جہاد

اب جہاد { FR 3889 }کولیجئے ،جہاد کے معنیٰ ہیں کسی چیز کے لئے اپنی آخری کوشش صرف کرنا۔ اتنی کوشش کرنا کہ آدمی تھک جائے۔ ہجرت کی طرح یہ جہاد بھی کسی وقتی کارروائی کا نام نہیں ہے بلکہ ایسا عمل ہے جس کا تعلق ساری زندگی سے ہے۔ جہاد صرف میدان جنگ میں نہیں ہوتا بلکہ ایمان لانے کے بعد ہی سے اس کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور زندگی کے آخری لمحات تک جاری رہتا ہے۔ ایک غیر اسلامی معاشرہ میں جہاد کی مثال بالکل ویسی ہی ہے جیسی مارکس ؔکے جدلیاتی فلسفہ میں ایک نظام کے اندر اس کے ضد کی ہوتی ہے۔ یہ ایک زبردست چیلنج ہے جو کسی نظام کے اندر اس کے عدو کی حیثیت سے ظاہر ہوتا ہے۔ جاہلی معاشرہ میں کسی کا اسلام قبول کرنا در اصل وقت کے خلاف فیصلہ کرنا ہے۔ یہ فیصلہ اگر صحیح شعور اور مکمل عزم کے ساتھ ہو تو بالکل لازمی نتیجہ کے طور پر معاشرہ کے ہر فرد اور اس کے تمام اداروں سے اس کا ٹکراؤ شروع ہو جاتا ہے۔ ایک طرف وقت کا معاشرہ ہوتا ہے جو اپنے تمام نظری اور عملی پہلوؤں کے اعتبار سے زندگی کے تمام شعبوں پر چھایا ہوا ہوتا ہے۔ دوسری طرف یہ صاحبِ ایمان ہوتا ہے جو اس سے مختلف ایک اور ہی طرز زندگی کو اپنے گردو پیش کی دنیا میں دیکھنا چاہتا ہے۔ ماحول کے ساتھ اس کا یہ اختلاف اس کو ایک ایسی تیز گیس کی مانند بنا دیتا ہے جو کسی محدود خول کے اندر بند ہو اور ہر آن اس سے نکلنے کے لئے بے قرار ہو۔ یہ کش مکش اور جدو جہد کا عمل آدمی کے اپنے نفس سے شروع ہوتا ہے اور تمدن کے مختلف گوشوں میں پھیلتا ہوا ہر اس معاملہ تک پہنچ جاتا ہے جس کا تعلق انسانی زندگی سے ہو۔ یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے اور دن بدن تیز تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آتا ہے جب یہ کش مکش اپنے آخری نقطہ پر پہنچ جاتی ہے۔ ماحول کا بند ٹوٹ جاتا ہے اور جاہلی نظام شکست کھا کر اسلام کے لیے جگہ خالی کر دیتا ہے۔

جہاد کی اصل حقیقت خدا کی راہ میں چلنے کے لیے اپنے آپ کو تھکانا ہے۔ قرآن میں خدا کے دین کو ’’نجد‘‘ کہا گیا ہے، جس کے معنیٰ بلند مقام کے ہیں اور اس دین پر عمل کرنے کو اونچائی پرچڑھنے سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ (البلد،90:10-11) اس مثال سے ہم جہا د کی حقیقت سمجھ سکتے ہیں ۔ دنیا میں زندگی گزارنے کی صرف دو راہیںہیں ۔ ایک نفس کی خواہش کے مطابق اور دوسری خدا کی مرضی کے مطابق۔ ایک غیر ذمہ دارانہ زندگی ہے اور دوسری ذمہ دارانہ زندگی ۔ پہلی راہ بے حد آسان ہے اور دوسری راہ بے حد دشوار۔ پہلی صورت میں اوپر سے نیچے آنا ہوتاہے اور دوسری صورت میں نیچے سے اُوپر جانا ہوتا ہے۔گاڑی کو کسی ڈھلوان راستہ پر چھوڑ دیجئے تو وہ خودلڑھکتی چلی جائے گی ، اس کے لئے کسی غیر معمولی کوشش کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ لیکن اگر اسی گاڑی کو کسی بلندی پر چڑھاناہوتو مسلسل محنت کی ضرورت ہے ۔ ایک تھکا دینے والی مشقت کے بغیر کوئی شخص اپنی گاڑی کو نیچے سے اوپر نہیں لے جاسکتا۔ یہی عمل جب وقت اور خواہش کے خلاف اپنی زندگی کو خداکی طرف لے جانے کے لئے کیا جائے تو اس کو ہم جہاد کہتے ہیں۔

انسان جب یہ فیصلہ کرتاہے کہ وہ خدا کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرےگا تو اس کو فوراً معلوم ہوتاہے کہ یہاں دوایسی طاقتیں ہیں جو اس کے اس ارادہ کی راہ میں زبردست روک ہیں ۔ ایک خود اس کا اپنا نفس،دوسرے طاغوت ۔ نفس سے مُراد انسان کا یہ جذبہ ہے کہ وہ ہرحال میں اپنے لئے لذّت اور آرام کو پسند کرتاہے ،اس کو ہمیشہ آسانی کی  تلاش رہتی ہے ، وہ عزّت اوربرتری حاصل کرناچاہتاہے ، وہ یہ نہیں سوچتاکہ کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرناچاہئے بلکہ جدھر اس کا جی چاہتاہے اس طرف نکل جاتاہے ۔ یہ جذبہ اس کو اُکساتاہے کہ ہر وہ کام کرے جس سے اس کی ان خواہشوں کو تسکین ملتی ہو اور ایسا کوئی کام نہ کرے جس سے اس کی ان خواہشوں پر ضرب پڑے ۔ اور طاغوت سے مُراد خارج کا وہ غلط اقتدارہے جو ماحول کی روایات ، وقت کے نظریات اور عوام الناس کی خواہشوں کی صورت میں آدمی کے اوپر دبائو ڈالتاہے اور جس کی انتہائی شکل وہ حکومتی تنظیم ہے جو غیر الٰہی بنیادوں پر کھڑی کی گئی ہو ۔ یہ خارجی قوتیں براہِ راست بھی مزاحمت کرتی ہیں اور بالواسطہ بھی ۔ بالواسطہ اس طرح کہ سوسائٹی پر عملاًقابض ہونے کی وجہ سے زندگی کے تمام گوشوں میں انہی کے نظریات پھیل جاتے ہیں۔انسان کے لئے اس کے سوا کوئی شکل نہیں ہوتی کہ ان کو مانے اور اپنے آپ کو ان سے ملوث کرے ، اس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا اور براہ راست اس لیے کہ اس طرح کے ایک ماحول میں حق پر چلنے کا ارادہ ان قوتوں کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے، وہ رائج الوقت نظام کے لئے موت کی پیشین گوئی ہے۔ اس لیے جو لوگ اس قسم کی تحریک لے کر اٹھتے ہیں وہ ان کو روکنے اور ان کو کچل دینے کے لیے اپنا پورا زور صرف کرتی ہیں اور اپنے دائرہ میں ان کو زندگی کے مواقع سے محروم کر کے رکھ دیتی ہیں۔

ان حالات میں جب کوئی شخص خدا کی طرف بڑھتا ہے تو اس کو اپنے اندر سے لے کر باہر تک، خیالات سے لے کر عمل کی دنیا تک، قدم قدم پر بے شمار رکاوٹوں سے سابقہ پیش آتا ہے۔ کہیں آرام کے مقابلہ میں تکلیف کو گوارا کرنا ہوتا ہے، کہیں ایک لذیذ رجحان کو چھوڑنے اور ایک خشک عقیدہ کو قبول کرنے کے لیے کش مکش کرنی ہوتی ہے، کہیں ملتے ہوئے ناجائز فائدوں کے ڈھیر کے بجائے ایک حقیر حاصل پر آمادہ ہونے کے لیے اپنے آپ سے زبردستی کرنی پڑتی ہے، کہیں عزت اور ناموری کے بجائے گم نامی اور ذلت پر قانع ہونے کے لیے مجاہدہ کرنا ہوتا ہے کہیں اپنے جائز حقوق اور اپنے واقعی مفادات سے محرومی پر راضی ہونا پڑتا ہے۔ غرض اس کے سامنے دو مختلف راہیں کھلی ہوتی ہیں۔ اور اس کو پورا اختیار ہوتا ہے کہ جدھر چاہے چلا جائے ۔ ایک طرف جانے میں دنیا کی ہر چیز ملتی ہوئی نظر آتی ہے اور دوسری طرف جانے میں بظاہر کچھ بھی ملتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کا نفس مجبور کرتا ہے کہ آسان راستہ کی طرف جائے۔ خارجی قوتیں اس مقصد کے لیے اپنا پورا وزن اس کے اوپر ڈال دیتی ہیں۔ مگر وہ ان ساری مزاحمتوں کے باوجود آسان اور پرلطف راستہ کو چھوڑ دیتا ہے اور کھینچ کر اپنے کو مشکل راستہ کی طرف لے جاتا ہے۔ اسی کش مکش کا نام جہاد ہے۔ جس چیز کو ہم سیاسی انقلاب کہتے ہیں وہ بھی اسی کش مکش کا ایک قدرتی نتیجہ ہے جس کے بعد ماحول پر اسلام کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ سیاسی انقلاب بر پا کرنا اسلام کا اصل مقصود ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ تنقید نہیں بلکہ ذریعہ ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک مسلسل عمل کا آخری انجام ہے۔ اسلام کے مطابق،جینے اور مرنے کا ارادہ جو ابتداءً قلب کے اندر پیدا ہوتا ہے وہ جب عمل کی صورت اختیار کرتا ہے اور ذہن سے نکل کر ماحول میں پھیلنا شروع ہوتا ہے تو اسی پھیلاؤ کے ایک مخصوص دائرہ کو ہم اسلامی انقلاب کہتے ہیں۔ انقلاب کو مصنوعی درخت کی طرح اگا یا نہیں جا سکتا اور نہ اس کو بوریوں میںبھر کر کہیں باہر سے لایا جاتا ہے بلکہ وہ ایک عمل کے طبعی نتیجہ کے طور پر خود اپنی زمین سے ابھرتا ہے۔ جس طرح انڈے کے اندر ایک زندہ بچہ کا وجود یہ معنی رکھتا ہے کہ ایک روز اوپر کا خول ٹوٹ جائے اور جیتا جاگتا بچہ اس کے باہر آجائے ۔ ٹھیک اسی طرح مخالف ماحول کے اندر ایک اسلامی گروہ کی موجودگی اس کے لیے موت کا حکم رکھتی ہے۔ اگر یہ گروہ اپنے ایمان میں مخلص ہے اور عقیدہ کو عمل کی شکل دینے کا سچا عزم رکھتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہر آن باطل کی دیوار کو متزلزل کر رہا ہے، ایسا ایک گروہ لازمی طور پر دیوار کو توڑ دے گا۔ وہ اس کے اندر نہیں ٹھہر سکتا۔

جہاد ہر اس رکاوٹ سے لڑنے اور اس سے کش مکش کرنے کا نام ہے جو دین پر عمل کرنے کے سلسلہ میں پیش آئے اور چونکہ یہ رکاوٹ انسان کے اندر سے بھی ہوتی ہے اور باہر سے بھی اس لیے جہاد میں آدمی کبھی خود اپنے نفس کے بالمقابل ہوتا ہے اور کبھی خارجی دنیا سے کش مکش کرتا ہے۔ اس کو کبھی خود اپنی خواہشوں سے لڑنا پڑتا ہے، کبھی زبان سے دوسروں کے طرز عمل پر گرفت کرنی ہوتی ہے اور کبھی ہاتھ کی قوت سے راہ حق کی رکاوٹوں کو دور کرنا ہوتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے

جَاھِدُوْا أَهْوَاءَكُمْکَمَا  تُجَاْھِدُوْنَ أَعْدَائَکُمْ  (مفردات القرآن للاصفہانی، صفحہ208)۔ یعنی، اپنی خواہشوں سے جہاد کرو جس طرح تم اپنے دشمنوں سے جہاد کرتے ہو۔

 راغب اصفہانی نے حدیثِ رسول کی روشنی میں کہا :المُجَاھَدَۃُ  تَکُوْنُ بِاْلَیدَوالْلّسِانِ (مفردات القرآن، بیان’’جہد‘‘)۔ یعنی، مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں سے ہوتا ہے۔

مگر جہاد اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے صرف کسی ظاہری عمل کا نام نہیں ہے بلکہ اس مخصوص کیفیت کا نام ہے جو کسی عمل کے ذریعہ پیدا کی جاتی ہے۔ ظاہری شکلیں اسی کیفیتِ جہاد کو پیداکرنے کے لئے ہیں، نہ کہ خود ان ظاہری شکلوں کا نام جہاد ہے۔ ایک شخص رات دن کی کوشش سے اسلام پر ایک اعلیٰ درجہ کی کتاب لکھتا ہے۔ بظاہر یہ جہاد کی ایک شکل ہے لیکن اس کا مقصد اگر یہ ہے کہ اس کتاب سے اس کی شہرت ہوگی یا اس کو مالی فوائد حاصل ہوں گے تو اس کے اس عمل کی کوئی قیمت نہیں۔قرآن کی اصطلاح میں وہ جہاد کہے جانے کا مستحق نہیں ہے۔ اس کے برعکس کوئی نیک کام کرتے ہوئے جب اس کے دل میں ایک غلط خیال گزرتا ہے اور اس تصور سے وہ کانپ اٹھتا ہے کہ اس طرح اس کا سارا کیا کر ایامٹی ہو جائے گا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑتے ہیں اور بے اختیار وہ کہہ اٹھتا ہے کہ خدایا! مجھے شیطان کے حوالے نہ کر ورنہ میں تباہ ہو جاؤں گا۔ تو یہ جہاد ہے۔

یہ بات صرف جہاد ہی سے متعلق نہیں ہے بلکہ دوسری عبادت کا بھی یہی معاملہ ہے۔ دین میں جو کام بھی کرنے کے لیے بتائے گئے ہیں وہ محض اپنی شکل کے اعتبار سے مطلوب نہیں ہیں بلکہ حقیقت کے اعتبار سے مطلوب ہیں۔ جن اذکار اور دعاؤں کی فضیلت بیان کی گئی ہے، جن عبادات کے ادا کرنے کو فرض قرار دیا گیا ہے، جن اخلاق و اعمال کو یہ اہمیت دی گئی ہے کہ ان کو اختیار کئے بغیر سرے سے دعوائے ایمان ہی معتبر نہیں ہوتا۔ ان سب کا مطلب در اصل یہ بتانا ہے کہ خدا پرستانہ زندگی کے مظاہر کیا ہوتے ہیں، نہ یہ کہ کن مظاہر کا نام خدا پرستی ہے۔ اصل میں خدا کو جو چیز مطلوب ہے وہ یہ نہیں ہے کہ زبان سے اس کے لیے چند تعریفی کلمات کا ورد کر لیا جائے، نماز روزہ اور حج کے نام پر کچھ مخصوص عبادتی افعال انجام دے دیئے جائیں۔ مال میں سے ایک مقررہ حصہ نکال کر غریبوں میں بانٹ دیا جائے۔ یا زبان و قلم کے ذریعہ سے خدا کے دین کی تبلیغ کر دی جائے۔ بے شک یہی وہ اعمال ہیں جو خدا پرستانہ زندگی کے لیے لازمی پروگرام کی حیثیت رکھتے ہیں اور خدا پر ایمان جب بھی انسانی زندگی میں ظہور کرے گا وہ انھیں شکلوں میں ظہور کرے گا۔ ان کے ظاہر ہونے کا کوئی اور قالب اللہ تعالیٰ نے نہیں بنایا ہے۔ مگران خارجی شکلوں کے پیچھے وہ اصل چیز جو خدا کو مطلوب ہے اور جس کی موجودگی کسی آدمی کو اس بات کامستحق  بناتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اسے حاصل ہوں۔ وہ دراصل دل کی یہ اندرونی کیفیت ہے کہ آدمی کے جذبات وخیالات بالکل خدا کی مرضی کے تابع ہو جائیں۔ اس کو وہی چیز پسند ہو جس کو خدا پسند کرتا ہے اور وہی چیز نا پسند ہو جس کو خدا نا پسند کرتا ہے۔ جو چیز خدا کی مرضی کے خلاف ہو اس کا وہ دشمن بن جائے اور جو چیز خدا کو محبوب ہو اس کو حاصل کرنے کے لیے وہ اپنا آخری سرمایہ تک قربان کر دے۔

یہ ہیں اسلام کے تقاضے جن کو پورا کرنے یا نہ کرنے پر ہمارے مستقبل کا انحصار ہے۔ ایک شخص جو اس حقیقت کو جان چکا ہو کہ اس دنیا کا ایک خدا ہے اور پھر جو اس واقعہ پر بھی ایمان لایا ہو کہ آخرت کا ایک عظیم دن آنے والا ہے۔ جب پوری نسلِ انسانی خدا کی عدالت میں کھڑی کی جائے گی تو اس کی خواہش اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی کہ قیامت کے اس ہولناک دن، جب وہ مالک کائنات کے سامنے کھڑا ہو تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ یہ کہہ دے کہ یہ میرا بندہ ہے جو دنیا کی زندگی میں میرا وفادار رہا۔ مگر یہ کھلی بات ہے کہ یہ مقام کسی کو محض خواہش کے ذریعہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ دنیا کی معمولی حکومتوں کا یہ حال ہے کہ وہ کسی شخص کو وفاداری کا سرٹیفکیٹ صرف اس وقت دیتی ہیں جب کہ وہ اس کا دین،اخلاق اور ضمیر سب کچھ اس سے خرید لیتی ہیں۔ پھر خدا جو تمام حاکموں کا حاکم ہے، جو بے حد غیرت مند ہے، جو اپنی خدائی میں کسی کی معمولی شرکت بھی گوارا نہیں کرتا۔ وہ کیا محض دل کی ایک خواہش یا زبان کی حرکت سے خوش ہو جائے گا اور کسی کو محض اس بنا پر وفاداری کا اعزاز بخش دے گا کہ وہ ایسا چاہتا ہے، خواہ اس نے اپنی وفاداری کو عملاً اس کے لیے خاص کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسری تمام وفاداریوں کی طرح خدا کا وفادار بننے کی خواہش بھی ایک عظیم جدو جہد کا تقاضا کرتی ہے۔ دنیا کے اداروں میں کسی کی اہمیت صرف اس وقت تسلیم کی جاتی ہے جب وہ اپنی بہترین صلاحیتیں اس کے لیے وقف کر دے۔ ایک دکان اپنے اندر نفع کے امکانات کسی کے اوپر صرف اس وقت ظاہر کرتی ہے جب آدمی اپنا سب کچھ اسے دے دیتا ہے۔ حکومتوں کے نزدیک کوئی شخص صرف اسی وقت اعتماد اور احترام کا مستحق بنتا ہے جب وہ اپنے آپ کو پوری طرح اس کی نذر کر چکا ہو۔ ٹھیک اسی طرح اللہ تعالیٰ کے یہاں بھی وفاداری کا مقام صرف اسے حاصل ہوتا ہے جو اپنی قربانیوں کے ذریعہ اس کا استحقاق ثابت کر دے۔ شرک نہ دنیا کے معبودوں کو پسند ہے اور نہ خدا کو۔

 اس حقیقت کو سامنے رکھئے اور پھر اس دن کا تصور کیجئے جب ہم اور آپ اور تمام اگلے پچھلے پیدا ہونے والے خدا کے پاس اس حال میں جمع کئے جائیں گے کہ ایک رب العالمین کے سوا سب کی آوازیں پست ہو چکی ہوں گی۔ جس دن آدمی اپنے سوا ہر ایک کو بھول جائے گا خواہ وہ اس کا دوست اور قریب ترین عزیز کیوں نہ ہو، جس دن صرف حق بات میں وزن ہوگا اور اس کے سوا تمام چیزیں اپناوزن کھو چکی ہوں گی، جس روز آدمی حسرت کرے گا کہ کاش اس نے اپنی ساری عمر صرف آج کی تیاری میں صرف کر دی ہوتی۔ یہ فیصلہ کا دن ہوگا، ہمارے درمیان اور اس دن کے درمیان صرف موت کا فاصلہ ہے۔ وہ موت جس کے متعلق کسی کو نہیں معلوم کہ وہ کب آئے گی ۔ آج جو لمحات ہم گزار رہے ہیں اس کے ہر لمحہ کا انجام ہم کو آئندہ کروڑوں سال تک بھگتنا ہے۔ ہم میں سے ہر شخص ایک ایسے انجام کی طرف چلا جارہا ہے جہاں اس کے لیے یا تو دائمی عیش ہے یا دائمی عذاب۔ زندگی کی مثال ایک ڈھلوان کی ہے جس پر سارے انسان نہایت تیزی کے ساتھ بھاگے چلے جارہے ہیں۔ ہر لمحہ جو گزرتا ہے وہ ہم کو اس آخری انجام سے قریب کر دیتا ہے جو ہم میں سے ہر ایک کے لیے مقدر ہے ۔ ہم کو زندگی کے صرف چند دن حاصل ہیں۔ ایسے چند دن جن کا انجام کروڑوں اور اربوں سال نہیں بلکہ ابد الایام تک بھگتنا پڑے گا۔ جس کا آرام بے حد خوش گوار ہے اور جس کی تکلیف بے حد دردناک۔ ہر بار جب سورج غروب ہوتا ہے تو وہ آپ کی عمر میں ایک دن اور کم کر دیتا ہے۔ اس عمر میں جس کے سوا آنے والے ہولناک دن کی تیاری کا اور کوئی موقع نہیں۔ ہماری زندگی کی مثال برف بیچنے والے دکان دار کی ہے جس کا اثاثہ ہرلمحہ پگھل کر کم ہوتا جا رہا ہو اور جس کی کامیابی کی شکل صرف یہ ہو کہ وہ وقت گزرنے سے پہلے اپنا سامان بیچ ڈالے ورنہ آخر میں اس کے پاس کچھ بھی نہ ہوگا۔ اور دکان سے اس کو خالی ہاتھ اٹھ کر جانا پڑے گا۔ پھر قبل اس کے کہ موت آ کر ہم کو اس دنیا سے جدا کر دے جہاں صرف کرنا ہے اور اس دنیا میں پہنچا دے جہاں کرنا نہیں بلکہ صرف پانا ہے۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کا صحیح مصرف سوچ لیں۔ ہم سب کو ایک روز مالک کائنات کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔ پھر خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اپنے رب کے پاس اس حال میں پہنچیں گے کہ دنیا میں وہ حق کے لیے اپنا سب کچھ لٹا چکے تھے کیوں کہ اللہ تعالی سب سے پہلے انہی پر نظر کرے گا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom