مراسلت نمبر— ۲
ماہ نامہ الفرقان (لکھنؤ) کے مرتّب مولانا محمد یحییٰ نعمانی کا ایک مضمون الفرقان کے شمارہ دسمبر ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا۔ اس کا عنوان یہ تھا:’’امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ کا ایک عظیم کارنامہ، شریعتِ اسلامیہ کی حکیمانہ ترجمانی‘‘۔
اس مضمون میں ایک ذیلی عنوان کے تحت، انھوں نے ایک ایسی بات لکھی تھی جو میرے نزدیک علمی اعتبار سے بے بنیاد تھی۔ ان کے اِس مضمون کو پڑھ کر صاحبِ مضمون سے درج ذیل مراسلت ہوئی:
مکرمی مولانا محمد یحییٰ نعمانی!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ماہ نامہ الفرقان کے شمارہ دسمبر ۲۰۰۵میں آپ کا اداریہ دیکھا۔ یہ اداریہ شاہ ولی اللہ دہلوی کے بارے میں ہے۔ اس کا ایک ذیلی عنوان یہ ہے:’’حکمتِ ولی اللہ کی عصری معنویت‘‘۔
اِس مضمون میں میں نے اس کے عنوان کے مطابق، شاہ ولی اللہ کی تعلیمات میں ’’عصری معنویت‘‘ کو تلاش کرنے کی کوشش کی، مگر یہ عصری معنویت مجھے اِس تحریر کے اندر نہیں ملی۔ پورا مضمون بیانیہ انداز میں ہے۔ آپ نے کوئی ایک بھی مثال ایسی نہیں دی جس سے آپ کے دعوے کے مطابق، یہ اندازہ ہو کہ شاہ ولی اللہ کی تحریروں میں عصری معنویت موجود ہے۔ براہِ کرم اس سلسلے میں صرف ایک متعین مثال تحریر فرمائیں جس سے معلوم ہو کہ شاہ ولی اللہ کو عصرِ جدید کا عرفان حاصل تھا اور اس کے مطابق، انھوں نے عصری رہنمائی فرمائی۔ آپ کا مضمون دعوے کی زبان میں ہے، مگر متعین مثال کے بغیر صرف دعوے سے کوئی بات علمی طورپر ثابت نہیں ہوتی۔
نئی دہلی، ۶ دسمبر ۲۰۰۵ء دعا گو وحید الدین
یہ خط بذریعے ڈاک روانہ کرنے کے بعد میں اس کے جواب کا انتظار کرتا رہا۔ جواب نہیں آیا تو میں نے انھیں دوسرا خط روانہ کیا۔ یہ دوسرا خط یہاں نقل کیا جاتا ہے:
برادرِمحترم مولانا محمد یحییٰ نعمانی!
ا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ آپ کے ایک مضمون شائع شدہ الفرقان دسمبر ۲۰۰۵ کے حوالے سے میں نے اپنے خط مؤرخہ ۶ دسمبر ۲۰۰۵ میں آپ سے ایک سوال کیا تھا۔ آپ نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ شاہ ولی اللہ کی تعلیمات ’’عصری معنویت‘‘ کی حامل ہیں۔ مجھے شاہ ولی اللہ کی کتابوں میں یہ عصری معنویت نہیں ملی۔ میں نے آپ سے اس کا متعین حوالہ پوچھا تھا، مگر اب تک آپ کی طرف سے مجھے اس کا کوئی جواب نہیں ملا۔ براہِ کرم واضح جواب روانہ فرمائیں۔
نئی دہلی، ۷ جنوری۲۰۰۶ء دعا گو وحید الدین
محترم مضمون نگار کی طرف سے میرے دوسرے خط کا جواب بھی نہیں آیا۔ کافی انتظار کے بعد میں نے یہ تیسرا خط ان کوروانہ کیا:
برادرِ محترم مولانا محمد یحییٰ نعمانی!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ ماہ نامہ الفرقان کے شمارہ دسمبر ۲۰۰۵ میں آپ نے شاہ ولی اللہ دہلوی کے ایک ’’عظیم کارنامہ‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے ان کی تعلیمات میں ’’عصری معنویت‘‘ کا تذکرہ فرمایا تھا۔ اِس سلسلے میں میں نے آپ سے شاہ ولی اللہ کی کسی تحریرکا حوالہ دریافت کیا تھا جس سے ان کا یہ کارنامہ متعین طورپر معلوم ہوتا ہو، مگر آپ نے اپنے دعوے کے ثبوت میں کوئی حوالہ روانہ نہیں فرمایا۔
ایسی حالت میں میں یہ ماننے پر مجبور ہوں کہ آپ نے محض زورِ ادب کے تحت ایسا لکھ دیا تھا۔ آپ کو خود ایسے کسی متعین حوالے کا علم نہیں۔ اگر آپ کو اِس سلسلے میں کسی واضح اور متعین حوالے کا علم ہوتا تو آپ ضرور اس کو تحریر فرماتے۔
میں عرض کروں گا کہ یہ طریقہ بے حد غیر علمی ہے۔ آپ کے لیے اِس معاملے میں صرف دو میں سے ایک کا انتخاب تھا۔ یا تو آپ متعین حوالہ تحریر فرماتے یا یہ اعتراف کرتے کہ میں نے غلط طور پر ایسا لکھ دیا تھا۔ اِن دو طریقوں کو چھوڑ کر خاموشی کا طریقہ اختیار کرنا سخت غیر علمی بات ہے۔ جو لوگ اِس قسم کی غیر علمی روش اختیار کریں وہ خود اپنے علمی اور فکری ارتقا کو روک رہے ہیں۔ ایسی روش کا نقصان آدمی کے اپنے حصّے میں آتا ہے نہ کہ کسی دوسرے کے حصّے میں۔
نئی دہلی، ۷ مارچ ۲۰۰۶ دعا گو وحید الدین
میرے نزدیک یہ نہ کوئی سادہ بات ہے ا ور نہ وہ کسی ایک شخص کا معاملہ ہے۔ وہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی عمومی نفسیات کو بتاتا ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان عام طورپر ’’دینِ اکابر‘‘ پر قائم ہیں۔ ایسے لوگ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ فرض کرلیتے ہیں کہ ان کے اکابر انھیں فکری عظمتوں کے مالک ہیں جو رسول اور اصحابِ رسول کو حاصل تھیں، وہ اُن ابدی صفات سے متصف ہیں جو رسول اور اصحابِ رسول کو ملی ہوئی تھیں۔ اِس بنا پر ان کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے اکابر کے بارے میں مذکورہ قسم کے بڑے بڑے دعوے کریں۔ اگر وہ ایسے بڑے بڑے دعوے نہ کریں توان کے نزدیک ان کے اکابر کی مفروضہ عظمت ہی مشتبہ ہوجائے گی۔
مگر اس طریقے کا ایک عظیم نقصان یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا ذہنی ارتقا رُک جاتا ہے۔ اکابر کی عظمت کا مفروضہ عقیدہ ان کے ذہنی سفر پر فل اسٹاپ لگا دیتا ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی (وفات ۱۷۶۲) بلاشبہہ ایک بڑے عالمِ دین تھے۔ اپنے زمانے کے اعتبار سے انھوں نے بہت قابلِ قدر خدمات انجام دیں مگر یہ سمجھنا کہ شاہ ولی اللہ کی تحریریں ’’عصری معنویت‘‘ کی حامل ہیں، اِس بات کا ثبوت ہے کہ صاحبِ مضمون کو عصرِ جدید کی معرفت حاصل نہیں۔ کیوں کہ شاہ ولی اللہ دہلوی کی تحریروں میں نہ عصر جدید کا عرفان موجود ہے اور نہ عصرِ جدید کی نسبت سے اسلامی رہنمائی۔ اِس قسم کا بیان ایک مہلک خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہیں۔