احکامِ دین

دین میں جو احکام دیے گیے ہیں وہ مختلف نوعیت کے ہیں۔ قرآن اور سنت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان احکام کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو دین کا مطلق حصہ (absolute part) ہیں۔ اور دوسرے احکام وہ ہیں جو دین کا اضافی حصہ (relative part) ہیں۔ مطلق حصہ ہر حال میں یکساں طورپر مطلوب ہوتاہے۔ جب کہ اضافی حصے کی مطلوبیت حالات پر منحصر ہوتی ہے۔ کسی وقت کے حقیقی حالات یہ طے کرتے ہیں کہ ان کا نفاذ کس طرح کیا جائے گا۔

احکام دین کے اس فرق کو سمجھنے کے لیے قرآن اور سنت کے دو حوالوں کا مطالعہ کیجیے۔ قرآن کی سورہ نمبر 109 میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ کہلایا گیا ہے کہ کہو کہ اے منکرو، میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی عبادت تم کرتے ہو۔ (الکافرون: 1-2)

قرآن کی اس آیت میں عبادت کا لفظ آیا ہے۔ اس سے صریح طورپر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تک عبادت کا تعلق ہے، اس کو دین کے ایک مطلق حکم کی حیثیت حاصل ہے۔ عبادت کے معاملے میں دوسروں سے نہ سمجھوتہ ہے اور نہ ایڈجسٹمنٹ۔ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ صرف ایک خدا کی عبادت کرے اور اسی ڈھنگ پر عبادت کرے جس طرح اسلام میں بتایا گیا ہے۔ جیسا کہ قرآن سے ثابت ہے، ایک خدا کے سوا کسی اور کی عبادت کرنا شرک ہے اور شرک خدا کے نزدیک ناقابل معافی جرم ہے۔

تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ عبادت میں اگر دوسروں کی طرف سے کوئی رکاوٹ ہو تو مسلمان اس رکا وٹ کو ختم کرنے کے لیے جنگ چھیڑ دیں۔ پیغمبر اسلام کے مکی دور کی زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت کے معاملے میں بھی حالا ت کی رعایت کی جائے گی۔

چناں چہ مکہ میں پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب نے ابتداً کئی سال تک چھپ کر عبادت کی اور باقاعدہ با جماعت نماز کا اہتمام بہت بعد کو مدنی دور میں کیاگیا۔ عبادت کے معاملے میں یہ طریقہ قرآن کے ایک مستقل اصول کے تحت تھا۔ یہ حکم قرآن میں ان الفاظ میں دیاگیا ہے: اللہ کسی بندے پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمے داری نہیں ڈالتا (البقرہ: 286)۔یہی بات قرآن کے دوسرے مقام پر بھی کہی گئی ہے۔ (التغابن: 16)

قرآن اور حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کے مطلق احکام خاص طور پر تین پہلوؤں سے تعلق رکھتے ہیں— عقیدہ، عبادت اور اخلاق۔ یہ تینوں قسم کے احکام اپنی نوعیت کے اعتبار سے مطلق ہیں، یعنی ان پر ہر حال میں عمل کیا جائے گا۔ خود اپنے ارادے سے ان میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جائے گی۔ ان کی ادائیگی میں کسی قسم کا فرق صرف اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب کہ مجبوری کی کوئی صورت پیدا ہوگئی ہو، جس کو شریعت میں اضطرار (البقرہ: 173) کہاگیا ہے۔

ان تینوں قسم کے احکام میں حالات کی نسبت سے فرق کرنے کی اجازت ہے، مگر یہ اجازت صرف بربنائے مجبوری ہے۔ ان تینوں احکام کا تعلق ایک شخص کے انفرادی رویے سے ہے اور ہر شخص کے ذاتی حالات ہی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ ان کی تعمیل کس طرح کرے۔

احکامِ دین کی تعمیل فہرستِ احکام کے اعتبار سے مطلوب نہیں ہے، بلکہ وہ آدمی کے حالات کے اعتبار سے مطلوب ہے۔ آدمی کے حالات اُس کو جس حد تک اِن احکام پر عمل کرنے کی اجازت دیتے ہیں، اُسی حد تک وہ اُن پر عمل کرنے کا مکلّف ہوگا۔

تعمیل احکام کی یہی ترتیب فطری ترتیب ہے۔ یہی فطری ترتیب ایک شخص اور ایک قوم سے یکساں طورپر مطلوب ہے۔ کسی شخص اور قوم کے حقیقی حالات ہی اِس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ احکامِ دین کی تعمیل کس طرح کرے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom