مراسلت نمبر— ۴

ڈاکٹر محمد فاروق خان پاکستان کے ایک مسلم دانشور ہیں۔ ان کی ایک کتاب لا ہور سے ۲۰۰۵میں چھپی ہے۔ اس کتاب کے باب پنجم میں ایک ذیلی عنوان ’’دار الدعوۃ‘‘ کے تحت، انھوں نے یہ تحریر کیا ہے کہ اخوانی رہنما حسن الہُضیبی کے یہاں دار الدعوۃ کا تصور پایا جاتا ہے۔ میرے مطالعے کے مطابق، یہ ایک بے بنیاد دعویٰ تھا۔ چنانچہ میں نے صاحبِ کتاب کو ایک خط لکھا۔ اس خط کا مضمون یہ تھا:

برادرِ محترم ڈاکٹر محمد فاروق خان!

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ

آپ کی تازہ کتاب ’’جہاد، قتال اور عالم اسلام‘‘ نظر سے گذری۔ اِس کتاب کے ایک ذیلی عنوان ’’دارالدعوۃ‘‘ کے تحت، آپ نے لکھا ہے:

دَور حاضر میں ایک نئی اصطلاح ’’دار الدعوۃ‘‘ استعمال کی گئی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ غیر مسلم ممالک نہ دار الحرب ہیں اورنہ دار الکفر، بلکہ وہ ’’دار الدعوۃ‘‘ ہیں۔ یعنی یہ وہ ممالک ہیں جنھیں اسلام کی دعوت پہنچانا ہمارا کام ہے۔ یہ اصطلاح...... اخوان المسلمون کے مُرشدِ عام امام حسن الہُضیبی نے استعمال کی ہے۔ امام حسن الہضیبی نے اپنی کتاب ’’دُعاۃ... لاقُضاۃ‘‘ ’’یعنی ہم داعی ہیں نہ کہ قاضی‘‘ میں وضاحت اور تفصیل کے ساتھ اپنے موقف کو بیان کیا ہے کہ ہمارا کام کسی کو کافر اور دشمن قرار دینا نہیں، بلکہ تمام غیر مسلم ہمارے مدعو ہیں اور ہم داعی۔ یعنی ہم اُن کو اسلام کی دعوت پہنچانے کے مکلّف ہیں ‘‘۔ (صفحہ ۹۵)

میں نے شیخ حسن الہضیبی کی کتاب ’’دعاۃ...لاقضاۃ‘‘پڑھی ہے، مگر میں نے اس میں وہ بات نہیں پائی جو آپ نے اُن کی بابت تحریر فرمائی ہے۔ حتی کہ اس کتاب میں ’’دار الدعوۃ ‘‘ کا لفظ بھی موجود نہیں۔ براہِ کرم مطلع فرمائیں کہ ’’دار الدعوۃ‘‘ کی یہ بات مذکورہ کتاب کے کس صفحے پر موجود ہے۔

نئی دہلی، ۱۹ جنوری ۲۰۰۶             دعا گو    وحید الدین

میرے اِس خط کا کوئی جواب صاحبِ کتاب کی طرف سے نہیں ملا۔ کافی انتظار کے بعد میں نے دوبارہ اُنھیں ایک خط روانہ کیا۔ میرے اس دوسرے خط کا مضمون یہ تھا:

برادرِ محترم ڈاکٹر محمد فاروق خان!

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ

عرض یہ کہ میں نے آپ کے نام ایک خط مؤرخہ ۱۹ جنوری ۲۰۰۶ روانہ کیا تھا، مگر اب تک مجھے اس کا جواب نہیں ملا۔میں نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ آپ نے اپنی کتاب میں مصری عالم، حسن الہضیبی کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ انھوں نے اپنی کتاب ’’دُعاۃ…لاقضاۃ ‘‘ میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ غیر مسلم اقوام ہماری مدعو ہیں اور ہم اُن کے لیے داعی ہیں، غیر مسلم ممالک کی حیثیت دار الدعوۃ کی ہے نہ کہ دارالحرب اور دار الکفر کی۔

میں نے لکھا تھا کہ مذکورہ کتاب میں نے پڑھی ہے، مگر اس میں دار الدعوہ کا لفظ کہیں موجود نہیں۔آپ کے قریبی جواب کا انتظار ہے۔

نئی دہلی، ۶ فروری ۲۰۰۶             دعا گو    وحید الدین

محترم مولانامحمدذکوان ندوی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

امید ہے آپ بخیر وعافیت ہوں گے۔ محترم ومکرم مولانا وحید الدین خاں صاحب کا خط چند روز پہلے مجھے موصول ہوا تھا۔ ’المورد‘ کی لائبریری شفٹ کرنے کے دوران میں مطلوبہ کتاب کہیں misplace ہوگئی۔ میں نے سوچا تھا کہ وہ کتاب مل جائے تو میں اپنی معروضات پیش کروں گا تاہم ابھی تک وہ کتاب نہیں مل سکی۔ میرے نزدیک اس کتاب کا لب لباب وہی ہے جو میں نے تحریر کیا ہے۔ کتاب کے نام سے بھی یہی ظاہر ہے۔

۱۲ فروری، ۲۰۰۶         والسلام، مخلص ڈاکٹر محمد فاروق خان

موصوف کے اس خط کے بعد میں نے انھیں ایک خط روانہ کیا جس کی نقل یہاں درج کی جاتی ہے:

برادرِ محترم ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب!

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ

آپ کا خط مؤرخہ ۱۲ فروری ۲۰۰۶ ملا۔ آپ کا یہ خط اصلاً میرے خط کے جواب میں ہے۔ لیکن کسی غلط فہمی کی وجہ سے اس میں مولانا محمد ذکوان ندوی کو ایڈریس کیاگیا ہے۔

آپ نے اپنے اِس خط میں میرے سوال کا جواب نہیں دیا ہے بلکہ براہِ راست جواب سے اعراض فرمایا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی کتاب میں مصری عالم استاذ حسن الہضیبی کا ذکر کیا ہے، اور بتایا ہے کہ انھوں نے اپنی کتاب ’’دُعاۃ…لا قضاۃ‘‘ میں غیر مسلم ممالک کو دار الدعوۃ قراردیا ہے۔

میرا سوال مذکورہ کتاب کے صرف اس حوالے کے بارے میں تھا۔ میں نے پوچھاتھا کہ استاذ حسن الہضیبی نے اپنی مذکورہ کتاب کے کس صفحے پر غیرمسلم ممالک کے لیے ’’دار الدعوۃ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے اور یہ لکھا ہے کہ غیر مسلم ممالک دار الحرب اور دار الکفرنہیں بلکہ وہ ’’دار الدعوۃ‘‘ ہیں۔ میں نے یہ کتاب پڑھی ہے اور میں نے اس میں کہیں بھی دار الدعوۃ کا لفظ نہیں پایا۔ آپ کا مذکورہ جواب علمی اعتبار سے مکمل طورپر غیر تشفی بخش ہے۔

آپ کا یہ کہنا کہ—’’کتاب کا لبّ لباب وہی ہے، اور کتاب کے نام سے بھی یہی ظاہر ہے‘‘۔ یہ دونوں باتیں سخت غیر علمی ہیں۔ کیوں کہ میں نے آپ سے یہ نہیں پوچھاتھا کہ کتاب کا لب لباب کیا ہے، بلکہ یہ پوچھا تھا کہ آپ کے دعوے کے مطابق، کتاب میں متعیّن طورپر ’’دارالدعوۃ‘‘ کی اصطلاح کہا ں استعمال ہوئی ہے۔ آپ کا یہ عذر کہ کتاب مِس پلیس(misplace) ہوگئی ہے، موجودہ پریس اور کمیونکیشن کے دَور میں مضحکہ خیز حد تک ناقابل قبول ہے۔ شریعت کا اصول ہے کہ: البیّنۃ علی المدّعی۔ چوں کہ آپ نے ایک دعویٰ کیا ہے، اِس لیے اب آپ ہی کی یہ ذمّے داری ہے کہ آپ اپنے اس دعوے کے حق میں مطلوب ثبوت پیش فرمائیں۔

نئی دہلی، ۱۶فروری ۲۰۰۶             دعا گو   وحید الدین

میرے اِس خط کے بعد ان کا ایک خط مجھے ملا، جو یہاں نقل کیا جاتا ہے:

محترم ومکرم مولانا وحید الدین خاں صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ میں آپ کا نہایت شکر گزار ہوں کہ آپ نے ایک اہم غلطی کی طرف میری توجہ دلائی۔ میں اپنے پبلشر کو پیغام دے رہا ہوں کہ ان کے پاس جتنے نسخے بھی موجود ہیں، ان کے متعلقہ صفحے سے استاذ حسن الہضیبی کا نام کاٹ دیں۔ فی الوقت یہ کتاب صرف پانچ سو کی تعداد میں چھپی ہے اور میرا خیال ہے کہ اس کے کم ہی نسخے نکلے ہوں گے۔ انشاء اللہ جب اس کتاب کا اگلا ایڈیشن شائع ہوگاتو اس میں نہ صرف یہ کہ اس غلطی کی اصلاح کردی جائے گی بلکہ اس میں جناب حسن الہضیبی کے بارے میں تبصرہ بھی اس موضوع سے علیحدہ درج کیا جائے گا۔ انشاء اللہ اگلے ایڈیشن میں موجودہ ایڈیشن کی اس غلطی کا تذکرہ بھی ہوگا تاکہ زیادہ سے زیادہ قارئین تک یہ بات پہنچ جائے۔

آپ نے میرا عذر قبول نہیں فرمایا حالانکہ میری بات بالکل حقیقت پر مبنی تھی۔ میں ایک دور افتادہ چھوٹے سے شہر میں رہتا ہوں جہاں پریس اور کمیونیکیشن کا وہ حال نہیں ہے جو بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ جب بھی آپ کا کوئی نمائندہ لاہور آئے تو وہ کتاب مس پلیس ہونے سے متعلق ذمے دار افراد سے خود اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں۔

والسلام

۱۹ فروری، ۲۰۰۶          آپ کا مخلص       ڈاکٹر محمد فاروق خان

ان کے اس خط کے بعد میں نے حسب ذیل خط ان کو روانہ کیا:

برادرِ محترم ڈاکٹر محمد فاروق خان!

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ

آپ کا خط مؤرخہ ۱۹ فروری ۲۰۰۶ ملا۔ آپ نے اپنی تحریر کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ اس کو صرف ’’ایڈیشن کی غلطی‘‘ سمجھتے ہیں۔ ایڈیشن کی غلطی کا لفظ ایک مبہم لفظ ہے۔ اِس سے غلطی کی اصل نوعیت معلوم نہیں ہوتی۔آپ کو غیر مبہم انداز میں یہ لکھنا چاہیے کہ جو الفاظ آپ کی کتاب میں چھپے ہیں وہ آپ نے غلط طور پر لکھ دیے تھے، یا آپ کے کسی قصد کے بغیر وہ اتفاقاً اپنے آپ ہی اس میں چھپ گیے۔ میرے نزدیک، آپ کی کتاب میں جو غلطی کی گئی ہے وہ یقینی طورپر طباعت کی غلطی نہیں ہے بلکہ وہ خود مصنف کی اپنی تحریری غلطی ہے۔ میں دوبارہ عرض کروں گا کہ آپ متعیّن الفاظ میں اِس معاملے کی وضاحت تحریر فرمائیں۔

نئی دہلی، ۲۰ فروری ۲۰۰۶            دعاگو    وحید الدین

کافی انتظار کے بعد جب ان کا کوئی جواب مجھے نہیں ملا تو میں نے ان کی خدمت میں درج ذیل خط روانہ کیا:

برادرِ محترم ڈاکٹر محمد فاروق خان!

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ

عرض یہ کہ آپ کی کتاب ’’جہاد، قتال اور عالمِ اسلام‘‘ کے بارے میں میں نے آپ سے ایک خط وکتابت کی تھی مگر آپ نے واضح اور متعین جواب سے اعراض فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں آپ کے لیے صرف دو میں سے ایک کا انتخاب ہے، یا تو آپ بتائیں کہ آپ کے دعوے کے مطابق، کتاب ’’دعاۃ…لاقضاۃ‘‘ کے کس صفحے پر ’’دار الدعوۃ‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے، یا پھر صاف طورپر یہ اعتراف کریں کہ آپ نے جو حوالہ دیا وہ ایک غلط حوالہ تھا۔ آپ کے لیے یہ کوئی درست طریقہ نہیں کہ آپ اصل سوال کا براہِ راست جواب نہ دے کر ٹالنے والے جواب (evasive reply) کا انداز اختیار کریں۔

میں عرض کروں گا کہ آپ کا یہ طریقہ سخت غیر علمی طریقہ ہے۔ اِس قسم کی روش کا نتیجہ آدمی کے حصّے میں یہ آتا ہے کہ اس کی علمی ترقی رُک جائے اور وہ اعلیٰ فکری ارتقاء کے درجے تک نہ پہنچ سکے۔

نئی دہلی،۸مارچ ۲۰۰۶               دعا گو    وحید الدین

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom