فیصلہ کن چیز
لکھنؤ میں ایک اشاعتی ادارہ ’راشٹردھرم پرکاشن‘ ہے۔ اس نے آر ایس ایس کے سابق سرسنچالک گرو گووالکر (وفات: 1973) کی ایک ہندی کتاب چھاپی ہے۔ اس کا نام ہے— ’راشٹرجیون کی سمسیائیں ‘ (1960)۔ گرو گولوالکر نے اپنی اس کتاب میں لکھا ہے کہ:
“مسلمان اور عیسائی کبھی سچے نیشنلسٹ نہیں ہوسکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سچا نیشنلسٹ بننے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی وطن کی زمین کو مقدس سمجھتا ہو۔ مسلمان اور عیسائی اس معیار پر پورے نہیں اترتے۔ اس لیے صرف ہندو ہی سچا نیشنلسٹ ہوسکتا ہے، کیوں کہ وہ بھارت کو مقدس سمجھتا ہے۔ ہندو کے لیے اس ملک کا ایک ایک ذرہ مقدّس ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ہندو ہی اس ملک میں سچا نیشنلسٹ ہے اور ہندو نیشنل ازم ہی سچا نیشنل ازم ہے‘‘۔
لکھنؤ میں ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے اس کتاب کا حوالہ دیا اور بپھرے ہوئے انداز میں وہ اس پر تبصرہ کرنے لگے۔ انھوں نے کہا کہ اس ملک میں ایسے ایسے نظریات ابھر رہے ہیں جو تمام مسلمانوں کو غدار ثابت کررہے ہیں اور آپ مسلمانوں کو تلقین کررہے ہیں کہ وہ صبر اور اعراض کی پالیسی اختیار کریں۔
میں نے کہا کہ آر ایس ایس 1925 میں بنی۔ اب اس پر تقریباً اسّی سال پورے ہورہے ہیں۔ اس کی پہلی نسل ختم ہوچکی۔ دوسری نسل بوڑھی ہوگئی اور اب تیسری نسل کا دور شروع ہورہا ہے، مگر ملک کے کسی بھی طاقت ور ادارے پر اس کا قبضہ نہ ہوسکا۔ حکومت، صحافت، تعلیم، انڈسٹری، فوج، قانونی نظام، ٹریڈ یونین، غرض جس شعبے کو بھی دیکھیے، وہ آر ایس ایس کے قبضے سے باہر دکھائی دے گا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں آر ایس ایس کے مقابلے میں غیر آرایس ایس طاقتیں زیادہ مؤثر حیثیت رکھتی ہیں۔ ایسی حالت میں اس سے خائف ہونے کی کیا ضرورت۔
دوسری بات یہ کہ اس دنیا میں آخر کار جو چیزغالب (prevail) ہوتی ہے، وہ حقیقت (reality) ہے نہ کہ کسی کے بولے ہوئے الفاظ۔ نیشنلسٹ یا وطن پرست کون ہے، اس کے بارے میں اصل فیصلہ کن چیز عالمی معیار ہے، نہ کہ آر ایس ایس کے سرسنچالک کے بولے یا لکھے ہوئے الفاظ۔ اور عالمی ذہن بلا شبہہ اس کو رد کررہا ہے۔
نیشنل ازم کی مذکورہ تعریف کے مطابق، تمام ملکوں کے باشندے غدار ہیں، کیوں کہ کسی بھی ملک کے باشندے اپنے ملک کو مقدس نہیں سمجھتے۔ نیشنل ازم کا جو اصول ساری دنیا میں چل رہا ہے وہی انڈیا میں بھی چلے گا۔ کسی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی خود ساختہ نظریے کے تحت، انڈیا کو ایک نیشنلسٹ جزیرہ بنا سکے۔