285)
دوسری طرف، قرآن کی سورہ نمبر پانچ میں بتایاگیا ہے کہ ہر پیغمبر کو خدا نے الگ الگ منہاج دیے: لکلٍّ جعلنا منکم شِرعۃً ومنہاجاً (المائدۃ:48)۔ اِس سے معلوم ہوا کہ دینِ خداوندی کے دو حصے ہیں۔ ایک، الدین اور دوسرا، منہاج۔ الدین ابدی طور پر ایک ہی رہتا ہے، لیکن منہاج یا طریقِ کار (method) کا تعلق وقت کے حالات سے ہوتا ہے، اِس لیے حالات کی تبدیلی کے تحت اُس میں فرق ہوتا رہتا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی تھے (الأحزاب: 40) 570 عیسوی میں آپ مکہ میں پیداہوئے۔ 610 عیسوی میں آپ پرپہلی وحی اُتری۔ 632 عیسوی میں مدینہ میں آپ کی وفات ہوئی۔ آپ خدا کے آخری نبی تھے۔ آپ پر اُترنے والی کتاب(قرآن) کو خدا نے ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا۔ آپ کو جو الدین دیاگیا، وہ کامل بھی ہے اور ابدی بھی ہے۔ ہر زمانے کے انسانوں کے لیے خدا کے دین کو جاننے کا یہی واحد مستند ماخذ ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا دوسرا حصہ وہ ہے، جس کا تعلق منہاج یا طریقِ کار سے ہے۔ اِس معاملے میں آپ نے رہ نما اصول مقرر فرمادیے ہیں، لیکن جہاں تک عملی طریقے کا تعلق ہے، وہ علمائِ امت کا کام ہے۔ ہر زمانے کے علماء حالات کے اعتبار سے اُس منہاج یا طریقِ کار کو اختیار کریں گے جو اُن کو حالات کے اعتبار سے موثر اور مفید نظر آئے۔
دین اور منہاج کا فرق
دوسرے پیغمبروں کی طرح، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دو چیزیں دی گئیں— الدین اور منہاج۔ الدین سے مراد آپ کی تعلیمات کا وہ حصہ ہے جس کا تعلق، عقیدہ اور عبادت اور اخلاق جیسی اساسی چیزوں سے ہے۔ آپ کی تعلیمات کا یہ حصہ ابدی ہے۔ وہ اِس طرح کامل ہوچکا ہے کہ اُس میں اب کسی کمی یا اضافے کی گنجائش نہیں۔ یہی وہ بات ہے جو قرآن کی سورہ نمبر پانچ میں اِن الفاظ میں کہی گئی ہے: الیوم أکملتُ لکم دینَکم وأتممتُ علیکم نعمتی، ورضیت لکم الإسلام دیناً (المائدۃ: 3)
دین کا دوسرا حصہ وہ ہے جس کو قرآن میں ’مِنہاج‘ کہا گیا ہے۔ اِس بارے میں قرآن کی سورہ نمبر پانچ کی اِس آیت سے رہ نمائی ملتی ہے: لکلّ جعلنا منکم شرعۃً ومنہاجا (المائدۃ: 48) منہاج کا مطلب، طریقِ کار (method) ہے۔ طریقِ کار کا معاملہ ’’الدین‘‘ سے مختلف ہے۔ الدین، ابدی طورپر ایک ہی رہتا ہے، لیکن طریقِ کار کا تعلق حالات سے ہے۔ طریقِ کار، وقت کی صورتِ حال کی مناسبت سے بنتا ہے، نہ کہ کسی ابدی معیار کے تحت۔ پیغمبر اسلام کی زندگی میں اور اسلام کے بعد کی تاریخ میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ الدین کے معاملے میں پیغمبر اسلام کا اُسوہ،ابدی طور پر اور غیر متغیر طورپر ایک ہے اور ایک رہے گا، لیکن جہاں تک منہاج کا معاملہ ہے، اُس کا تعلق حالات سے ہے۔ ہر زمانے میں جو طریقہ حالات کے مطابق ہوگا، اُس کو اختیار کیا جائے گا۔
چند مثالیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب غزوۂ بدر (2 ہجری) کے لیے اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ سے کوچ فرمایا تو آپ نے اپنی صواب دید کے مطابق،ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ آپ کے ساتھیوں میں سے ایک ساتھی حبّاب بن مُنذر بن جموح نے آپ سے پوچھا کہ کیا یہ جگہ جہاں آپ نے پڑاؤ ڈالا ہے، یہ خدا کی وحی کی بنیاد پر ہے، آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ پھر تو یہ کوئی پڑاؤ ڈالنے کی جگہ نہیں (فإنّ ہٰذا لیس بمنزل)۔ اِس کے بعد آپ نے اُن کے مشورے کے مطابق، پڑاؤ کی جگہ کو بدل دیا۔
اِسی طرح کی ایک مثال وہ ہے جو غزوۂ اَحزاب (5 ہجری) کے موقع پر پیش آئی۔ اُس وقت آپ کے مخالفین ایک بڑی فوج لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اُس وقت اہلِ ایمان مقابلے کی پوزیشن میں نہ تھے، اِس لیے آپ نے چاہا کہ کسی تدبیر کے تحت جنگ کو ٹال دیا جائے۔ آپ نے لوگوں سے مشورہ کیا۔ اُس وقت سلمان فارسی کھڑے ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ ایران کے بادشاہ جب جنگ سے اعراض کرنا چاہتے ہیں تو وہ اپنے اور مخالف فوج کے درمیان خندق (trench) کھود دیتے ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس رائے کو پسند کیا اور ایرانی طریقے کے مطابق، مدینہ کے باہر ایک خندق کھوددی۔ اِس لیے اِس غزوے کو ’غزوۂ خندق‘ کہاجاتا ہے۔
اِسی طرح کا ایک معاملہ وہ ہے جو کھجور کے درختوں کی زرخیزی (pollination) سے تعلق رکھتا ہے۔ سیرت کی کتابوں میں اِس کو ’تأبیرِ نخل‘ کا نام دیاگیا ہے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ آئے تو وہاں کے لوگ کھجور کے درختوں کی زرخیزی کے لیے تأبیر نخل کا طریقہ اختیار کیے ہوئے تھے۔ آپ نے اُس کو دیکھا تو آپ نے اُس سے اپنے عدم اتّفاق کا اظہار کیا۔ چناں چہ لوگوں نے اُس کے بعد تأبیر یا تلقیح کے عمل کو چھوڑ دیا۔ مگر اِس کانتیجہ یہ ہوا کہ اُس سال کھجور کی فصل کم ہوئی۔ آپ نے کمی کا سبب پوچھا تو لوگوں نے کہا کہ آپ کے کہنے کے مطابق، ہم نے تأبیر اور تلقیح کا عمل نہیں کیا، اِس لیے ایسا ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ تم لوگ جو کرتے تھے، وہ کرو۔ کیوں کہ دنیا کے معاملے میں تم زیادہ جانتے ہو (أنتم أعلم بأمر دنیاکم)۔
اِس قسم کے واقعات بتاتے ہیں کہ جہاں تک الدین کا تعلق ہے، اِس معاملے میں پیغمبر اسلام کا اسوہ ایک کامل اور ابدی اسوہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن جہاں تک منہاج یا طریقِ کار کا تعلق ہے، اِس میں حقیقی حالات کی نسبت سے یہ متعین ہوگا کہ کس وقت کون سا طریقہ اختیار کیا جائے۔
پیغمبراسلام کا اُسوہ
اسلامی عقیدے کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم انسانی زندگی کے لیے ایک عملی نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ عملی نمونہ، زندگی کے ہر پہلو سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پیغمبراسلام کی عملی زندگی ہر اعتبار سے، انسان کے لیے ابدی رہ نما کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت ہے کہ اُس نے پیغمبر آخر الزّماں کی زندگی کو آخری طورپر محفوظ کردیا۔ ورنہ جہاں تک پچھلے پیغمبروں کا معاملہ ہے، ان کی تاریخ پورے طور پر محفوظ حالت میں موجود نہیں۔
لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے نمونہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کے یہاں انسانی زندگی کے ہر معاملے کے لیے ایک مقرر مثال (set pattern) یا ایک پیشگی نمونہ (prototype) موجود ہے اور ہمیں، حقیقی صورتِ حال کا لحاظ کیے بغیر، صرف یہ کرنا ہے کہ اِن پیشگی نمونوں کو لے کر ہمیشہ اُن کو اپنے ہر معاملے میں منطبق کرتے رہیں۔ اگر ایسا مانا جائے تو اسلام ایک جامد مذہب بن جائے گا، جس میں مزید ترقی کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ یہ بات پیغمبر اسلام کے زمانے کے لیے بھی درست ہے اور آپ کے بعد کے زمانے کے لیے بھی۔ اِس سلسلے میں چند مثالیں اوپر آچکی ہیں۔ یہاں مزید کچھ مثالیں درج کی جاتی ہیں۔
چند مزید مثالیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تھے تو اُس وقت کعبہ میں تین سو ساٹھ بُت رکھے ہوئے تھے، مگر آپ نے کبھی اُن بتوں کو توڑنے کی کوشش نہیں کی۔ کیوں کہ اُس وقت کی صورتِ حال یہ تھی کہ مکہ میں مسلم اور غیر مسلم دونوں موجود تھے۔ لیکن ہجرت کے آٹھویں سال جب مکہ فتح ہوا تو مکہ کے تمام لوگ اسلام میں داخل ہوگیے۔ اُس وقت صورتِ حال مکمل طور پر بدل گئی۔ چناں چہ آپ نے تمام بتوں کو کعبہ سے نکال دیا۔ یہ دو مختلف طریقے آپ نے صورتِ حال کے فرق کی بنا پر اختیار فرمائے۔
ایک اور مثال یہ ہے کہ مدینہ میں آپ نے ایک خطاب میں فرمایا کہ: نحن أمّۃٌ أمّیَّۃٌ، لا نکتب ولا نَحسِب (صحیح البخاری، مسلم، مسند احمد) یعنی ہم اُمّی لوگ ہیں۔ ہم نہ لکھتے ہیں اور نہ ہم حساب کرتے ہیں۔ یہ ابتدائی زمانے کی بات تھی۔ بعد کو ایرانی ایمپائر اور رومی ایمپائر اسلام کے علاقے میں داخل ہوئے تو صورتِ حال بدل گئی۔ اب بڑھی ہوئی ضرورتوں کی بنا پر سرکاری معاملات کا حساب رکھنا ضروری ہوگیا۔چناں چہ خلیفۂ ثانی عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسلامی سلطنت کے دفتروں کو ایرانی ایمپائر اور رومی ایمپائر کے نمونے پر قائم کیا۔ انھوں نے ایرانیوں اور رومیوں کے ماہر افرادکو اسلامی دفاتر میں رکھا، جو ایرانی اور رومی نقشے پر سرکاری معاملات کا حساب درج کرتے تھے۔
طریقِ کار کے معاملے میں یہی عمل آپ کے بعد بھی جاری رہا۔ بنو اُمیّہ کے زمانے میں بحری بیڑا تیار کیا گیا، حالاں کہ اِس سے پہلے اسلام میں ایسا نہیں کیاگیا تھا۔ بنو عبّاس کے زمانے میں بغداد میں رسدگاہ (observatory) بنائی گئی، جو اسکندریہ کے رومی دَور میں بنائی جانے والی رسد گاہ کی نقل تھی۔ خوارزم شاہ کے زمانے میں سمر قند میں کاغذ کا کارخانہ بنایاگیا، جس کا نمونہ چین سے لیاگیا تھا۔ اَندلس کی مسلم حکومت کے زمانے میں آب پاشی کے نیے طریقے اختیار کیے گیے، جس کا نمونہ غیر مسلم قوموں سے لیاگیا تھا، وغیرہ۔
یہی معاملہ موجودہ زمانے کی تمام مسلم سرگرمیوں کا ہے۔ آج ہر معاملے میں قدیم طریقے کو چھوڑ کر جدید مغربی طریقہ اختیار کیا جارہا ہے۔ مثلاً فلسطین اور دوسرے مقامات پر مسلمان جو مسلّح جہاد کررہے ہیں اُس میں قدیم نمونے کے مطابق، تلوار اور گھوڑے کو جہاد کا ذریعہ نہیں بنایا گیا ہے، بلکہ گَن اور بم کو جہاد کا ذیعہ بنایا گیا ہے، وغیرہ۔
خلاصہ یہ کہ اسلام کا ایک حصہ وہ ہے جس کو قرآن میں ’’الدین‘‘ کہاگیا ہے۔ یہ اسلام کا وہ حصہ ہے جس کا تعلق، عقیدہ اور عبادت اور اخلاقی نظام جیسی اساسی چیزوں سے ہے۔ یہی اسلام کا اصل حصہ ہے، اور یہ حصہ ابدی طورپر ایک ہے اور ایک ہی رہے گا۔ یہ حصہ اُسی طرح انسان کی رہ نمائی کے لیے ابدی سر چشمہ ہے، جس طرح آفتاب ابدی طور پر روشنی کا سرچشمہ بناہوا ہے۔
مگر منہاج یا طریقِ کار کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ طریقِ کارکا تعلق وقت کے حالات سے ہوتا ہے۔ طریقِ کار کے معاملے میں ہمیشہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ حالات کے مطابق، کون سا طریقہ زیادہ مؤثر ہے اور پھر اُس کو اختیار کرلیا جاتا ہے۔
مثلاً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو جب مکہ میں 610 عیسوی میں نبوت ملی توآپ نے اُس وقت اعلان کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ آپ مکہ کے قریب صَفا پہاڑی پر کھڑے ہوئے اور وہاں سے لوگوں کو بلند آواز سے پکارا۔ جب لوگ وہاں اکھٹا ہوئے تو آپ نے اُن کو توحیدکا پیغام دیا۔ مگر آج کا ایک داعی اِس کے بجائے یہ کرتا ہے کہ وہ ٹیلی ویژن کے اسٹوڈیو میں بولتا ہے اور وہاں سے اُس کی آواز تمام انسانوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اِس مثال میں پیغامِ دعوت کا تعلق، دین سے ہے اور صَفا، یا ٹیلی ویژن کا تعلق، طریقِ کار سے۔
اُسوۂ حسنہ
اسلام کے انھیں دونوں حصوں میں فرق کو واضح کرنے کے لیے قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُسوۂ حسنہ (الأحزاب:21) بتایاگیا ہے۔ اگر اس موقع پر قرآن میں ’اُسوۂ کاملہ‘ کا لفظ استعمال کیاجاتا تو لوگ غلط فہمی میں پڑ سکتے تھے، اور یہ سمجھ سکتے تھے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے الدّین میں آپ کے ذریعے انسان کو کامل رہ نمائی عطا فرمائی ہے، اُسی طرح منہاج کے معاملے میں بھی ابدی طورپر ہمیں آپ کے طریقے کی پیروی کرنا ہے۔ ایسا سمجھنا،بلا شبہہ ایک غلط فہمی ہوتی اور نتیجۃً طریقِ کار کے اعتبار سے اسلام جُمود کا شکار ہوجاتا۔
مثلاً طریقِ کار کو ابدی سمجھنے کے بعد یہ ہوتا کہ ہم کار اور ہوائی جہاز کے زمانے میں بھی اونٹ پر بیٹھنا ضروری سمجھتے۔ جدید فنِ تعمیر کے ظہور میں آنے کے بعد بھی ہم مسجد ِ نبوی کو کھجور کے تنوں اور پتّوں کے ذریعے بناتے رہتے۔پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ظہور کے بعد بھی ہم قرآن کو درخت کی چھالوں اور جانور کی جھِلّیوں پر بدستور لکھتے رہتے۔ جدید طرز کے دور مار ہتھیاروں کے ظہور میں آنے کے بعد بھی ہم قدیم نمونے کے مطابق، دستی تلوار کے ذریعے جہاد کرتے رہتے۔ جدید سائنسی دلائل کے ظہور میں آنے کے بعد بھی ہم قدیم روایتی معقولات کو اپنے علمِ کلام کا واحد سرمایہ سمجھتے۔ جدید کمیونی کیشن اور ٹیلی فون کے زمانے میں بھی ہم پرندوں اور جانوروں سے پیغام رسانی کا کام لیتے رہتے۔جدید الیکٹری سٹی کے ظہور کے بعد بھی ہم چراغوں اور دِیوں کے ذریعے اپنے گھروں کو روشن کرتے رہتے۔ زرعی ٹریکٹروں کے ظہور میں آنے کے بھی ہم ہَل اور بیل کے ذریعے زراعت کا کام جاری رکھتے، وغیرہ۔
اللہ تعالیٰ کی یہ ایک عظیم حکمت تھی کہ اُس نے قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی رہ نمائی کو بتانے کے لیے اُسوۂ حسنہ کا لفظ استعمال کیا۔ اگر اِس آیت میں اسوۂ کاملہ کا لفظ ہوتا تو لوگ یقینی طورپر غلط فہمی میں پڑ جاتے۔ لوگ الدین اور منہاج میں فرق کرنے سے قاصر رہتے۔ وہ غلط فہمی کی بنا پر یہ سمجھ لیتے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم، جس طرح الدین کے بارے میں ابدی اور کامل نمونہ ہیں، اِسی طرح منہاج اور طریقِ کار کے معاملے میں بھی آپ کا طریقہ ابدی ہے۔ اِس غلط فہمی کا یہ نتیجہ ہوتاکہ اسلام جمود کا شکار ہوجاتا۔ دوسری قومیں جدید ترقیاتی طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتیں اور مسلمانوں کا قافلہ اُن سے بہت زیادہ پیچھے ہوجاتا۔
اِس غلط فہمی اور اس کے غیر مطلوب نتائج کی ایک مثال تُرکی میں ملتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ عثمانی خلافت کا فوجی نظام، قدیم طرز کے مطابق چلا آرہا تھا، یعنی اُن کی فوجی تیاری تلواروں اور گھوڑوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ پھر نشاۃِ ثانیہ کے بعد مغربی یورپ کی مسیحی قوموں نے سامانِ جنگ کے لیے نئی ٹکنک اور نیے ہتھیار دریافت کیے۔ اِس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ تُرکوں اور اِن مسیحی قوموں کے درمیان فوجی توازن بگڑ گیا۔ جدید ہتھیاروں سے مسلح مغربی فوجوں کے مقابلے میں ترکوں کی فوج شکست کھانے لگی۔ ترکی کے مسلمانوں کے لیے یہ ایک چشم کشا واقعہ تھا۔ چناں چہ بحث ومباحثے کے بعد یہ طے ہوا کہ ترکی کی فوج کو جدید ہتھیاروں کے ذریعے مسلح کیا جائے۔ چناں چہ وہاں ایسا ہی کیا گیا۔