ایمان

سب سے پہلے ایمان کو لیجئے ۔ یہ اس عظیم امتحانی مہم میں شریک ہونے کافیصلہ کرناہے جس کی ابتداء زبان کے اقرار سے ہوتی ہے اور جس کی انتہا یہ ہے کہ اسی پرقائم رہ کر آدمی اپنی جان دے دے۔یہ وہ عہدہے جو بندہ اپنے خدا سے اس بات کے لئے کرتاہے کہ وہ ساری عمر اس کا وفادار رہے گا۔ ایمان اس کیفیت کا نام ہے جو حقیقت کے صحیح اور مخلصانہ شعور سے پیدا ہوتی ہے ۔ جب آدمی اس حیرت انگیز کائنات کے پیچھے ایک لامحدود قوت کا مشاہدہ کرلیتاہے ، جب وہ خدا کے رسول کو تسلیم کرکے اس کے تمام فیصلوں پر راضی ہوجاتاہے ،جب اس کا دل پُکار اُٹھتاہے کہ تخلیق کا یہ عظیم منصوبہ بے مقصد نہیں ہے بلکہ ایک ایسا دن آنے والا ہے جب ماضی اور مستقبل کے تمام انسانوں کو جمع کرکے ان کا حساب لیا جائے گا ،تو اسی کیفیت کے مجموعہ کو ہم ایمان سے تعبیر کرتے ہیں ۔

ایمان کی اصل روح اعتماد کرناہے۔یہ اعتماد ایک ایسی ہستی کے بارے میں ہوتاہے جس کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے ۔ اس لئے اس میں یقین کا مفہوم پیدا ہوا۔ اسی طرح خدا کو اس کی تمام صفات کے ساتھ ماننے کے لازم معنیٰ یہ ہیں کہ اس کے غضب سے ڈرا جائے اور اس کے عذاب سے بچنے کی فکر کی جائے ، اِسی لئے اس کے ساتھ تقویٰ اور خوف کا ہونا ضروری ہے ۔ اس طرح اگر قرآن کے تصورِ ایمان کی تشریح کے لئے تین الفاظ  —یقین، اعتماد اور خوف — کواکٹھا کردیں تو ہم اس کی روح کے بالکل قریب تک پہنچ جاتے ہیں ۔ایمان اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے— خدا اور رسول پر اس کلی اعتماد کا نام ہے جو یقینِ کامل سے پیداہوتاہے اورخدا اس خوف کا نام ہے جوآدمی کو مجبورکرتاہے کہ کسی پولیس اور فوج کے تسلط کے بغیر خود سے اس کی اطاعت کو اپنے اوپر لازم کرلے۔

یقین جوایمان کا پہلا جزء ہے ، یہ خارج سے درآمد کی ہوئی کسی چیز کا نام نہیں ہے بلکہ اس حقیقت کا زندہ شعورہے جو خودانسان کی فطرت میں چھپی ہوئی ہے ۔ انسان کائنات پر غورکرتاہے ، رسول کی تعلیمات کو دیکھتاہے اور اپنے اندر سے اٹھنے والی آواز پر کان لگاتاہے تو یہ تینوں چیزیں بالکل ایک معلوم ہوتی ہیں۔ اس کو ایسا محسوس ہوتا ہے گویا کوئی ایک ہی پیغام ہے جو ایک وقت میں تین مختلف مقامات سے نشر ہورہا ہے۔ خدا کا رسول جس حقیقت کی خبر دیتا ہے کا ئنات پوری کی پوری بالکل اس کی ہم آہنگ معلوم ہوتی ہے اور انسان کی اندرونی آواز ہمہ تن اس کی تصدیق کرتی ہے۔ وہ کتاب الٰہی میں جو کچھ پڑھتا ہے، زمین و آسمان کے اندر اسی کو دیکھتا ہے اور جو کچھ پڑھتا ہے اور دیکھتا ہے اس کی فطرت اس کو اس طرح قبول کر لیتی ہے جیسے کسی خانے میں بالکل اسی سائز کی چیز رکھ دی گئی ہو ۔ مگر یقین کی یہ کیفیت اس کو خود بخود حاصل نہیں ہوتی، جس طرح فطرت کی ہر صلاحیت اسی وقت رو به کار ہوتی ہے جب اس کو نشو و نما دے کر اُبھارا جائے۔ کائنات کا ہر راز اسی وقت ایمان والے کے اوپر بے نقاب ہوتا ہے جب اس کی تلاش میں وہ اپنے آپ کو گُم کر چکا ہو اور کسی کتاب کے مضامین اسی وقت آدمی پر کھلتے ہیں اور اسے فائدہ پہنچاتے ہیں جب اس کا گہرا مطالعہ کر کے اس کے مطالب کو اخذ کیا جائے۔ ٹھیک اسی طرح یہ یقین بھی آدمی کو اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب وہ اپنی قوت ارادی کو اس کے لیے کام میں لائے۔ یہ اگر چہ کا ئنات کی واضح ترین حقیقت ہے مگر اس دنیا کے لیے اللہ تعالی کا قانون یہی ہے کہ آدمی کو وہی کچھ ملے جس کے لیے اس نے جدو جہد کی ہو۔

 ایمان کا دوسرا جزء’’اعتماد‘‘ہے۔ اپنی ذات اور کائنات کا مطالعہ جہاں آدمی کو ایک طرف یہ بتاتا ہے کہ ایک عظیم خالق اور کارساز ہے جو اس کارخانہ کے تمام واقعات کا حقیقی سبب ہے۔ اسی کے ساتھ اور عین اس وقت اس کو دو اور باتوں کا شدید احساس ہوتا ہے۔ ایک اپنی انتہائی بے چارگی کا اور دوسرے خدا کے بے پایاں احسانات کا ۔ وہ دیکھتا ہے کہ وہ اپنے وجود کے لیے بے شمار چیزوں کا ضرورت مند ہے۔ مگر وہ کسی ایک چیز کو بھی خود سے نہیں بنا سکتا۔ وہ ایک کمزور بچہ کی شکل میں پیدا ہوتا ہے اور بڑھاپے کی ناتوانیوں کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔ وہ ایک ایسی زمین کے اوپر کھڑا ہے جو فضا کے اندر معلق ہے جس کے توازن میں معمولی بگاڑ بھی آجائے تو اس کو تباہ کر دینے کے لیے کافی ہے۔ وہ اپنے کو ایک ایسی عظیم کائنات کے اندر گھرا ہوا پاتا ہے جس پر اسے کوئی اختیار نہیں ۔ ان حالات میں اس کو اپنا وجود بالکل بے بس اور حقیر معلوم ہونے لگتا ہے۔ دوسری طرف وہ دیکھتا ہے کہ وہ سب کچھ جس کی اسے ضرورت تھی اس کے لئے مہیا کردیا گیا ہے ۔اس کو ایسا جسم دیا گیا ہے جو دیکھتاہے ، جوسنتا ہے ، جوبولتاہے ، جوسوچتاہے اور اس کی قوتوں کو برقرار رکھنے کے لئے ایک خود بخودچلنے والی مشین کی طرح مسلسل کام کررہاہے ، وہ دیکھتا ہے کہ زمین وآسمان کی ساری قوتیں پوری ہم آہنگی کے ساتھ اس کی خدمت میں لگی ہوئی ہیں ۔اس کو اپنا وجود مجسم احسان نظر آنے لگتاہے ۔ اس کے اندر بے پناہ جذبۂ شکراُمنڈتاہے اور و ہ احسان مندی کے جذبہ سے لبریز ہوجاتاہے ۔ یہ واقعہ اس کو مجبور کرتاہے کہ اس ہستی کو اپنا سب کچھ قرار دے جس نے یہ سارا انتظام اس کے لئے کیاہے ۔پہلی چیز اس کواپنی مکمل بے بسی کا یقین دلاتی ہے ۔ اس کو شدید احساس ہوتاہے کہ کوئی بلند تر قوت ہو تی ہے جو اس کی دستگیری کرے اور دوسرا اِحساس اس کی طلب کا جواب بن کرسامنے آتاہے، جومطالعہ اس کو اپنے اندر خلاء کااحساس دلاتاہے یہی مطالعہ ایک قوت بن کر اس خلاء کو پُربھی کردیتاہے ۔

ایمان کا تیسرا جزء ’’خوف ‘‘ہے ۔یہ خوف ایمان کے ابتدائی دو اجزاء یقین اور اعتماد سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا لازمی نتیجہ اور اس کی تکمیل ہے ۔ ایک طرف وہ خدا کودیکھتاہے جو عدل وحکمت کا خزانہ ہے ، دوسری طرف کائنات کودیکھتاہے تو اس کا دل پُکاراُٹھتاہے کہ اتنا بڑا تخلیقی منصوبہ کبھی بے مقصد نہیں ہوسکتا۔پھر جب وہ زمین پر بسنے والے انسانوںکو دیکھتاہے جن میں ظالم بھی ہیں اور مظلوم بھی ، اچھے بھی ہیں اور بُرے بھی تو اسے یقین ہوجاتاہے کہ محاسبہ کا ایک دن آنا ضروری ہے ، جہاں سچوں کو ان کی سچّائی کا اور بُروں کو اُن کی بُرائی کا بدلہ دیا جائے ۔ رب العالمین پر اعتماد ہی اس کے لئے رب العالمین سے خوف کی بنیاد بن جاتاہے ۔ یہ خدا کا خوف اس قسم کی کوئی چیز نہیں ہے جوکسی ڈراؤنی چیز کو دیکھ کر آدمی کے دل میں پیدا ہوتاہے ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جس کو کسی بھی ایک لفظ سے صحیح طور پر تعبیر نہیں کیاجاسکتا۔ یہ انتہائی اُمید اور انتہائی اندیشہ کی ایک ایسی ملی جلی کیفیت ہے جس میں بندہ کبھی یہ طے نہیں کرپاتا کہ دونوں میں سے کس کو فوقیت دے ۔ یہ سب کچھ کرکے اپنے کو کچھ نہ سمجھنے کا وہ اعلیٰ ترین احساس ہے جس میں آدمی کو صرف اپنی ذمہ داریاں یاد رہتی ہیں اور اپنے حقوق کو وہ بالکل بھول جاتاہے ۔ یہ محبّت اور خوف کا ایک ایسا مقام ہے جس میں آدمی جس سے ڈرتا ہے اسی کی طرف بھاگتا ہے، جس سے چھننے کا خطرہ محسوس کرتا ہے اسی سے پانے کی بھی امید رکھتا ہے، یہ ایک ایسا اضطراب ہے جو سراپا اطمینان ہے اور ایسا اطمینان ہے جو سراپا اضطراب ہے۔

یہ ایمان کے تین نمایاں پہلو ہیں۔ ایمان در اصل اس کیفیت کا نام ہے جو خدا کے خوف، اس پر مکمل اعتماد اور اس کے بارے میں کامل یقین سے پیدا ہوتا ہے۔ جو شخص اللہ تعالی پر اس کے اصولوں پر اور اس کے احکام پر ایمان لائے، اپنا سب کچھ اس کو سونپ دے، اس کے تمام فیصلوں پر راضی ہو جائے، وہ مومن ہے۔ ایمان عقل کے لیے ہدایت اور روشنی ہے اور دل کے لیے طہارت اور پاکیزگی۔ اس لیے یہ عقل اور ارادہ دونوں کو ایک ساتھ متاثر کرتا ہے اور خیالات و اعمال سب پر حاوی ہو جاتا ہے۔ قرآن کی زبان میں مومن وہ شخص ہے جو خدا کا خالص اور وفادار بندہ ہے اور اس کے احکام پر یقین و اعتماد کی ساری کیفیات کے ساتھ اطاعت کا معاہدہ کرتا ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom