عقیدہ اور سیاست

دینِ اسلام کے دوبڑے حصے ہیں۔ ایک حصہ وہ ہے جس کا تعلق ابدی عقیدے سے ہے، اور دوسرا حصہ وہ ہے جو حالات کے تابع ہوتا ہے، اس لیے اس میں  تغیر ہوسکتا ہے۔ پہلا حصہ حقیقی (real) ہے، اور دوسرا حصہ اضافی (relative)۔ پہلے حصے کو میٹرآف بلیف (matter of belief) کہیں  گے، اور دوسرے حصے کو میٹر آف کنوی نینس (matter of convenience) کہیں  گے۔

عقیدے سے مراد، توحید اور رسالت اور آخرت کا عقیدہ ہے، عبادت بھی اِسی میں  شامل ہے۔ میٹر آف کنوی نینس میں  جو چیزیں  شامل ہیں، اُن میں  سے ایک سیاست اور حکومت ہے۔ عقیدہ اور عبادت میں ابدیت (eternity) ہے، ان کی مطلوبیت دائمی ہے۔ لیکن سیاست اور حکومت کا معاملہ اُس سے الگ ہے۔ جیسے حالات ہوں  گے اُسی کے مطابق، سیاست اور حکومت کے معاملات بھی ہوں  گے۔

اسلام میں  سیاست کو عقیدے کا مسئلہ نہیں  بنایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں  قائم شدہ حکومت کے خلاف خروج (revolt) کرنا حرام ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جب ایک حکومت قائم ہو جائے تو اُس کے خلاف ہر گز باغیانہ کارروائی نہ کی جائے، بلکہ اس کے ساتھ معتدل تعلقات قائم رکھتے ہوئے غیر سیاسی دائروں  میں  کام کیا جائے، مثلاً دعوت، تعلیم اور اصلاحی کام، وغیرہ۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام میں  خلیفہ کے تقرر کا کو ئی متعین اصول موجود نہیں۔ اِس معاملے میں  قرآن میں  کوئی ہدایت نہیں  دی گئی۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ کو معیاری زمانہ مانا جاتا ہے۔ اِس زمانے میں  چھ برحق خلیفہ، یا حکم راں  ہوئے— ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان بن عفّان، علی ابن ابی طالب، معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم اور عمر بن عبد العزیزؒ۔

جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے، اِن میں  سے ہر خلیفہ یا حکم راں  کا تقرر الگ الگ ڈھنگ سے کیا گیا۔ یہ واضح طورپر اِس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام میں  سیاسی ادارے کے متعلق کوئی متعین نقشہ موجود نہیں۔ حالاں  کہ ہر سیاسی دستور میں  اس کا واضح ڈھانچہ موجود ہوتا ہے۔

اِس صورت حال کا سبب یہ ہے کہ اسلام کا سب سے بڑا کنسرن خدا ہے۔ اسلام کے نزدیک سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انسان خدا کی معرفت حاصل کرے۔ وہ خدا کا سچا عبادت گزار بنے۔ وہ اعلیٰ اخلاق کے ساتھ لوگوں  کے درمیان رہے۔ اِسی کے ساتھ وہ لوگوں  کو خدا کے دین کی طرف بلائے۔ وہ خالص غیر سیاسی انداز میں  اسلام کا داعی بن جائے۔ وہ اصلاح اور تعلیم کے دائرے میں  لوگوں  کی خدمت کرے۔

سیاسی اقتدار کا قیام اسلام کا نشانہ نہیں۔ قرآن کے مطابق، سیاسی اقتدار کی حیثیت پرچۂ امتحان کی ہے، اُس کا معاملہ مال جیسا ہے۔ مال انسان کے لیے امتحان کا پرچہ ہے، اس لیے مال کبھی ایک انسان کے پاس ہوتا ہے اور کبھی دوسرے انسان کے پاس۔ کیوں  کہ خدا کو ہر انسان کا ٹیسٹ لیناہے۔ اگر مال و دولت کو ابدی طورپر کسی ایک فرد یا گروہ کا حصہ بنادیا جائے تو مال کی نسبت سے دوسرے لوگوں  کی آزمائش نہ ہوسکے گی، حالاں  کہ ایسا ہونا خدا کے تخلیقی پلان کے خلاف ہے۔

یہی معاملہ سیاسی اقتدار کا ہے۔ سیاسی اقتدار بھی امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ سیاسی اقتدار کسی کو اِس لیے دیا جاتا ہے کہ اُس کو آزما کر دیکھا جائے کہ وہ اقتدار پاکر کیسا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی اقتدار کسی ایک فرد یا گروہ کے ہاتھ میں  نہیں  رہتا، بلکہ وہ مختلف لوگوں  کے درمیان گردش کرتا رہتا ہے۔ اِس اصول کو قرآن میں  اِن الفاظ میں  بتایا گیا ہے: تلک الأیّام نداولھا بین الناس (آل عمران: 140)

اسلام میں  سیاسی اقتدار کا مطلق طورپر مطلوب نہ ہونا کوئی کمی کی بات نہیں، یہ انسانی فلاح کے لیے بے حداہم اصول ہے۔ انسانوں  کے درمیان تمام بڑے بڑے جھگڑے سیاسی اقتدار کو لے کر ہوتے ہیں۔ اِس لیے سیاسی اقتدار کے معاملے میں  اسلام نے اسٹیٹس کوازم (status quoism) کا اصول اختیار کیا ہے۔ اِس اصول کا فائدہ یہ ہے کہ سماج میں  امن قائم رہتا ہے۔ لوگ جنگ اور تشدد سے بچ کر اصلاح اور تعمیر کے کام میں  زیادہ سے زیادہ مشغول رہتے ہیں۔ اِس بات کودوسرے لفظوں  میں  اِس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ اسلام میں  بالواسطہ سیاست ہے، نہ براہِ راست سیاست۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom