اشتعال کے بغیر
جب غصہ دلانے والی بات کی جائے تو اس کے جواب کے دو طریقے ہیں ۔ ایک یہ کہ آدمی بپھرا ٹھے اور ناقد پر لعن طعن کرنے لگے ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ناقد کی بات کو بالکل ٹھنڈے ذہن سے سنا جائے ۔ اس کی بات کے غیر متعلق پہلوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے اصل بات کا جواب بالکل سادہ طریقے سے دے دیا جائے ۔ دونوں طریقوں میں صرف دوسرا طریقہ اسلامی طریقہ ہے ۔ اس سلسلے یہاں چند مثالیں نقل کی جاتی ہیں ۔
1۔ ابن عبد البراند لسی (م463ھ ) لکھتے ہیں :
رَوَيْنَا أَنَّ طَاوُسًا وَوَهْبَ بْنَ مُنَبِّهٍ ٱلْتَقَيَا، فَقَالَ طَاوُسٌ لِوَهْبٍ: يَا أَبَا عَبْدِ ٱللهِ، بَلَغَنِي عَنْكَ أَمْرٌ عَظِيمٌ. فَقَالَ:مَا هُوَ؟ قَالَ: تَقُولُ إِنَّ ٱللهَ حَمَلَ قَوْمَ لُوطٍ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ. قَالَ:أَعُوذُ بِٱللهِ، ثُمَّ سَكَتَ. قَالَ: فَقُلْتُ: هَلِ ٱخْتَصَمَا؟ قَالَ: لَا (جامع بیان العلم وفضلہ ، جلد2 ، صفحہ 95)۔ یعنی،ہم سے بیان کیا گیا کہ طاؤس اور وہب بن منبہ دونوں ایک دوسرے سے ملے۔ طاؤس نے وہب سے کہا۔ اے ابو عبد اللہ ، آپ کے بارے میں مجھے ایک بڑی سنگین بات پہنچی ہے۔ انھوں نے پوچھا، وہ کیا۔ طاؤس نے کہا ، میں نے سنا کہ آپ کہتے ہیں کہ اللہ ہی نے تو قوم لوط کے بعض لوگوں کو بعض لوگوں پر چڑھایا تھا۔ یہ سن کر وہب نے کہا، اللہ کی پناہ ۔ پھر دونوں چپ ہو گئے ۔ میں نے راوی سے پوچھا۔ کیا دونوں میں بحث ہوئی۔ انھوں نے جواب دیا نہیں۔
2۔ مولانا احمد علی لاہوری کے صاحبزادہ مولانا حبیب اللہ لاہوری نے مولانا سید حسین احمد مدنی (1957-1879ء) کا ایک واقعہ بیان کیا ہے ۔ وہ دار العلوم دیو بند میں مولانا مدنی کے دورۂ حدیث میں شریک تھے ۔ شرکاء درس میں سے کسی طالب علم کو شرارت سوجھی۔ اس نے مولانا کے پاس ایک رقعہ بھیجا اور اس کے ذریعہ تحریری طور پر یہ سوال کیا کہ آپ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ آپ حرامی ہیں ۔ مولانا مدنی نے رقعہ لے کر رکھ لیا اور پہلی نشست میں کوئی جواب نہیں دیا۔ دوسری نشست میں جب طلبہ جمع ہوئے تو آپ نے فرمایا ’’ کسی دوست نے مجھ کو رقعہ لکھا ہے کہ تو اپنے باپ سے نہیں ہے‘‘۔
یہ سنتے ہی تمام مجلس میں ہیجان برپا ہو گیا۔ طلبہ غیظ وغضب سے بھر گئے کہ کس گستاخ نے یہ حرکت کی ہے ۔ مولانا مدنی نے فرمایا ’’خبر دار کسی کو غصہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ میرا حق ہے کہ میں سوال کرنے والے کی تسلی کروں‘‘۔ پھر سنجیدگی کے ساتھ فرمایا ۔ ’’میں ضلع فیض آباد قصبہ ٹانڈہ کا رہنے والا ہوں ۔ اس وقت بھی میرے والدین کے نکاح کے گواہ زندہ ہیں ۔ خط بھیج کر سمجھ لیا جائے‘‘۔
