امتحان، نہ کہ انعام
کرنل ولیم سلیمین(Sir William Sleeman) 1848 سے 1854 تک لکھنؤ میں تھا۔ اس نے اپنے قیام اودھ کی یادداشت لکھی ہے جو لندن سے 1854 میں دو جلدوں میں شائع ہوئی۔ اس کا نام ہے:
Journey Through the Kingdom of Oudh.
سلیمین نے جب داراشکوہ کی قبر دیکھی تو اس نے کہا کہ اگر وہ زندہ رہتا اور دہلی کی سلطنت پر اس کا قبضہ ہوجاتا تو تعلیم کی نوعیت اور اسی کے ساتھ انڈیا کا مستقبل بالکل مختلف ہوتا:
Had he lived to occupy the throne, the nature of education, and there with the destiny of India, would have been different. (p. 572)
کرنل سلیمین نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے کہ انگریزوں نے جن ہندستانیوں کو دباکر ان کے اوپر اپنی حکومت قائم کی، ان کے خیالات انگریزی حکومت کے بارے میں کیا تھے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کیپٹن لاکٹ کا ذکر کیا ہے جو ہندستانی زبان اچھی طرح جانتے تھے۔ اور اس بنا پر ہندستانیوں سے اپنائیت کے ساتھ بات کرسکتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
“کیپٹن لاکٹ نے لکھنؤ میں نواب اودھ کی کمزوریوں اور ان کی حکومت کے ظلم کے متعلق سوالات کیے۔ ان کو جواب دیا گیا کہ ہم پریشان ہیں، ہم کو مزید پریشانی میں نہ ڈالیے۔ یہ سن کر کیپٹن لاکٹ نے کہا کہ ایسا کیوں۔ کیا آپ لوگ پہلے سے زیادہ بہتر حکومت کے ماتحت نہیں ہیں۔ جواب ملا کہ ہاں، مگر اودھ کا نام اور ہمارے ملک کی عزت ختم ہوگئی۔ یہ جواب دینے والا ایک مسلمان تھا۔ ہندو کا جواب شاید اس سے مختلف ہوتا‘‘۔ (جلد دوم، صفحہ 65-66)
مذکورہ مسلمان کے جواب میں وہ معاشرہ جھلک رہا ہے جو اس وقت لکھنؤ میں موجود تھا اور جس میں اس مسلمان نے پرورش پائی تھی۔ اگر اس کی پرورش ایسے ماحول میں ہوتی جہاں قرآن کا چرچا ہوتاہے تو شاید اس کا جواب یہ ہوتا کہ حکومت کوئی انعام کی چیز نہیں ہے بلکہ قرآن کے مطابق، وہ امتحان کی چیز ہے۔ خدا نے ان کو ہٹا کر آپ کو یہاں کا اقتدار دیا ہے، تاکہ دیکھے کہ آپ کیسا عمل کرتے ہیں: ثم جعلناکم خلائف فی الأرض من بعدہم لننظر کیف تعملون (یونس: 14)یعنی پھر ہم نے اُن کے بعد تم کو ملک میں جاں نشیں بنایا، تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسا عمل کرتے ہو۔
مذکورہ مسلمان اگر یہ جواب دیتا تو اس کا جواب عین دعوت بن جاتا۔ اس طرح مسلمانوں اور غیر مسلموں کا مجرد اختلاط (interaction) ہی دعوتی عمل جاری ہونے کے لیے کافی ہے، بشرطیکہ مسلمان ضروری اسلامی معلومات رکھتے ہوں۔