مسلم مسلک کیا ہے

مسلم مسلک کیا ہے۔ اِس سوال کے جواب میں  اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمان اپنی دشمن قوموں  کی سازش کا شکار ہیں، یہ اغیار کی سازش ہے جس نے مسلمانوں  کو موجودہ زمانے میں  مسائل سے دوچار کررکھا ہے۔ یہ جواب، قرآن کی صراحت کے مطابق، یقینی طورپر بے بنیاد ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر3 میں  ارشادہوا ہے کہ: وإن تصبروا وتتقوا لا یضرکم کیدُہم شیئًا (آل عمران: 120) یعنی تم اگر صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو دشمن کی سازش تم کو کوئی نقصان نہیں  پہنچا سکے گی۔ صاحب مدارک التنزیل نے اِس آیت کی تشریح میں لکھا ہے: ہٰذا تعلیمٌ من اللہ وإرشادٌ إلیٰ أن یُستعان علیٰ کید العدوّ بالصبر والتقویٰ۔ (یہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم ہے اور اس کی ہدایت ہے کہ دشمن کی سازش کے مقابلے میں  صبر اور تقویٰ سے مدد حاصل کی جائے)

اِس پر آپ غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ ایمان کے لیے جو مسئلہ ہے، وہ سازش کی موجودگی نہیں  ہے، بلکہ اصل مسئلہ صبر اور تقویٰ کی غیر موجودگی ہے۔ مذکورہ سوال کا یہ جواب قرآن کی براہِ راست نصّ سے ثابت ہے، اِس لیے اُس کے برحق ہونے پر کوئی شک نہیں  کیا جاسکتا۔

اِس آیت میں  مسئلۂ سازش کے حل کے طورپر دو لفظ کا ذِکر آیا ہے— صبر اور تقویٰ۔ صبر کا مطلب دراصل سیلف کنٹرول (self-control) ہے، یعنی پیش آمدہ صورتِ حال میں  ردّعمل سے بچ کر اپنے اقدام کی مثبت منصوبہ بندی کرنا۔ کوئی صورتِ حال پیش آئے تو جذباتی تأثر کے تحت، جوابی کارروائی نہ کرنا بلکہ معاملے کے تمام مالہٗ وما علیہ (موافق اور غیر موافق پہلو) کا اندازہ کرکے سوچا سمجھا اقدام کرنا۔

قرآن کی مذکورہ آیت میں  دوسرا لفظ جو استعمال ہوا ہے، وہ تقویٰ ہے۔ یہاں  تقویٰ کا مطلب خود قرآن کی ایک اور آیت سے واضح ہورہا ہے۔ دوسری جگہ قرآن میں  ارشاد ہوا ہے: ولایجرمنکم شناٰن قومٍ علیٰ أن لا تعدلوا، إعدلوا ھو أقرب للتقویٰ (المائدۃ: 8) اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ تقویٰ کا مطلب ہے— دشمنی کی حالت پیدا ہونے کے باوجود عدل پر قائم رہنا، اشتعال کی حالت میں  بھی انصاف کی روش پر برقرار رہنا۔

قرآن کی اس آیت کی روشنی میں  موجودہ زمانے کے مسلمانوں  کے کیس پر غور کیجیے۔ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان کسی بھی ملک میں اِس قرآنی معیار پر پورے نہیں  اترتے۔ ہر جگہ مسلمانوں  کا حال یہ ہے کہ وہ مخالفِ مزاج باتوں  پر مشتعل ہو کر عاجلانہ اقدام کربیٹھتے ہیں۔ وہ صرف انتقام کا فارمولا جانتے ہیں، عدل اور انصاف کا فارمولا اُنھیں  معلوم ہی نہیں۔

ایسی حالت میں  مسلمانوں  کے مسئلے کا حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے اپنی پالیسیوں  کے غلط ہونے کا اعتراف کرنا۔ دوسروں  کو بُرا بتانے کے بجائے، خود اپنی کمزوریوں  کو دریافت کرنا۔ اپنے سارے معاملے کا ری اسیس منٹ (reassessment) کرنا، اور پھر صبر اور تقویٰ کے اصول کی روشنی میں اپنے عمل کا نیا منصوبہ بنانا۔

میرے نزدیک، موجودہ زمانے کے مسلمانوں  کو تین نُکاتی فارمولے پر عمل کرنا چاہیے۔ اِس کے سوا اُن کے لیے کوئی بھی دوسرا لائحۂ عمل مفید نہیں  ہوسکتا۔ وہ تین نکاتی فارمولا یہ ہے:

1 - دوسروں  کے خلاف منفی تقریر اور تحریر کو مکمل طورپر ترک کردینا۔

2 - پوری نسل کو تعلیم یافتہ بنانے کی کوشش کرنا۔

3 - غیر مسلموں  میں  عالمی پیمانے پر اسلام کا مثبت تعارف۔

کوئی بھی بڑا کام صرف مثبت ذہن کے لوگ انجام دیتے ہیں۔ نکتۂ اول کی اہمیت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں  کے اندر یہی مثبت ذہن پیدا کرتا ہے۔ موجودہ حالت میں  مسلمانوں  کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ وہ تمام انسانیت کے لیے، دوست اور دشمن کی تفریق کے بغیر، خیر خواہ بن جائیں۔ ان کا نظریہ صرف اکرامِ مسلم نہ ہو، بلکہ ان کا نظریہ وسیع تر معنوں  میں  اکرامِ انسان ہو۔ ان کا برتاؤ ہر ایک کے لیے انسان فرینڈلی برتاؤ (insan-friendly behaviour) بن جائے، نہ کہ صرف مسلم فرینڈلی برتاؤ۔

حدیث میں  مومن کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ: أن یکون بصیراً بزمانہ، یعنی بصیرتِ زمانہ سے بہرہ وَر ہونا۔ تعلیم کا فائدہ یہی ہے۔ میرے نزدیک، تعلیم کا معیار یہ ہے کہ لوگ اپنی مادری زبان کے ساتھ عربی اور انگریزی زبانیں  بھی بقدر ضرورت جانیں۔ تعلیم کا مقصد شعوری بیداری ہے، اور حقیقی معنوں  میں  شعوری بیداری کے لیے تین زبانوں  کا جاننا ضروری ہے۔

دعوت الی اللہ کا مقصد صرف دعوت کا اعلان کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ غیرمسلموں  کو یہ محسوس ہو کہ مسلمان، دنیا میں  صرف لینے والے گروہ (taker group) نہیں  ہیں، بلکہ وہ دینے والے گروہ (giver group) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِس دنیا میں  بڑی کامیابی صرف اُس کو ملتی ہے جو دسرے کے لیے نافع بن جائے۔ شکایت اور احتجاج کا ذہن لے کر کوئی گروہ کبھی کوئی بڑی ترقی حاصل نہیں  کرسکتا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom