مراسلت نمبر— ۸
ماہ نامہ زندگیٔ نو (نئی دہلی) کے شمارہ جون ۲۰۰۶ میں ’’رسائل ومسائل‘‘ کے تحت، مولانا محمد شاہد خان ندوی (دوحہ، قطر)کا ایک مراسلہ چھپا۔ اپنے اِس مراسلے میں انھوں نے ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے بارے میں ایک ایسی بات لکھی تھی جو میرے نزدیک علمی اعتبار سے بے بنیاد تھی۔ اس سلسلے میں ان سے درج ذیل مراسلت ہوئی:
برادرِ محترم مولانا محمد شاہد خان ندوی!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ آپ کا ایک مراسلہ ماہ نامہ زندگی ٔ نو (جون ۲۰۰۶) میں چھپا ہے۔ اس مراسلے میں آپ نے ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے بارے میں لکھا ہے کہ—’’عصرِ حاضر اور اسلام پر شاید ہی کوئی دوسرا عالم اتنا لکھتا اور بولتا ہو جتنا کہ علامہ یوسف القرضاوی لکھتے اور بولتے ہیں ‘‘۔ (صفحہ ۸۰)
اِس بیان سے آپ کی مراد اگریہ ہو کہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے عصرِ حاضر میں پیدا شدہ بعض جُزئی فقہی مسائل کے متعلق کلام کیا ہے تو یہ بجائے خود درست ہے، لیکن اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے عصرِ حاضر اور اسلام کے موضوع کو اس کے عمیق معنوں میں سمجھا ہے اور اسلامی نقطۂ نظر سے اس کا علمی تجزیہ کیا ہے تو مجھے ان کی ایسی کسی کتاب کا علم نہیں۔ ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے اپنی کس کتاب میں اسلام اور عصرِ حاضر کے موضوع پر اِس عمیق مفہوم میں اس کاگہرا علمی تجزیہ کیا ہے۔ براہِ کرم متعیّن طور پر صفحہ نمبر کے ساتھ اُن کی متعلقہ تحریر کا حوالہ روانہ فرمائیں۔
نئی دہلی، ۱۳ جون ۲۰۰۶ دعا گو وحید الدین
جواب میں تاخیر ہوئی تو میں نے یاد دہانی کے لیے دوبارہ درج ذیل خط روانہ کیا:
برادرِ محترم مولانا محمد شاہد خان ندوی!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ میں نے اپنے خط مؤرخہ ۱۳ جون ۲۰۰۶ میں، آپ سے ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی کسی ایسی تحریر کا ایک متعین حوالہ دریافت کیا تھا جس سے آپ کے دعوے کے مطابق، یہ معلوم ہو کہ انھوں نے اسلام اور عصرِ حاضر کے موضوع کو اس کے عمیق معنوں میں سمجھا ہے اور اس کا علمی تجزیہ کیا ہے۔ مگر ابھی تک آپ نے اس کا کوئی جواب روانہ نہیں فرمایا۔براہِ کرم جلد میرے خط کا متعین جواب روانہ فرمائیں۔
نئی دہلی، ۱۳ جولائی ۲۰۰۶ء جواب کا منتظر وحید الدین
میرے ان دو خطوں کے بعد مراسلہ نگار کا درج ذیل خط مجھے بذریعے ای میل موصول ہوا:
فضیلۃ الاستاذ مولانا وحید الدین خاں صاحب اطال اللہ بقاء کم وادام فیوضکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید کہ مزاج گرامی بخیر ہوگا!
آپ کاای میل نظر نواز ہوا۔ پہلی بار انٹرنٹ کی برکت سے آپ سے شرف ہم کلامی حاصل ہورہا ہے، میں آپ کے مؤقر جریدہ –الرسالہ– کا تقریباً بارہ تیرہ سال سے شیدائی ہوں، آپ کی تحریروں کو بڑے شوق سے پڑھتا ہوں، زمانہ طالب علمی ہی میں آپ کی کتاب –مذہب اور جدید چیلنج، تعبیر کی غلطی– اور چند دوسری کتابیں پڑھ لی تھیں، اُسی زمانہ سے الرسالہ مطالعہ کے لیے اِدھر اُدھر سے حاصل کرتا تھا نہ ملنے کی صورت میں لکھنؤ شہر کے بعض مکتبوں سے خرید کر پڑھتا تھا، جب میں قطر آگیا تو یہاں اردو داں حلقے سے جس حد تک بھی میری واقفیت تھی کسی کے پاس بھی الرسالہ نہیں آتا تھا، آپ کے افکار سے واقفیت رک گئی، شوق نے پھر مہمیز کیا اور میں نے الرسالہ یہاں کے پتہ پر جاری کروایا جو میری سستی اور بعض دوسری مشغولیات کی بنا پر تجدید اشتراک نہ کرسکنے کی وجہ سے پچھلے سال جون میں بند ہوگیا۔
ماشاء اللہ آپ کا مطالعہ بہت وسیع، آپ کا اسلوب نگارش بہت عمدہ اور طریقۂ استنتاج بہت منفرد ہے۔ آپ کا ذہن تقلیدی نہیں، آپ اوریجینل چیزیں پیش کرتے ہیں اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں اور ان کی سائنٹفک توجیہ کرتے ہیں، عصر حاضر میں اسلام کی خدمت کے حوالے سے آپ کی کوششیں اور کاوشیں قابل قدر ہیں۔
جب بھی ہندستان میں مسلمانوں کو کوئی نیا مسئلہ در پیش ہوتا ہے آپ کی ذات گرامی سے توقع ہوتی ہے کہ کوئی عمدہ چیز سامنے آئے گی اور عام تقلیدی مزاج سے ہٹ کر آپ کوئی مجتہدانہ رائے دیں گے لیکن معذرت کے ساتھ بعض مسائل میں آپ کی طرف سے ہم لوگوں کو شدید مایوسی ہوئی، مثلاً گڑیا کا معاملہ، آپ لوگوں نے فیصلہ پہلے شوہر کے حق میں دیا۔ اس دن زی ٹیلی ویژن کے اسکرین پر ہم لوگ آپ کو سن رہے تھے، ایک عام آدمی نے اس دن اس فیصلہ کو آپ سے درایۃً جاننا چاہا تو آپ نے اسے اطمینان بخش جواب دینے کے بجائے اس سے کچھ اسی طرح کے الفاظ فرمائے کہ شریعت میں عقل کا گھوڑا دوڑانا چاہتے ہو؟
اسی طرح سے عمرانہ کا مسئلہ جس کے ساتھ اس کے خسر نے زنا کیا، اور ایک قدیم فقہی فیصلہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے باپ کی موطوء ۃ قرار دیاگیا حالاں کہ حدیث شریف کہتی ہے کہ—الولد للفراش وللعاہر حجر– اس موقع پر آپ سے توقع تھی کہ آپ روح شریعت کو صحیح طورپر پیش کریں گے، اور شریعت کی روشنی میں ایسا معقول اور دل لگنے والا فیصلہ دیں گے جس سے تمام لوگ مطمئن ہوں گے۔ لیکن مایوسی ہوئی، یقین مانئے کہ اس طرح کے فیصلوں سے اسلام کی بدنامی ہوتی ہے اور میڈیا کے اس دور میں دوسرے لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ قصور اسلام میں ہے اور وہ اس دور کے تقاضوں کو پورا کرنے سے عاجز ہے، میری ان معروضات کا مقصد تنقید ہرگز نہیں بلکہ یہ باتیں میں نے آپ سے اس لیے عرض کی ہیں کہ آپ ایک بلند پایہ روشن دماغ عالم دین ہیں، اور آپ کا ایک حلقہ اثر ہے، اور لوگوں کے مقام و مرتبہ کے مطابق ہی ان سے امیدیں قائم کی جاتی ہیں۔ ہم جیسے لوگ آپ کی تحریروں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، بہت ممکن ہے کہ آپ لوگوں کا فیصلہ درست بھی ہو لیکن اس دور میں ایک عام عقل کو اس طرح کی چیزیں مطمئن کرنے والی نہیں ہیں۔
جہاں تک ڈاکٹر علامہ یوسف القرضاوی صاحب کے سلسلہ میں آپ کے استفسار کا سوال ہے تو یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ انھوں نے عصر حاضر میں پیدا شدہ بے شمار فقہی مسائل پر مجتہدانہ گفتگو کی ہے لیکن انہوں نے صرف فقہی مسائل کو ہی اپنا موضوع نہیں بنایا ہے بلکہ عصر حاضر کے سیاسی، سماجی، اور دیگر مسائل کو گہرائی سے دیکھا اور اسلامی نقطۂ نظر سے ان پر کلام کیا ہے، کتاب وسنت کی روشنی میں عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح اور اسلام کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے، جیسا کہ میں نے اپنا مراسلہ (زندگی نو، جون ۲۰۰۶) میں لکھا ہے کہ، انٹرنٹ ویب سائٹ موقع القرضاوی islamonline، اور الجزیرہ سیٹلائٹ چینل کے ہفتہ واری پروگرام الشریعۃ والحیاۃ، قطر ٹیلی ویژن کے ہفتہ واری پروگرام ہدی الاسلام میں ان کی سرگرمیوں کو دیکھا جاسکتا ہے، ان پروگراموں کے ذریعہ اسلام کو عصری انداز میں پیش کیا جاتا ہے، عصر حاضر کے مسائل اٹھائے جاتے ہیں اور مختلف چیلنجز کا اسلامی حل پیش کیا جاتا ہے، علامہ موصوف انتہائی مصروف انسان ہیں، خدمت دین ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا ہے، اس عمر میں بھی وہ انتھک محنت کرتے ہیں مختلف عالمی کانفرنسوں میں شرکت کرتے ہیں جس میں ایک موضوع حوار الادیان بھی ہے، جمعہ کا ان کا خطبۂ ثانیہ (جو قطر سے ٹیلی کاسٹ کیا جاتا ہے) ہمیشہ حالاتِ حاضرہ پر ہوا کرتا ہے جس میں تنقید بھی ہوتی ہے اور توجیہہ بھی۔
ان کی مکمل فکر کو کسی ایک اقتباس سے نہیں سمجھا جاسکتا، ان کے افکار بے شمار کتابوں میں پھیلے ہوئے ہیں، ان کو یکجا کرنے کے بعد ہی ان کی مکمل فکر سامنے آسکتی ہے، یہاں میں ان کی چند کتابوں کی طرف اشارہ کررہا ہوں۔
۱۔ فقہ الاولویات دراسۃ جدیدۃ فی ضوء القرآن والسنۃ۔
۲۔ این الخلل۔
۳۔ الاسلام والعلمانیۃ وجہا لوجہ۔
۴۔ شریعۃ الاسلام صالحۃ للتطبیق فی کل زمان ومکان۔
۵۔ الحلول الاسلامی وکیف جنت علی امتنا۔
۶۔ بینات الحل الاسلامی وشبہات العلمانیین والمغتربین۔
۷۔ الاسلام حضارۃ الغد۔
۸ لقاء ات ومحاورات حول قضایا الاسلام والعصر (جزء ان)
۹۔ قضایا معاصرۃ علی بساط البحث۔
۱۰۔ الدین فی عصر العلم۔
۱۱۔ مستقبل الاصولیۃ الاسلامیۃ۔
۱۲۔ القدس قضیۃ کل مسلم۔
۱۳۔ حاجۃ البشریۃإلی الرسالۃ الحضاریۃ لأمتنا۔
۱۴۔ العولمۃ۔
۱۵۔ الاجتہاد فی الشریعۃ الاسلامیۃ۔
۱۶۔ أمّتنا بین قرنین۔
لیکن مجھے نہیں معلوم کہ—اسلام اور عصر حاضر پر اسلامی نقطہ نظر سے گہرا علمی تجزیہ— کے آپ کے مطلوبہ معیار پر ان کی تحریریں یا ان کے افکار و نظریات پورا اترتے ہیں یا نہیں، اس لیے کہ مسائل کو دیکھنے کا ہر آدمی کا اپنا نقطہ نظر ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عملِ خیر اور خیر عمل کی زیادہ سے زیادہ توفیق نصیب فرمائے۔
۷ اگست ۲۰۰۶ طالب دعا
محمد شاہد خان ندوی، دوحہ، قطر
مراسلہ نگار کا یہ طویل خط میرے اصل سوال کا جواب نہ تھا، اس لیے میں نے دوبارہ ان کو ایک خط روانہ کیاجس کا کوئی جواب موصوف کی طرف سے مجھے نہیں ملا۔ میرے اُس خط کی نقل یہاں درج کی جاتی ہے:
برادرِ محترم مولانا محمد شاہد خان ندوی!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کاخط مؤرخہ۷؍اگست ۲۰۰۶ملا۔ عرض ہے کہ آپ کا یہ مکتوب میرے سوال کی نسبت سے غیر متعلق (irrelevant) ہے۔ اس لیے دوبارہ میں آپ کو اپنا یہ خط لکھ رہا ہوں۔
اصل یہ ہے کہ’’عصری مسائل‘‘ کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو دورِ جدید میں مسلمانوں کی فقہی ضرورت کی نسبت سے پیدا ہوئے ہیں۔ اور دوسرے وہ جو وقت کے جدید عالمی ذہن کی پیداوار ہیں۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو بہت سے فقہی نوعیت کے مسائل پیش آئے ہیں۔ مثلاً اسکینڈی نیویا کے ملکوں میں نماز اور روزے کے اوقات کا مسئلہ، مغربی ممالک میں ذبیحہ اور غیر ذبیحہ کا مسئلہ، بینک انٹرسٹ اور انشورنس پالیسی کا مسئلہ، وغیرہ۔ یہ سب خالصتاً مسلم مسائل ہیں۔ ان مسائل پر ڈاکٹر یوسف القرضاوی اور دوسرے لوگوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔
مگر میرے سوال کا تعلق، اِس قسم کے ’’عصری مسائل‘‘سے نہیں۔ میرے سوال کا تعلق، ایک اور بات سے ہے۔ وہ یہ کہ موجودہ زمانے میں انسانی ذہن میں انقلابی تبدیلی آئی ہے۔ جدید عالمی ذہن سائنٹفک فریم ورک میں اسلام کی صداقت کو سمجھنا چاہتا ہے۔ میرا سوال صرف یہ ہے کہ کیا جدید سائنٹفک فریم ورک کی نسبت سے ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے کوئی علمی کام کیا ہے۔ اگر آپ کی مراد یہ ہے کہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے بعض جدید فقہی ضرورتوں کی نسبت سے کچھ مسائل میں مسلمانوں کی رہنمائی کی ہے تو یہ بات بجائے خود درست ہے، لیکن اگر آپ کی مرادیہ ہے کہ وقت کے فکری مستویٰ کے مطابق، اسلام کو جدید عالمی ذہن کے لیے قابلِ فہم بنانے کی نسبت سے انھوں نے کوئی علمی کام کیا ہے تو مجھے اس کا علم نہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ جدید سائنٹفک فریم ورک کی نسبت سے بھی انھوں نے کوئی علمی کام انجام دیا ہے تو براہِ کرم ایسے کسی کام کا متعین حوالہ، کتاب کے نام اور صفحہ نمبر کے ساتھ روانہ فرمائیں۔
نئی دہلی، ۹ ؍اگست ۲۰۰۶ء دعا گو وحید الدین