ہجرت
اب ہجرت { FR 3888 }کولیجئے — ہجرت کے معنیٰ ہیں چھوڑ نا، ترک تعلق کرنا، عام طور پر ہجرت کو ترکِ وطن کے ہم معنیٰ سمجھا جاتا ہے۔ یقیناً ہجرت کا لفظ مخصوص طور پر جس واقعہ کے لئے بولا جاتا ہے وہ یہی ہے۔ مگر کسی واقعہ کو اس کے پس منظر سے الگ کر کے سمجھا نہیں جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ترکِ وطن جو مومن کی زندگی میں پیش آتا ہے کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہوتا بلکہ ایک لمبی تاریخ کا اختتام ہوتا ہے، یہ ایک ایسا عمل ہے جو مومن کی زندگی میں پہلے دن سے شروع ہوتا ہے اور بالآخر ترک علائق تک پہنچ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک شخص پر حق کا انکشاف ہوتا ہے اور وہ اٹھ کر لوگوں کو اس کی طرف بلانا شروع کر دیتا ہے۔ وہ وقت کے خلاف ایک نئی آواز کا علمبردار بن کر گویا یہ اعلان کرتا ہے کہ اسنے ماحول کی بندگی چھوڑ دی اور زمانہ کے خلاف اپنے لئے ایک راہ بنانے کافیصلہ کیا ہے۔ یہ ہجرت کا آغاز ہے جب آدمی ناجائز زندگی کوچھوڑ کرجائز زندگی کواپنانے کا عزم کرتاہےتو اس کے بعد ایک مسلسل جدوجہدشروع ہوجاتی ہے جس میں اس کو بہت سی پرانی چیزوں کو چھوڑنا اور بہت سی نئی چیزوں کو اختیار کرنا ہوتاہے،کتنے ہی اپنے لوگوںسے کٹنا اورکتنے غیروں سے جُڑناہوتاہے ۔ اندر سے باہر تک بے شمار پسندیدہ چیزوں کو ترک کرنا اور اس کے بجائے دوسری ناخوشگوار چیزوں کو قبول کرنا پڑتاہے ۔ اس طرح ایمان لانے کے ساتھ ہی مومن کی زندگی میں ہجرت سے ایک نیا طرز عمل اختیار کرنے کے لیے بہت سی پرانی چیزوں کو چھوڑنے کی ابتداء ہو جاتی ہے۔ یہ ہجرت جو اس نے خود کی ہے دوسروں کو بھی اسی کی طرف بلانا شروع کر دیتا ہے جس کے نتیجہ میں کچھ لوگ اس کا ساتھ دیتے ہیں اور کچھ لوگ مخالف بن جاتے ہیں۔ اس طرح ماحول میں بالکل دو مقابل گروہ ابھرنے لگتے ہیں جن میں سے ایک گروہ اس چیز سے چمٹا ہوا رہتا ہے جس کو دوسرا گر وہ چھوڑ دینا چاہتا ہے۔
یه اختلاف صرف اس پہلو سے نہیں ہوتا کہ ایک گروہ دوسرے گروہ پر تنقید کرتا ہے اور اس کے رویہ کو غلط قرار دیتا ہے۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر دونوں کے درمیان ایک عملی کش مکش شروع ہو جاتی ہے۔ انسانی معاشرہ ایک وحدت ہے جس میں کوئی شخص دوسرے تمام لوگوں سے الگ اپنے لیے کوئی راہ نہیں بنا سکتا۔ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے سماجی واقع ہوا ہے۔ اس کی تمام ضرور تیںدوسروں سے مل جل کر انجام پاتی ہیں اور اس کو دوسروں کے پھیلائے ہوئے نظریات کے مطابق، زندگی بسر کرنی ہوتی ہے۔ کوئی شخص اپنے پسند کئے ہوئے نظریہ کے مطابق زندگی بسر نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ سماج کے تمام اداروں میں اسی نظریہ کو حاکم نہ بنادے۔ اس کے بغیر نہ تو وہ مدرسہ میں اپنی مرضی کے مطابق تعلیم حاصل کر سکتا ہے، نہ بازار میں اپنی مرضی کے مطابق خرید و فروخت کر سکتا ہے، نہ عدالتوں سے اپنے اصول کے مطابق فیصلے لے سکتا ہے، حتی کہ وہ یہ بھی نہیں کر سکتا کہ جس چیز کو وہ حلال سمجھتا ہے اسے کھالے اور جو چیزیں اس کے نزدیک حرام ہیں ان کو اپنے حلق کے نیچے اتر نے نہ دے۔ اس لیے جب کوئی شخص وقت کے خلاف کسی مسلک کو اختیار کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کا یہ فیصلہ لازمی طور پر ان لوگوں سے ٹکراؤ کا سبب بن جاتا ہے جن کے بنائے ہوئے نظام کے اندروہ زندگی گزار رہا ہے۔ انسانی معاشرہ کی مثال ایک جال کی سی ہے جس کے تمام افراد حلقوں کی مانند ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہیں۔ اس میں سے کسی ایک حلقہ کو الگ کرنے کی کوشش پورے جال کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔ اس طرح ایک مستقل اختلاف شروع ہو جاتا ہے جو دن بہ دن نمایاں ہوتا چلا جاتا ہے، قدم قدم پر ایک دوسرے سے مزاحمت پیش آتی ہے۔ جس میں برسر اقتدار طبقہ اہل حق کو ستانے اور ان کو ذرائع حیات سے محروم کرنے کی ساری تدبیریں کرتا ہے۔ دونوں طرف سے شدت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ایک طرف مظالم کی شدت دوسری طرف یہ شدت کہ سب کچھ سہیں گے مگر اپنے عزم کو ترک نہیں کریں گے۔ جس چیز کو غلط سمجھ کر ایک بار چھوڑ چکے ہیں اس کی طرف دوبارہ واپس نہیں جائیں گے۔ یہ کش مکش بالآخر ایک ایسے نقطے پر پہنچ جاتی ہے جہاں معاشرہ حق پسندوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے اور یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ان کے وجود کو سرے سے ختم کر دیا جائے۔ اس وقت اہلِ حق یہ طے کرتے ہیں کہ اس بستی کو چھوڑ کر زمین کے کسی دوسرے ٹکڑے میں چلے جائیں۔ پہلے انھوں نے غلط خیالات اور حرام معاملات کو ترک کیا تھا۔ اب وہ اپنے مکان، اپنی جائداد، اپنے عزیزوں،غرض ساری متاع حیات کو چھوڑ دیتے ہیں ۔ یہ ہجرت کی آخری اور انتہائی شکل ہے۔
اس ہجرت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک مقام کو چھوڑ کر آدمی دوسرے مقام پر چلا جائے، بلکہ یہ ناحق کو چھوڑ کر حق کی طرف بڑھنا ہے۔ یہ شیطان و طاغوت کی بندشوں سے نکل کر خدا کی طرف بھاگنا ہے۔ چنانچہ قرآن و حدیث میں مومنین کی ہجرت کو’’ہجرت الی اللہ‘‘ کہا گیا ہے۔ یعنی خدا کی طرف ہجرت۔ ایسا کیوں ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ لوگ زمین چھوڑ کر آسمان پر نہیں چلے جاتے بلکہ اسی دنیا میں رہتے ہیں۔ ایسا کہنے کی وجہ یہ ہے کہ چھوڑنے کا یہ عمل خدا پرستی کے نتیجہ میں ہوتا ہے۔ خدا کی طرف ہجرت کرنے کا مطلب ہے کہ خدا کی راہ میں جو کچھ مانع آئے، جو چیز بھی اس کی طرف بڑھنے میں رکاوٹ بنے اس کو چھوڑ دینا۔ یہ خدا پرستانہ زندگی کی بنیاد ہے۔ جب تک آدمی اس ہجرت کے لئے تیار نہ ہو وہ ایمان کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا۔ اپنی زندگی کو اسلامی زندگی بنانے میں وہی کامیاب ہو سکتا ہے جو اس قربانی کے لیے تیار ہو۔ جب وہ دیکھے کہ اس کے اندر ایسے افکار اور رجحانات پرورش پارہے ہیں جو خدا کی مرضی کے خلاف ہیں تو انھیں کھرچ کر نکال دے۔ اگر وہ غلط اعمال میں مبتلا ہو تو انھیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ دے یا کسی کا تعلق دین کی طرف کھل کر آنے میں روک بن رہا ہو تو ایسے تعلق کو خیر باد کہہ دے۔ کسی معیارِ زندگی کو برقرار رکھنے کا مسئلہ دین کے کام میں اپنا حصہ ادا کرنے کا موقع نہ دیتا ہوتو ایسے معیار ِزندگی کو دفن کر دے۔ دین کے تقاضے پورے کرنے میں معاشی خوشحالی کو خطرہ لاحق ہو تو اس کو گوارا کر لے۔ اپنے آپ کو خدمت دین کے لیے وقف کرنے میں اپنا اور بچوں کا مستقبل تاریک نظر آتا ہو تو ان کی پروا کیے بغیر آگے بڑھ جائے۔ غرض ہر بار جب آدمی کسی ایسی حالت میں مبتلا ہو کہ ایک طرف خدا بلا رہا ہو اور دوسری طرف کوئی دوسرا تقاضا آدمی کو کھینچ رہا ہو تو دوسرے تقاضوں کو چھوڑ کر خدا کی طرف بڑھ جانا اسی کا نام ہجرت الی اللہ ہے۔
اس ہجرت کے بہت سے مراحل اور اس کی بے شمار قسمیں ہیں۔ مگر اس کی حقیقت سمجھنے کے لیے ہم اس کو دو بڑے عنوانات میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک ناجائز اور حرام چیزوں کو چھوڑنا اور دوسرے ان چیزوں کو چھوڑ نا جو فی نفسہٖ قابل اجتناب نہیں ہیں۔ مگر دین کو اختیار کرنے کے نتیجہ میں ایسے مراحل آتے ہیں کہ مومن کو ان سے بھی دست بردار ہونا پڑتا ہے۔
ہجرت کی پہلی قسم میں خیالات اور اعمال کی وہ پوری فہرست آتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام اور قابلِ ترک قرار دیا ہے ۔ ہر آدمی کسی ماحول میں پیدا ہوتا ہے۔ ماحول نام ہے تاریخ،روایات، عادات اور چال چلن کے ایک مخصوص ڈھانچے کا۔ یہ افکار و اعمال کا ایک نظام ہے جو زندگی کے تمام گوشوں پر چھایا ہوا رہتاہے ۔ جس طرح زمین کے گولے کے گرد ہواکا ایک غیر مرئی غلاف ہے جس میں ہم سب لوگ ڈوبے ہوئے ہیں،ٹھیک اسی طرح ہرپیدا ہونے والا اپنے وقت کے ماحول میں ڈوبا ہواپیدا ہوتاہے۔اسی کے اندر اس کی نشوونما ہوتی ہے ،ماحول کے افکار اور روایات اس کی رَگ رَگ میں پیوست ہوجاتے ہیں اور اکثراوقات ان کے خلاف سوچنا اس کے لئے دشوار ہوجاتاہے ۔جب آدمی پر حق کا انکشاف ہوتاہے تو سب سے پہلے ’’دینِ آباء‘‘ کو چھوڑنے کامرحلہ اس کے سامنے آتاہے ۔ اس کو ان تمام غلط اثرات کوکھرچ کر اپنے اندر سے نکال دینا ہوتاہے جوماحول کے اثر سے اس نے قبول کررکھے تھے ۔ پھر ہرآدمی کے اندر ایک نفس ہوتاہے، یہ نفس صرف لذتوں کو ڈھونڈتا ہے، اس کے نزدیک کسی چیز کوپسند یا نا پسند کرنے کا معیار یہ نہیں ہے کہ وہ صحیح ہے یاغلط، اچھی ہے یا بُری بلکہ اس کے نزدیک پسندیدگی کا معیار صرف یہ ہے کہ وہ اسے اچھی لگتی ہے اور اس کے ذریعہ سے اس کو فائدہ حاصل ہوتاہے ۔آدمی اپنی جاہلی زندگی میں بہت سی ایسی دلچسپیوں اور مشغولیتوں کو اپنے اندر جمع کرلیتاہے جو اگرچہ غلط ہیں مگر اس کے نفس کو پسند آتے ہیں۔اسی طرح وہ بہت سی ایسی ذمہ داریوں کو بھلا دیتاہے اور انہیں ترک کردیتاہے جواگرچہ اخلاقاً اس کے لئے ضروری ہیں مگر اس کے نفس کو پسند نہیں آتیں۔ اس لئے جب کوئی شخص ایمان لاتاہے تو اس کو اپنی زندگی میں شکست وریخت کا ایک مستقل عمل جاری کرناپڑتاہے ۔بہت سی چیزیں جو اس کو پچھلی زندگی میں نہایت عزیز تھیں، انہیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیتاہے ، اور بہت سی چیزیں جن سے اسے نفرت تھی ، جن سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی ، ان کو اپنی زندگی میں شامل کرناہوتاہے ۔اس طرح ایمان لانے کے بعد غلط جذبات ، غلط تعلقات اور غلط اعمال سے جُدائی کی ایک مستقل مہم شروع ہوجاتی ہے ۔ زندگی کے تمام معاملات میں ناجائز طریقوں سے بچنے کا ایک پیہم عمل کرنا ہوتاہے جو موت کی آخری گھڑی تک جاری رہتاہے ۔ یہ ہجرت کی پہلی اور ابتدائی قسم ہے جو ماضی کے غلط عادات واطوار سے اپنے کو پاک کرنے اور آئندہ اس طرح کی کوئی چیز قبول نہ کرنے کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔اس ہجرت کا ذکرقرآن میں سورہ مدثر میں کیا گیا ہے جونبوت کے بالکل ابتدائی زمانہ کی سورت ہے ۔ فرمایا
وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ(74:5)۔یعنی، گندگی سے ہجرت کر۔
یعنی ،خیال اور عمل کی تمام برائیوں کو چھوڑ دے۔یہی بات آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل الفاظ میں واضح فرمائی ہے: اَلْمُھاجِر مَنْ ہَجَرَمَا نَہیْ اللہُ عَنہُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 10)۔ یعنی، مہاجر وہ ہے جو ان چیزوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع کیا ہے۔
یہ ہجرت الی اللہ کا ایک پہلو ہے جس میں آدمی کو تمام نا جائز چیزیں چھوڑ دینی ہوتی ہیں۔ خدا کی مرضی کے مطابق بننے کے لیے ان چیزوں سے اپنے کو پاک کرنا ہوتا ہے جو خدا کی مرضی کے خلاف ہیں۔ اس کا دوسرا پہلو وہ ہے جس میں آدمی مجبور ہوتا ہے کہ اپنے جائز مفادات بھی خدا کی راہ میں قربان کر دے۔ ایسا اس لیے ہے کہ اسلام آدمی کو کرنے کا اتنا بڑا کام دے دیتا ہے کہ اس کے بعد پھر اسے کچھ اور کرنے کا موقع باقی نہیں رہتا۔ اس کی تو جہات اپنی ذات سے ہٹ کر ہمہ تن اسلام کی طرف لگ جاتی ہیں۔ اس لیے کہا گیا ہے کہ دنیا کے اندر مومن کی صرف ذمہ داریاں ہیں، یہاں اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس کا جو کچھ حق ہے وہ خدا کے یہاں ہے اور وہیں وہ اسے پائے گا۔
اسلام کو قبول کرنے کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنی زندگی میں اس کو اختیار کر لے۔ بلکہ عین اسی کے ساتھ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دوسروں کو اس کی طرف بلائے اور پورے معاشرہ میں اس کو قائم کرنے کی جدو جہد کرے۔ دین کا یہ دہرا تقاضا ہماری ذمہ داری کو صرف دوگنا نہیں کرتا بلکہ اس کو انتہائی حد تک دشوار بنا دیتا ہے۔ اگر چہ انفرادی زندگی میں ممکن حد تک دین کو اختیار کرنا بھی کچھ آسان کام نہیں ہے۔ یہ فتنوں سے بھری ہوئی دنیا میں اپنے اختیار اور اپنے ارادہ کو صرف صحیح سمت میں استعمال کرنا ہے۔ یہ خود مختار ہو کر اپنی مرضی سے اپنے آپ کو پابند بنا لینا ہے اور موت کی آخری گھڑی تک پابند بنائے رکھنا ہے۔ مگر دین کا دوسرا تقاضا ہے، یعنی دوسرے بندگانِ خدا تک خدا کے پیغام کو پہنچانا اور اس کے دین کو عملاً زمین کے اوپر قائم کرنے کی جدوجہد کرنا۔ یہ اتنا گراں بار تقاضا ہے کہ اس کا تصور بھی آدمی کو لرزا دینے کے لیے کافی ہے۔ یہ ایک ایسا عظیم اور جاں گسل کام ہے جو اس کی ساری قوت اور اس کا سب کچھ مانگتا ہے۔ دعوت حق اور اقامت دین کے علاوہ کسی کام میں وہ جتنا وقت اورقوت بھی صرف کرے گا اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اس کے بقدر وہ اصل فریضہ کی ادائیگی میں کمی کررہاہے۔
آدمی جب اس حیثیت سے دین کو قبول کرتاہے تو وہ فوراً محسوس کرتاہے کہ اس کام میں اپنا حصہ ادا کرنے کے معنیٰ یہ ہیں کہ میں اور کچھ نہ کروں ۔ وہ اپنے لئے اس کے سوا کوئی راہ نہیںپاتا کہ اپنی ضرورتوں کو انتہائی حد تک مختصر کرے ۔ دُنیا کے اندر اپنی تمنّائوں کوہمیشہ کے لئے دفن کردے اور اپنی ذات کے لئے کم سے کم مصروف رہ کر حق کی زیادہ سے زیادہ خدمات انجام دے ۔وہ مجبور ہوتاہے کہ بالکل ناگزیر ضروریات کی فراہمی کے بعد جو وقت بھی ملے اس کو شہادتِ دین کی راہ میں لگا دے ۔ دوسرے لفظوں میں اسلام کو اپنی انفرادی زندگی میں اختیار کرنا ہو تو صرف حرا م چیزوں کو چھوڑ کر بھی کوئی شخص ’’دیندار‘‘بن سکتاہے مگر اسلام کو اجتماعی زندگی میں قائم کرنے کی مہم شروع کیجئے تو آ پ کو بہت سی حلال چیزوں سے بھی دستبردار ہوناپڑے گا ۔ اس کے بغیر صحیح طور پر اس کام کی ابتدا ء بھی نہیں کی جاسکتی اور اس کو انجام تک پہنچانا تو بہت دُور کی بات ہے ۔
پہلی صورت میں آدمی کے اوپر صرف اس کی اپنی ذمہ داری ہوتی ہے اور دوسری صورت میں وہ ساری خلق تک پیغام حق پہنچانےکا ذمہ دار بن جاتاہے ۔ یہ چیزآپ کی مصروفیتوں اور دقتوں میں بے پناہ اضافہ کردیتی ہے ۔اس کا تقاضا ہے کہ آپ اسلام کے برسرحق ہونے اور اس کے سِوا دوسرے تمام افکار ونظریات کے برسرحق ہونے کا بے پناہ یقین پیدا کریں تاکہ آپ اس کے پُرجوش مبلغ بن سکیں۔ آپ کو اسلام کا تفصیلی علم حاصل کرنا ہے تاکہ دوسروں کےسامنے اس کو واضح انداز میں پیش کرسکیں۔ آپ کو ان غلط افکار ونظریات کے خلاف دلائل فراہم کرنے ہیں جنہوں نےانسانی ذہنوں کو متاثر کررکھاہے تاکہ باطل کو چھوڑ کر لوگوں کو حق کی طرف آنے پر آمادہ کیا جاسکے —آپ کو ایک ایک شخص تک پہنچنا ہے اور اس کی نفسیات ، اس کے حالات اور اس کی قوتِ فہم کے مطابق اسے بات سمجھانی ہے۔آپ کو اسلامی اخلاق کا نہایت اعلیٰ نمونہ بننا ہے تاکہ آپ کی زندگی آپ کے دعوے کی تردید کرنے والی نہ ہو بلکہ اس کی صداقت پر گواہ ہو، غرض فرائض کی ایک عظیم فہرست ہے جو آپ سے آپ کی پوری عمر اور آپ کا پورا اثاثہ مانگتی ہے ۔پھر ایسے فرض کو ادا کرنے کی ذمہ داری اوڑھنے کے بعد کسی دوسری چیز میں دلچسپی لینے کا موقع کہاں باقی رہتاہے ۔
یہ ہجرت کی دوسری قسم ہے۔ یعنی دین کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اپنی ذات کے تقاضوں کو چھوڑ دینا۔ جب دین کی ضروریات اور اپنی ضروریات میں ٹکراؤ ہو، جب دین کا کام آپ سے آپ کا پورا وقت اور آپ کی ساری صلاحیتیں مانگتا ہو، جب دین کا تقاضا یہ ہو کہ آپ اپنی خوشی، اپنا آرام اور اپنے عزیز و اقارب تک کو چھوڑ کر اس کی طرف بڑھیں تو آپ اپنا سب کچھ اس کے لیے قربان کر دیں اور کوئی چیز بھی ایسی نہ ہو جس کا تعلق آپ کو دین کی طرف جانے میں روک بن جائے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو مندرجہ ذیل آیت میں بیان کی گئی ہے۔ مومن، مہاجر اور مجاہد فی سبیل اللہ کے بلند درجات کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے
قُلْ إِنْ كانَ آباؤُكُمْ وَأَبْناؤُكُمْ وَإِخْوانُكُمْ وَأَزْواجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوالٌ اقْتَرَفْتُمُوها وَتِجارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسادَها وَمَساكِنُ تَرْضَوْنَها أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ وَجِهادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بِأَمْرِهِ وَاللهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفاسِقِينَ (9:24)۔یعنی، اے نبی کہہ دو، اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے ، تمہارے بھائی ، تمہاری بیویاں اور تمہاری برادری کے لوگ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے ماند پڑنے کا تمہیں ڈر لگا رہتاہے اور مکانات جو تم کو پسند ہیں اگر یہ تم کوخدا اور رسول سے زیادہ محبوب ہیں اور خدا کی راہ میں جہاد کرنے کے مقابلہ میں تم کو ان چیزوںسے زیادہ شیفتگی ہے تو انتظار کرو، یہاں تک کہ خدا کافیصلہ آجائے اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
اس آیت میں جن چیزوں کا ذکر ہے وہ سب کی سب اصلاً جائز ہیں اور ان میں سے کوئی بھی فی نفسہٖ حرام نہیں ہے۔ مگر مومنین سے کہا گیا ہے کہ ان سب کو چھوڑ کر خدا کی طرف بڑھیں اور جو لوگ ایسا نہ کریں وہ فاسق(یعنی عہد شکن) قرار دیئے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ مطالبہ ہمارے پیش رو حضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم جمعین سے کیا تھا جنہوں نے نبی آخر الزماں کے ذریعہ اپنے رب سے عہد کیا تھا کہ وہ دین کو غالب کرنے کی جدو جہد میں اپنی ساری قوت لگادیں گے۔ جب صحابۂ کرام کے اس عہد پر بیس سال کی مدت گزرگئی اور انھوں نے مسلسل قربانیوں کے ذریعہ یہ ثابت کر دیا کہ وہ دین کو قائم کرنے کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ نے کے لئے تیار ہیں تو غزوۂ تبوک سے واپسی کے بعد ۹ ھ میں اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل الفاظ میں ان کی کوششوں کی قبولیت کا اعلان فرمایا
إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْداً عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْراةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفى بِعَهْدِهِ مِنَ اللهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بايَعْتُمْ بِهِ وَذلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (9:111)۔ یعنی، اللہ نے مومنین سے ان کی جانوں اور مالوں کو خرید لیاہے اس قیمت پر کہ ان کے لئے جنت ہے ۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے رہے ہیں پھر مارتے رہے ہیں اورمارے جاتے رہے ہیں ۔یہ اللہ کا وعدہ ہے، تو رات میں، انجیل میں اور قرآن میں اور اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کوپورا کرنے والا کون ہے۔ پس خوش ہوجائو اپنے اس سودے پر جو تم نے اللہ سے کیا ہے اوریہی بڑی کامیابی ہے ۔
یہ ہجرت یا دوسرے لفظوں میں جائز مفادات کی قربانی انسان کی خدا پرستی کا امتحان بھی ہے اور اسی کے ذریعہ سے خدا کا دین بھی خدا کی زمین پر قائم ہوتا ہے۔ یہ اقامتِ دین کی جدو جہد کا لازمہ ہے۔ جولوگ اس کام میں حصہ لینے کے لیے آگے بڑھیں مگر ان کا حال یہ ہو کہ وہ دنیا میں اپنا مقام محفوظ کر لینے کے بعد آخرت کا کام کرنا چاہتے ہوں، جو اپنے معیارِ زندگی کو گھٹانے پر تیار نہ ہوں، جو اپنے بچوں کے مستقبل کو خطرے میں ڈالنا گوارا نہ کریں، جو دنیوی زندگی میں اپنی تمناؤں اور خواہشوں کو قربان نہ کریں، جو یہ نہ سوچیں کہ اپنی معاشی مصروفیات میں کمی کر کے دین کی خدمت کے لیے اور زیادہ وقت نکالنا چاہئے بلکہ اس کے برعکس جو ہمیشہ یہ سوچتے ہوں کہ کس طرح اور کوئی بڑا کام مل جائے تا کہ اپنے بڑھے ہوئے اخراجات کو پورا کیا جاسکے ۔ مختصر یہ کہ جن کے اندر اتنا حوصلہ نہ ہو کہ وہ آج کے فائدے پر کل کے فائدے کو ترجیح دے سکیں ایسے لوگوں نے کبھی تاریخ میں دین کو قائم نہیں کیا ہے۔ اور جب تک یہ زمین و آسمان قائم ہیں آئندہ بھی ایسے لوگوں کے ہاتھوں یہ کام نہیں ہو سکتا۔