مراسلت نمبر— ۱۲

مولانا علی میاں کے خطوط کا ایک مجموعہ معروف عالمِ دین اور مفسّر قرآن مولانا عبد الکریم پاریکھ (ناگ پور) نے شائع کیا۔ اِس مجموعے میں ایک خط مجھ سے متعلق تھا۔ اِس خط کو پڑھ کر میں نے مولانا موصوف کی خدمت میں ایک خط روانہ کیا۔ اس سلسلے کی مراسلت یہاں درج کی جاتی ہے:

مکرمی ومحترمی مولانا عبد الکریم پاریکھ صاحب!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

آپ کی صحت اور عافیت کے لیے دعا گو ہوں۔عرض یہ کہ آپ کی شائع کردہ کتاب نظر سے گذری جس کا پورا نام یہ ہے— ’’مرشد روحانی، مصلح امت حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی صاحب عُرف علی میاں صاحب کے خطوط، حضرت مولانا عبدالکریم پاریکھ صاحب کے نام‘‘۔

آپ کی اِس کتاب کا مکتوب نمبر ۱۱۳ میرے لیے ناقابلِ فہم ہے۔ چوں کہ کاتبِ محترم کی وفات ہوچکی ہے، اس لیے اس کی وضاحت کے لیے آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں۔ آپ کے نام حضرت مولانا کے مذکورہ مکتوب کے الفاظ یہ ہیں :

اپنی خیرت کی اطلاع کے علاوہ میں یہ خط اِس ضرورت سے بھی لکھ رہاہوں کہ میرے پاس حیدر آباد سے ایک فہیم وسنجیدہ دوست کا خط آیا ہے کہ ’ندوہ ایجنسی‘ کے نام سے، سید جمیل الدین صاحب کی طرف سے جو اشتہار شائع ہوا ہے اس کا تعارف کرایا گیا ہے۔ اس میں میری کتابوں کے علاوہ جہاں بعض اور دوسرے حضرات کی تصنیفات کا تذکرہ ہے، اُن میں مولوی وحید الدین خاں صاحب کی کتابوں کے دستیاب ہونے کا بھی اعلان ہے۔ مَیں سید جمیل الدین صاحب کو براہِ راست نہیں لکھنا چاہتا۔آپ اشارہ کردیں کہ اُن کے بہت سے خیالات سے اتفاق نہیں۔ اور ہماری اور اُن کی کتابوں کا جوڑ نہیں۔ اِس لیے آئندہ وہ اِس کا لحاظ رکھیں۔ آپ اپنے انداز میں مناسب طریقے سے لکھ دیجئے گا۔ مجھے مولوی وحید الدین خاں صاحب سے کوئی ذاتی خصومت نہیں۔ لیکن اُن کے خیالات میں سخت ناہمواری اور بے اعتدالی ہے، اور سَلف ومجاہدین اور شہدائے اسلام سے بدعقیدگی پیدا ہوتی ہے‘‘۔ (صفحہ ۲۰۳)

حضرت مولانا علی میاں کے اِس مکتوب کے بارے میں آپ سے دو باتیں قابلِ دریافت ہیں۔ ایک یہ کہ مکتوب کے مطابق، میرے خیالات میں سخت ناہمواری اور بے اعتدالی ہے، مگر اِس مکتوب میں، اور نہ اِس مجموعۂ خطوط میں اور نہ صاحبِ مکتوب کی دوسری کسی تحریر میں ایسی کوئی وضاحت یا حوالہ موجود ہے، جس سے معلوم ہوتا ہو کہ وہ کیا چیز ہے جس کو اس مکتوب میں ’’سخت ناہمواری اور بے اعتدالی‘‘ قرار دیاگیا ہے۔ اپنی کتاب میں اِس مکتوب کی اشاعت اور حضرت مولانا سے خصوصی قربت کی بنا پر آپ ضرور اس بات سے واقف ہوں گے۔ براہِ کرم مطلع فرمائیں کہ وہ کیا چیز ہے جس کو اِس مکتوب میں سخت ناہمواری اور بے اعتدالی قرار دیاگیا ہے۔

اِس مطبوعہ مکتوب میں دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ راقم الحروف کی کتابوں سے اَسلاف کے بارے میں بد عقیدگی پیدا ہوتی ہے۔ اِس کے بارے میں بھی اِس مکتوب میں کوئی وضاحت یا حوالہ موجود نہیں۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ میری کتابوں میں وہ کون سی بات ہے جو اسلاف کے بارے میں بدعقیدگی پیدا کرتی ہے۔

حضرت مولاناعلی میاں کا یہ بیان بلاشبہہ ایک بے دلیل بیان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۱۹۵۹ء میں حضرت مولانا علی میاں کی ایک عربی کتاب چھپی۔ اس کا نام یہ تھا: ردّۃ ولا أبا بکر لہا۔ اِس کتاب میں امت کے اندر ایک خطرے کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ امت کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ ذہنی ارتداد کا شکار ہوگیاہے۔ میں نے اِس مسئلے کی تحقیق کی تو میں اِس نتیجے پر پہنچا کہ جدید تعلیم یافتہ طبقے کا کیس، ذہنی ارتداد (intellectual apostasy) کا کیس نہیں ہے۔ یہ لوگ ذہنی عدم اطمینان (intellectual discontent) کا شکار ہیں۔ موجودہ زمانے میں جو اسلامی لٹریچر تیار ہوا وہ ان کے مائنڈ کو ایڈریس نہیں کرتا۔ اِس بنا پر وہ اسلام کی صداقت کے بارے میں ذہنی بے اطمینانی میں مبتلا ہوگیے ہیں۔

اِس دریافت کے بعد میں نے اِس مسئلے کو اپنا موضوع بنالیا۔ میں نے قدیم اور جدید دونوں علوم کا گہرا مطالعہ کرکے عصری اسلوب میں بہت سی اسلامی کتابیں لکھیں، اور ان کو مختلف زبانوں میں شائع کیا۔ یہ خدا کا فضل ہے کہ یہ کتابیں نہایت مفید ثابت ہوئیں۔ اور مختلف ملکوں میں لاکھوں لوگوں کو اس سے ایمان اور یقین کا سرمایہ ملا۔ اِسی بنا پر ایک عرب شیخ نے میری کتاب الاسلام یتحدّی کا سکنڈٹائٹل یہ تجویز کیا تھا— مدخل علمی إلی الإیمان۔

حضرت مولانا علی میاں کو خوش ہونا چاہیے تھا کہ انھوں نے جس خطرے کی نشاندہی کی تھی، میں نے اس کو گہرائی کے ساتھ سمجھا، اور وقت کے فکری مُستوی کے مطابق، طاقت ور علمی انداز میں اس کا سدّ باب کیا۔ ایسی حالت میں میری کتابوں کے متعلق، حضرت مولانا کا مذکورہ بیان میرے لیے سخت ناقابلِ فہم ہے۔

چوں کہ آپ نے حضرت مولانا کے اِس خط کو اپنی کتاب میں شائع فرمایا ہے۔ اس لیے یقینا آپ اِس کی نوعیت کو پوری طرح سمجھتے ہوں گے۔ میری گذارش ہے کہ آپ اپنے علم کے مطابق، متعین صورت میں مذکورہ دونوں باتوں کی وضاحت فرمائیں۔

نئی دہلی، ۲۵ ؍اگست۲۰۰۶           دعاگو    وحیدالدین

میرے اس خط کے بعد مولانا موصوف کا درج ذیل خط مجھے ملا:

محترم المقام، عالم ربّانی حقانی، صاحب ِ قلم، مشہور شخصیت،حضرت مولانا وحید الدین خاں صاحب مد ظلہ العالی

 وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

۲۵؍ اگست ۲۰۰۶ کا عنایت نامہ موصول ہوا، جزاک اللہ۔ میں پچھلے تین سالوں سے گلوکوما آپریشن ناکام ہونے کے سبب دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوں۔ صاحب فراش بھی ہوں۔ سارے کام کاج بند ہیں۔ لیکن خطوط بڑی تعداد میں آتے رہتے ہیں۔ جواب دینا مشکل پڑتا ہے۔ آپ کا خط اہم تھا، آپ کو دکھ پہنچا، اس لیے جواب کے لیے حاضر خدمت ہوں۔

میرے بزرگ، آپ نے جس خط کاحوالہ دیا ہے، وہ ۲؍ اگست ۱۹۸۷ کا ہے۔ اور حضرت مولاناسید ابوالحسن علی ندویؒ کوانتقال فرمائے ۷،۸ برس ہوگیے ہیں۔ اور اس مذکورہ خط کو ۲۰ سال کا عرصہ ہوگیا ہے۔ اس خط کے شائع ہونے کا مجھے افسوس ہے۔ جس کی وجہ سے آپ کو دکھ پہنچا۔ اللہ مجھے معاف فرمائے۔

میرے بزرگ، مجھ سے زیادہ دین کا فہم، علم اور گہرائی اللہ نے آپ کو دی ہے۔ یہ ۲۰ سال پہلے کی بات ہے۔ جمیل الدین صاحب سے میری ملاقات ہوئے ۱۰، ۱۵ سال ہوگئے۔ ندوہ ایجنسی ہے بھی یا نہیں، مجھے لگتا ہے شاید ختم ہو گئی ہو۔ در اصل ندوہ ایجنسی مولانا ؒ کا خود کا ادارہ تھا اور ساتھ ہی جمیل الدین صاحب کے گھر پر ہی ادارہ میں ایک مدرسہ بھی چلتا تھا۔ مولاناؒ اپنی کتابیں اس میں رکھتے تھے۔

آپ کا خط سننے کے بعد تقریباً ۲۵ نسخے مجموعۂ خطوط کے میرے پاس تھے۔ اُن تمام نسخوں سے خط نمبر ۱۱۳ پھاڑ کر نکلوا دیا ہے۔ آئندہ ایڈیشن جب چھپے گا، جس کی امید تو کم ہے، کیوں کہ میں اب اس حال میں نہیں ہوں، لیکن اگر چھپنے کی نوبت آئی اوراحباب کا تقاضا رہا تو اس خط کو دوبارہ شائع نہیں کیا جائے گا۔

مجھے امید ہے کہ میرے اس سہو کو میرے تعلق سے معاف فرمائیں گے۔ اب رہا مولانا ؒ کے تعلق سے، تو دیر یا سویر ہم کو بھی اللہ کے دربار میں پہنچنا ہے۔ وانما توفون اُجورکم یوم القیامۃ (آخرت میں تمہارے ’’اجور‘‘ پورے پورے دیے جائیں گے) آپ کو بھی آپ کے کاموں کا اجر اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ دے گا۔ آپ کے سامنے میری کیا ہستی ہے۔ لیکن آپ کو تکلیف پہنچی اس کے لیے معافی چاہتا ہوں۔

مجھے امید ہے کہ آپ حسن ظن سے کام لیں گے۔ میری دھندلی یادداشت میں آپ کی اور حضرت مولانا ؒ کی برسہا برس پہلے مجھ سے کہیں زیادہ وابستگی رہی ہے، ایسا سنا ہے۔ واللہ اعلم۔ ہاں جو جملے مولانا نے ہم آہنگی نہ ہونے کے استعمال کیے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں نے اس خط سے متعلق جمیل الدین صاحب کو کچھ بھی ہدایت نہیں دی تھی۔ میرا یہ مزاج بھی نہیں ہے۔

ایک بات کی طرف آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ جن جملوں سے آپ کو تکلیف پہنچی وہ صفحہ ۲۰۳ کے دوسری جانب صفحہ ۲۰۴ میں ہے۔ میری نظر سے نہ گذرا ہو ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ بہر حال بندہ بشر ہے۔ حضرت مولاناؒ ہوں یا میں ہوں یا کوئی اور ہو، غلطی کا امکان ہے۔

آپ کے خط سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تعلیم یافتہ طبقہ کی ذہنی بے اطمینانی پر ان کی اصلاح کو آپ نے اپنا موضوع بنا کر محنت کی اور الحمد للہ اس کا نتیجہ، بقول آپ کے ’’اس سے لاکھوں لوگوں کو ایمان اور یقین کا سرمایہ ملا‘‘۔ اسی بنا پر آپ کی تحریریں عرب دنیا میں الحمد للہ مقبول عام و خاص ہوئیں، اس پر مجھے بڑی مسرت ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس محنت کو قبول فرمایا۔

آپ کے یہ جملے ’’مگر اس مکتوب میں ایسی کوئی وضاحت یا حوالہ موجود نہیں ہے جس سے معلوم ہوتاہو کہ وہ کیا چیز ہے جس کو اس مکتوب میں ’’سخت ناہمواری اور بے اعتدالی‘‘ قرار دیاگیا ہے‘‘۔ صاحب مکتوب (حضرت مولانا علی میاں ) کو اس کا حوالہ دینا ضروری تھا۔

ایک عرصہ پہلے میں نے الحمد للہ آپ کی کتابیں پڑھی ہیں اور خود اس ملک میں اور ملک کے باہر آپ کے قلم سے بے شمار لوگوں کو دینِ حق کی واقفیت ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس میں مزید اضافہ فرمائے۔ آپ کی تشریف آوری ناگپور کبھی کبھار ہوتی رہتی ہے۔ بھائی عبد السلام اکبانی جو میرے بھانجے ہیں، آپ کے بہت مدّاح ہیں، کبھی آنا ہوا تو اس نابینا کو ملاقات کا شرف عنایت فر مائیں۔ جزاک اللہ۔

آپ کے ترجمہ و تشریح قرآن (تذکیر القرآن) کا ایک نسخہ وی پی کے ذریعہ ارسال فرمائیں، عنایت ہوگی۔ مجھے امید ہے کہ اس خط کا آپ اچھا اثر لیں گے اور میرے لئے دعا کریں گے۔ ہم سب اللہ کی رضا کے لیے کام کرتے ہیں اس میں اجر کا زیادہ حصہ آپ ہی کا ہے۔ آپ کے لیے دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ کی محنت کو شرف قبولیت بخشے۔ آمین۔ والسلام

۱۸؍ ستمبر ۲۰۰۶ء           طالب دعا         عبد الکریم پاریکھ

مولانا موصوف کے خط کو پڑھ کر میں نے ان کی خدمت میں اپنا درج ذیل خط روانہ کیا:

محترمی و مکرمی مولانا عبد الکریم پاریکھ صاحب!

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ

آپ کا عنایت نامہ مؤرخہ ۱۸ ستمبر ۲۰۰۶ ملا۔ حالات معلوم ہوئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر طرح صحت اور عافیت میں رکھے۔ اور آپ کو شفا عطا فرمائے۔ آپ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے دین کا بہت کام لیا ہے۔ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ آئندہ بھی وہ آپ کی دینی خدمات کو جاری رکھے گا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کا یہ مکتوب بھی آپ کے مراتبِ عالیہ میں اضافے کا ذریعہ ہوگا۔ آپ نے جس طرح کھُلے دل کے ساتھ معاملے کی وضاحت فرمائی ہے، وہ آپ کی ایمانی عظمت اور اخلاقی جرأت کا ایک مزید ثبوت ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بیمار آدمی کے پاس عیادت کے لیے گیے۔ وہ تکلیف کی حالت میں تھا۔ اس کو دیکھ کر آپ نے فرمایا: لابأس طہورإن شاء اللہ۔ اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحت جس طرح ایک نعمت ہے اسی طرح بیماری بھی ایک نعمت ہے۔ مومن جب صحت مند ہو تو صحت کی حالت اس کے لیے شکر کے جذبات پیدا کرنے میں معاون بنتی ہے، اور مومن کو جب بیماری کا تجربہ ہوتا ہے تو بیماری اس کے عجز کے جذبات میں اضافے کا سبب بن جاتی ہے۔ اور جیسا کہ معلوم ہے، عجز اللہ سے قربت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: أنا عند المنکسرۃ قلوبہم۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر قسم کی رحمت اور نصرت اور عافیت عطا فرمائے۔

نئی دہلی، ۲۵ستمبر ۲۰۰۶              دعا گو    وحیدالدین

میرے اِس خط کے بعد مولانا موصوف کا ایک اورخط مجھے ملا، جو یہاں نقل کیا جاتا ہے:

محترم المقام، صاحب قلم، عالمِ ربّانی، حضرت مولانا وحید الدین خاں صاحب مدظلہ العالی!

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آپ کے خط کے جواب میں میرا عریضہ الحمد للہ آپ کو مل گیا۔ آپ نے اس کے جواب میں جو تحریر فرمایا اس سے مجھے بڑی تسکین، خوشی، اور راحت محسوس ہوئی۔ الحمد للہ دل پوری طرح مطمئن ہوا۔اس عاجز کے خط کا آپ نے مؤمنانہ اثر لیا۔ آپ مطمئن ہوئے۔ اس پر آپ کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ اور اپنے حق میں بھی دعا کی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہم کو راہِ ہدایت پر قائم رکھے۔ اور ہم سبھوں کو ایک دوسرے کا معاون بنائے۔

آپ نے جن احادیثِ مبارکہ کا تذکرہ فرمایا اسے پڑھوا کر سنا، بڑی تسلی ہوئی۔ بعض احادیث کا استحضار بھی ہوا۔ آپ کے یہ جملے— ’’مومن جب صحت مند ہو تو صحت کی حالت اس کے لیے شکر کے جذبات پیدا کرنے میں معاون بنتی ہے، اور جب مومن کو بیماری کا تجربہ ہوتا ہے تو بیماری اس کے لیے عجز کے جذبات میں اضافے کا سبب بن جاتی ہے‘‘۔الحمد للہ ان جملوں سے مزید تقویت پہنچی۔ آپ کا یہ تحریرفرمانا کہ— ’’مجھے یقین ہے کہ آپ کا یہ مکتوب بھی آپ کے مراتب عالیہ میں اضافے کا ذریعہ ہوگا۔ آپ نے جس طرح کھلے دل کے ساتھ معاملے کی وضاحت فرمائی، وہ آپ کی ایمانی عظمت کا ایک مزید ثبوت ہے‘‘۔یہ جملے آپ نے میرے لیے استعمال کئے، اس کا مستحق تو نہیں ہوں لیکن اس پر الحمدللہ آمین آمین کہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے میرے تعلق سے آپ کا ذہن حسن ظن کی طرف ڈالا۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کا مستحق بنادے۔ آپ کے جملے سن کر میرا دل بھر آیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر کثیر عطا فرمائے۔جو دعائیں آپ نے میرے حق میں فرمائی ہیں، میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہی دعائیں لاکھوں گنا آپ کے حق میں بھی قبول فرمائے۔ آمین۔

آں جناب کی گراں قدر تفسیر ’’تذکیر القرآن‘‘ الحمد للہ موصول ہوئی۔ تھوڑا تھوڑا پڑھوا کر روزانہ اس کو سنتا ہوں۔ اللہ آپ کے درجات بلند فرمائے۔ اور آپ کی محنتوں کو قبول فرمائے۔ والسلام

۱۰؍ اکتوبر ۲۰۰۶           طالب دعا         عبد الکریم پاریکھ،ناگ پور

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom