مراسلت نمبر— ۷

مولانا محمد کلیم صدیقی، سرپرست ماہ نامہ ارمغان شاہ ولی اللہ (پھُلت، ضلع مظفر نگر) کا ایک مضمون مولانا عبد اللہ عباس ندوی کے متعلق، ارمغان میں چھپا تھا۔ اس مضمون کو پڑھ کر میں نے انھیں یہ خط لکھا:

برادرِ محترم مولانا محمد کلیم صدیقی!

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ

عرض یہ کہ ماہ نامہ ارمغان ولی اللہ کا شمارہ اپریل-مئی ۲۰۰۶ دیکھا۔اس میں آپ کاایک مضمون چھپا ہے، اس کا عنوان یہ ہے:’’حضرت مولانا عبد اللہ عباس ندوی، چند یادیں چند باتیں

اس مضمون میں آپ نے مولانا عبد اللہ عباس ندوی کے تذکرے کے ذیل میں لکھا ہے کہ:

حق و باطل کو قریب سے دیکھنے اور ان کے درمیان تحقیقی تقابل کے بعدحق کی عظمت آشکارا ہوتی ہے اور ایسی شخصیات جن کو مشرق و مغرب کے مے خانوں سے استفادے کا موقع ملتا ہے تو وہ حق کی عظمت اور اعتراف کے سلسلے میں صاحب تقلید نہیں رہتے بلکہ صاحب تحقیق ہوجاتے ہیں۔ اور پھر ان کی زبان و قلم سے جو بھی نکلتا ہے اس سے حق پر اُن شخصیات کا تحقیقی اعتماد ظاہر ہوتا ہے۔ مولانا عبد اللہ عباس ندوی کو اللہ نے اِس کا موقع دیا تھا…انھوں نے مغرب کی راجدھانی انگلینڈ میں مغربی علوم، تہذیب ومعاشرت کا تحقیقی وتقابلی نظر سے مطالعہ کیا تھا۔وہ وہاں کے محققین میں شمار کیے جاتے تھے‘‘۔ (صفحہ ۹)

آپ کے اِس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مولانا عبداللہ عباس ندوی، مغربی علوم میں صاحبِ تحقیق کا درجہ رکھتے تھے۔ ان کاشمار ’’مغرب کے محققین‘‘ میں کیا جاتا تھا۔ جہاں تک مشرقی موضوعات کا تعلق ہے، ان میں مولانا عبد اللہ عباس ندوی بلاشبہہ دست رس رکھتے تھے،لیکن میں ان کی کسی ایسی تحریر کو نہیں جانتا جس سے معلوم ہوتا ہو کہ وہ مغربی علوم میں محقق کا درجہ رکھتے تھے اور ان کا شمار مغرب کے محققین میں ہوتا تھا۔

براہِ کرم مولانا عبد اللہ عباس ندوی کی کسی ایسی کتاب یا مقالے کا حوالہ تحریر فرمائیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ وہ مغربی علوم میں تحقیقی دست گاہ رکھتے تھے۔ اِس قسم کا کوئی متعین حوالہ بھیج کر ممنون فرمائیں۔

نئی دہلی، ۱۰؍اپریل ۲۰۰۶ء           دعا گو   وحیدالدین

کافی انتظار کے بعد جب مولانا موصوف نے میرے خط کا کوئی جواب اور اپنے دعوے کے حق میں کوئی حوالہ نہیں فرمایا تو میں نے دوبارہ انھیں ایک خط روانہ کیا۔ اس خط کا مضمون یہ تھا:

برادرِ محترم مولانا محمد کلیم صدیقی!

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ

عرض یہ کہ ۱۰؍ اپریل ۲۰۰۶ کو میں نے آپ کی خدمت میں ایک خط روانہ کیا تھا۔ یہ خط آپ کے ایک مطبوعہ مضمون سے متعلق تھا۔ میں نے آپ سے آپ کی تحریر کردہ ایک بات کا حوالہ دریافت کیا تھا، مگر ابھی تک آپ کی طرف سے اس کا کوئی جواب مجھے نہیں ملا۔

براہِ کرم میرے خط کا جواب جلد روانہ فرماکر شکریے کا موقع دیں۔

نئی دہلی، ۲۵ مئی ۲۰۰۶              دعا گو    وحید الدین

طویل انتظار کے بعد جب کوئی جواب مجھے نہیں ملا تو میں نے ان کو درج ذیل خط روانہ کیا:

برادرِ محترم مولانا محمد کلیم صدیقی!

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ

یہ عریضہ میں اپنے سابقہ خط کے ضمن میں آپ کو لکھ رہا ہوں۔ آپ نے اپنے ماہ نامہ ارمغان شاہ ولی اللہ (اپریل۔مئی ۲۰۰۶) میں لکھا تھا کہ مولانا عبد اللہ عباس ندوی مغربی علوم میں صاحبِ تحقیق کا درجہ رکھتے تھے۔ اُن کا شمار مغرب کے محققین میں ہوتا تھا۔ مگر میں ان کی کسی ایسی تحریر کو نہیں جانتا جس سے معلوم ہوتا ہو کہ مولانا عبد اللہ عباس ندوی مغربی علوم میں محقق کا درجہ رکھتے تھے۔ میں نے آپ سے آپ کے اِس بیان کا متعین حوالہ دریافت کیا تھا، مگر ابھی تک آپ کی طرف سے اِس سلسلے میں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

اب میں اِس سلسلے میں اپنا آخری خط آپ کو لکھ رہا ہوں۔ اگر آپ نے اس کا جواب روانہ نہیں فرمایا تو میں یہ سمجھوں گا کہ مولانا عبداللہ عباس ندوی کے متعلق، آپ کایہ بیان صرف قصیدہ نگاری کے طورپر تھا، وہ ایک امرِ واقعہ کا بیان نہ تھا۔ کیوں کہ امرواقعہ کا ہمیشہ ایک متعین حوالہ ہوتا ہے۔ جب کہ مدحیّہ قصیدے کی حیثیت صرف ایک شاعرانہ مبالغے کی ہوتی ہے، وہ کسی ایسی حقیقت پر مبنی نہیں ہوتا جس کا حوالہ دینا ممکن ہو۔

نئی دہلی، ۳۰؍ اگست ۲۰۰۶ء          دعاگو    وحید الدین

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom