ایک خط

برادرِ محترم عبد السلام اکبانی صاحب!

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ

30 مارچ 2007 کو آپ سے ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی۔ اُس کے بعد آپ کو یہ خط لکھ رہاہوں۔ 6 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان معاہدۂ حدیبیہ پیش آیا۔ اِس پر قرآن کی سورہ نمبر 48 میں یہ آیت اُتری: إنا فتحنا لک فتحاً مبیناً (الفتح: 1)۔ اِس آیت میں ’فتح‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان میں فَتَحَ کے معنٰی ہیں کھولنا (to open)۔ لسان العرب میں بتایا گیا ہے کہ: الفتح نقیض الإغلاق۔ یعنی ’فتح‘ بند کرنے کا اُلٹا ہے۔ عربی میں کہاجاتا ہے کہ: فتح القناۃَ، فجّرہا لیجری فیہا الماء۔یعنی پانی بہنے کے لیے نالی نکالنا۔

حدیبیہ کے موقع پر وہ کون سی بات ہوئی جس کو یہاں فتح سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حالاں کہ روایات میں آتا ہے کہ اِس سفر میں شریک ہونے والے جب حدیبیہ سے لوٹ کر مدینہ پہنچے تو یہاں کے لوگوں نے اُن سے کہا: ماہٰذا بفتحٍ(یہ تو کوئی فتح نہیں) سورہ الفتح اتری تو حضرت عمر نے رسول اللہ سے کہا کہ: أوفتح ہو یا رسول اللہ (اے خدا کے رسول، کیا وہ کوئی فتح ہے) القرطبی، جلد16، صفحہ 261۔

یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ حدیبیہ کے موقع پر مسلمانوں کو بظاہر کوئی فتح حاصل نہیں ہوئی ـتھی۔ پھر وہ کیا چیز تھی جس کو قرآن میں فتح کہاگیا۔ اِس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں فتح سے مراد سیاسی یا حربی فتح نہیں ہے، بلکہ اُس سے مراد ہے— مواقعِ کار یا مواقعِ دعوت کا کھُل جانا۔

مشہور تابعی الزّہری نے کہاہے: فلما وقع الصّلح مشی الناس بعضہم فی بعض، وعلموا وسمعوا عن اللہ، فما أراد أحد الإسلام إلاّ تمکن فیہ (القرطبی)۔

اصل یہ ہے کہ معاہدۂ حدیبیہ سے پہلے مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان حالتِ جنگ قائم ہوگئی تھی۔ اس لیے باہمی انٹریکشن ختم ہوگیا تھا۔ اور انٹریکشن کا خاتمہ، دعوتی عمل کا خاتمہ ہے۔ معاہدۂ حدیبیہ میں یہ دفعہ شامل کی گئی کہ اب سے دس سال تک مسلمانوں اور اُن کے حریفوں کے درمیان جنگ نہیں ہوگی۔ اِس طرح معاہدۂ حدیبیہ کے بعد یہ ہوا کہ دونوں فریقوں کے درمیان کھلا انٹریکشن جاری ہوگیا۔ اور نارمل حالات میں کھُلے انٹریکشن کے نتیجے ہی کا نام اسلام کی دعوتی فتح ہے۔

موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کوئی مفروضہ دشمن اُن کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اِس قسم کا خیال بالکل بے بنیاد ہے۔ قانونِ فطرت کے مطابق، ایسا ہونا ممکن نہیں کہ کوئی دشمن کسی کو نقصان پہنچا سکے۔ قرآن میں بار بار یہ بات مختلف انداز میں کہی گئی ہے کہ انسان کی ناکامیابی کے اسباب اُس کے داخل میں ہوتے ہیں، نہ کہ اُس کے خارج میں (الشوریٰ: 30)

موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ فتحِ سیاسی کو جانتے ہیں، لیکن وہ فتحِ مواقع کو نہیں جانتے۔ حالاں کہ فطرت کے قانون کے مطابق، اِس دنیا میں کام کے مواقع کا کھلنا سب سے بڑی فتح ہے، بلکہ یہی اصل فتح ہے۔

یہ حقیقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے حالاتِ زندگی سے پوری طرح واضح ہے۔ میں نے اپنی کتابوں میں اِس کی بہت سی مثالیں دی ہیں۔ لیکن مسلمان پیغمبر اسلام کی سیرت کا مطالعہ پُر اسرار فضیلت اور پُراسرار کمالات کی اصطلاحوں میں کرتے ہیں، اس لیے وہ آپ کی زندگی سے مذکورہ قسم کا سبق نہیں لے پاتے۔ یہ بلاشبہہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی سب سے بڑی بد قسمتی ہے۔

یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں نے پیغمبرانہ بصیرت کو کھودیا ہے۔ پیغمبر کے لیے اُن کے پاس صرف لفظی نعت خوانی ہے۔ اس صورتِ حال کی اصلاح کے لیے نئی سوچ کی ضرورت ہے۔ نئی سوچ ہمیشہ اعترافِ خطا سے پیدا ہوتی ہے۔ اگرکوئی شخص یا گروہ ماضی میں اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرے تو بعد کے زمانے میں بھی وہ اُسی غلطی میں پڑا رہے گا۔ غلطی کا اعتراف کسی نئی اصلاح کا ـآغاز ہے، غلطی کا اعتراف نہیں تو اصلاح کا آغاز بھی نہیں۔

نئی دہلی، 31 مارچ 2007         

دعاگو

وحیدالدین

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom