بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام
ایک عظیم جدوجہد
قرآن مالکِ کائنات کا فرمان ہے جو اس بات کا فیصلہ کرتاہے کہ عزّت کس کے لئے ہے اور ذلت کس کے لئے ؟ کامیاب کون ہے اور نامُراد کون؟ دینوی اعتبار سے جب ہم کامیابی کا لفظ بولتے ہیں تو اس کے معنیٰ یہ ہوتے ہیں کہ کسی سوسائٹی میں ایک شہری کو ترقی کے جومواقع دئے گئے ہیں ان کو استعمال کرکے اونچے درجات تک پہنچنا۔ایک شخص بڑا تاجر، اونچا عہدیداراور اعلیٰ اعزازات کا مالک ہوتو اس کوکامیاب انسان کہاجاتاہے ۔اس کامطلب یہ ہے کہ ماحول کے اندر تجارت کو بڑھانے کی جو ممکن صورتیں ہیں ، اعلیٰ عہدوںپر پہنچنے کے لئے جو صفات مقرر کی گئی ہیں ، اعزازات کے حصول کے لئے جو راستے بنے ہوئے ہیں، وہ شخص ان کو عبور کرگیا ہے اور اپنی جدوجہد کے نتیجہ میں اس نے اس بلند مقام کو پالیاہے جو قانونِ وقت کے تحت اس کے لئے ممکن تھا۔ کامیابی کے معنیٰ الٰہ دین کا چراغ پالینے کے نہیں ہیں ،بلکہ کامیابی صرف اس واقعہ کا نام ہے کہ ایک شخص نے اپنی صلاحیت اور کام کے مواقع کو ان راہوں میں صرف کیا جو اسکے لئے کھلی ہوئی تھیں اور بالآخر اپنی کوششوں کے نتیجہ میں اس منزل تک پہنچ گیا جہاں راستوں کا کوئی چلنے والا پہنچتاہے ۔ کامیابی کوئی خوش قسمتی سے پیش آنے والا اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ وہ صحیح جدوجہد کافطری نتیجہ ہے ۔اسی بات کو ایک مفکر نے ان لفظوں میں ادا کیا ہے ۔
’’لائق شخص اور کامیاب نہ ہو ، جھوٹ ہے ‘‘
یہی حال دوسری زندگی کی کامیابی کا بھی ہے جوانسان کی حقیقی منزل ہے ۔جہاں تمام اگلے پچھلے انسان اپنے رب کے حضور جمع کئے جائیں گے۔اس دن عزت اور کامیابی ان لوگوں کے لئے ہوگی جوخدا کی رضا کوپالیں اور ذلّت اور نامُرادی ان لوگوں کے لئے ہوگی جو اس کی رضا کو حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ پہلے گروہ کے لئے دائمی عیش ہے اوردوسرے گروہ کے لئے دائمی عذاب ۔جوشخص قرآن پر ایمان لائے اور اسلام کو اختیار کرے وہ گویا پہلے انجام کا اُمیدوارہے اور دوسرے انجام سے بچنا چاہتا ہے۔مگر اس مقامِ بلند کا حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ یہ ایک عظیم چڑھائی ہے جس کو عبور کرنے کے لئے ایک لمبے عمل کے بعد آدمی اس کے اوپر پہنچتاہے ۔ خدا کا انعام کسی پڑی ہوئی چیز کی طرح محض اتفاق سے کسی کو نہیں مل جاتا، بلکہ دنیوی کامیابی کی طرح وہ بھی ایک زبردست جدوجہد کاقدرتی نتیجہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق کسی شخص کو حاصل ہوتاہے ۔ آخرت میں انسان کی کامیابی دراصل ایک لمبے امتحان سے پار اُتر جانے کا دوسرا نام ہے ۔ انسان کو پیدا کرکے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی دنیا میں ڈال دیا ہے جہاں طرح طرح کے باطل نظریات اورفاسدرُجحانات ہیں ، جن سے اسے اپنے دل ودماغ کو پاک کرنا ہے، بہت سے غلط اور ناجائز طریقے ہیں جن سے اسے بچنا ہے ،بہت سی شیطانی اور طاغوتی قوتیں ہیں جو انسان کو راہِ حق سے پھیر دینے میں لگی ہوئی ہیں ، ان طاقتوںسے لڑ کر انہیں زیر کرناہے ۔ غرض دشواریوں سے بھرا ہوا ایک راستہ ہے جس کو طے کرکے اس کو اپنے رب تک پہنچناہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے :
حُجِبَتِ النَّارُ بِالشَّهَوَاتِ، وَحُجِبَتِ الْجَنَّةُ بِالْمَكَارِهِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6487؛صحیح مسلم، حدیث نمبر 2822) ۔یعنی، جہنم لذتوں سے ڈھکی ہوئی ہے اور جنت تکلیفوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔
اسلام کی حقیقت کواگر کسی ایک لفظ سے تعبیر کرناہو تو اس کے لئے قربانی سے زیادہ موزوں اور کوئی لفظ نہیں ہوسکتا۔اسلام دراصل ایک زبردست جدوجہد ہے ۔وہ قربانی کا ایک مسلسل عمل ہے جو ایمان لانے کے بعد سے آدمی کی موت تک جاری رہتاہے ۔ سب سے پہلی قربانی آدمی اس وقت دیتاہے جب وہ اپنے پسندیدہ خیالات اور قلبی رجحانات کو خیرباد کہہ کر دینِ حق کوقبول کرتا ہے۔ اس کے بعددوسری قربانی وہ ہے جو عمل کی دنیامیں دی جاتی ہے ۔اخلاق ومعاملات اور معیشت وتمدن میں وہ ان طریقوں کو چھوڑ دیتاہے جو خدا کو ناپسند ہیں اور ان طریقوں کو اختیار کرلیتاہے جو خدا کومحبوب ہیں۔پھر جب وہ ان دونوں مرحلوں کو پارکرلیتاہے تو وہ امتحان کے اس آخری میدان میںپہنچ جاتاہے جہاں نہ صرف حرام چیزیں بلکہ زندگی کے جائز اثاثے بھی چھوڑ دینے ہوتے ہیں ۔ حتیٰ کہ اپنی جان بھی قربان کردینی پڑتی ہے ۔ یہ جان کی قربانی اس سلسلۂ امتحان کی تکمیل ہے اور عہد بندگی کوآخری طور پر ثابت کردکھاناہے جوایمان لاکر آدمی نے اپنے رب سے کیا تھا ۔
یہ تین دور جن سے گزر کر آدمی اپنے رب تک پہنچتاہے اور اس کی رضا کامستحق بنتاہے ۔ ان کو قرآن میں —ایمان ، ہجرت اور جہاد کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ فرمایا
الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللهِ بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللهِ وَأُولئِكَ هُمُ الْفائِزُونَ (9:20)۔ یعنی، جو لوگ ایمان لائے جنہوں نے ہجرت کی اور اپنی جانوں اور مالوں سے خدا کی راہ میں جہاد کیا ان کے لئے خدا کے یہاں بڑا درجہ ہے اور یہی لوگ دراصل کامیاب ہیں۔
اس آیت میں ایمان سے مُراد حقائق کوتسلیم کرناہے جوقرآن میں تلقین کئے گئے ہیں ، اور ہجرت سے مُراد اس بات کی جدوجہد ہے کہ جس عقیدہ نے آدمی کے دل کے اندر جگہ بنائی ہےوہی زمین پر بھی عملاً موجود مشہور ہوجائے ۔ اس طرح یہ— ایمان ، ہجرت اورجہاد — ایک دوسرے سے الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی سلسلۂ سفر کی اگلی پچھلی منزلیں ہیں ۔ یہ ایک ہی کیفیت کے مختلف ارتقائی مراحل ہیں جن کو ممیّز کرنے کے لئے جدا جدا عنوان دے دیا گیا ہے ۔ آج کی صحبت میں مَیں اختصار کے ساتھ ان تینوں کی تشریح کروں گا۔