مسیحی ماڈل کی آ ِمدثانی
قرآن خدا کا کلام ہے۔ خدائی کلام کا اسلوب انسانی کلام سے مختلف ہوتا ہے۔ اِس کی مثالیں قرآن کے علاوہ پچھلی آسمانی کتابوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ایک پیغمبر نے اپنے مخاطبین سے کہا— میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر یہ چپ رہیں تو پتھر چلا اٹھیں گے:
I tell you that if these should keep silent, the stones would immediately cry out. (Luke, 19:40)
یہ قول خدائی اسلوب میں ہے جو پیغمبر کی زبان سے ادا ہوا ہے۔یہ صرف خدا ہے جو اِس انداز میں کلام کرسکتا ہے۔ اِس قول کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان نہ بولیں تو خدا پتھروں کو حکم دے گا، اور وہ خدا کی بات بولنے لگیں گے۔
خدائی کلام کا ایک اسلوب یہ ہے کہ حال کی زبان میں مستقبل کی بات کہنا۔ یہ اسلوب اِس حقیقت کا ایک مظاہرہ ہوتا ہے کہ صاحبِ کلام وہ ہستی ہے جو حال سے لے کر مستقبل تک کی تمام چیزوں کو دیکھ رہا ہے۔ اِس اسلوب کی ایک مثال قرآن کی سورہ نمبر 21 میں ملتی ہے۔ خدا نے انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: أولم یر الذین کفروا أن السمٰواتِ والأرض کانتا رتقاً ففتقناہما (الأنبیاء: 30) یعنی کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ زمین اور آسمان دونوں آپس میں ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے ان کو پھاڑ کر ایک دوسرے سے الگ کردیا۔
اِس آیت میں خلا کے ایک واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یعنی وہ واقعہ جس کو موجودہ زمانے میں بگ بینگ (Big Bang) کہا جاتا ہے۔ قرآن کی یہ آیت ساتویں صدی عیسوی میں اتری تھی، جب کہ بگ بینگ کے واقعے کو انسان نے پہلی بار صرف بیسویں صدی عیسوی میں جانا۔ اِس کے باوجود قرآن میں اِس کا حوالہ دیتے ہوئے حال کے صیغے میں کلام کیاگیا ہے۔ یہ عالم الغیب خدا کا ایک اسلوب ہے، اِس قسم کا منفرد اسلوب انسانی کلام میں نہیں پایا جاتا۔
اِس اسلوب کی ایک مثال قرآن کی سورہ نمبر 61 میں موجود ہے۔ اِس سورہ کی آخری آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’اے ایمان لانے والو، تم لوگ خدا کے مددگار بنو، جیسا کہ عیسیٰ ابن ِ مریم نے اپنے حواریوں سے کہا کہ کون ہے جو خدا کے لیے میرا مددگار بنتا ہے۔ حواریوں نے کہا کہ ہم ہیں خدا کے مددگار۔ پھر بنی اسرائیل کے ایک گروہ نے مانا اور ایک گروہ نے انکار کردیا۔ پھر ہم نے ماننے والوں کی، اُن کے دشمنوں کے خلاف مدد کی تو وہ ہوگیے غالب‘‘۔ (الصّف: 14)
اِس آیت کا اسلوب ایک غیر معمولی اسلوب ہے۔ اِس لیے کہ اِس آیت میں واضح طورپر پیروانِ محمد کو پیروانِ مسیح کے ماڈل کو اپنانے کا حکم دیاگیا ہے۔
اِس آیت پر غور کیا جائے تو اس سے ایک نہایت اہم حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے۔ یہاں خدا نے حال کی زبان میں مستقبل کے معاملے کو بیان فرمایا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ تاریخ میں ایسی تبدیلیاں واقع ہوں گی کہ محمدی ماڈل زمانی حالات کی نسبت سے، جزئی طورپر، قابلِ انطباق(applicable) نہ رہے گا، اس کے بجائے مسیحی ماڈل، جزئی طورپر، قابلِ انطباق بن جائے گا۔
محمدی ماڈل کیا ہے۔ پیغمبرا سلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنے پیغمبرانہ مشن کا آغاز کیا۔ آپ کا مشن دوسرے پیغمبروں کی طرح توحید کا مشن تھا۔ نظریاتی اعتبار سے آپ کے مشن اور دوسرے پیغمبروں کے مشن میں کوئی فرق نہ تھا، لیکن زمانی حالات کے اعتبار سے اُس کا ایک خاص ماڈل بنا۔ اِس ماڈل کی ترتیب یہ تھی— دعوت، ہجرت، جہاد (بہ معنیٰ قتال) اور فتح۔ اس ترتیب کی پیروی کرتے ہوئے آپ کا مشن دعوت سے شروع ہوا اور درمیانی مراحل طے کرتے ہوئے آخر میں فتح تک پہنچا۔
اِس ترتیب میں دعوتِ توحید اپنی نوعیت کے اعتبار سے محمدی ماڈل کا مطلق جز تھی، لیکن بقیہ چیزوں کی حیثیت اِس ماڈل کے اضافی اجزا کی تھی، یعنی ایسے اجزا جو حالات کی نسبت سے بنتے ہیں، نہ کہ نظری یا اعتقادی پہلو سے۔
مختلف اجزا کے درمیان یہ نوعی فرق ایک معلوم فر ق ہے، جو خود قرآن سے ثابت ہوتا ہے۔ قرآن میں پیغمبر اسلام کے علاوہ پچھلے نبیوں کا بھی بار بار ذکر آیا ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کے معاملے میں خدا کی سنت ایک طرف یہ تھی کہ انھیں ایک ہی دینِ ہدایت دیاگیا۔ چناں چہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: کُلاًّ ہدینا ونوحاً ہدینا (الأنعام: 85) یعنی نظری اور اعتقادی اعتبار سے تمام نبیوں کو ایک ہی دینِ ہدایت عطاکیا گیا۔ دینِ ہدایت کے اعتبار سے ایک پیغمبر اور دوسرے پیغمبر کے درمیان کوئی فرق نہ تھا۔
دوسری طرف قرآن کی ایک اور آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ ایک پیغمبر اور دوسرے پیغمبر کے درمیان فرق موجود تھا۔ اِس حقیقت کو قرآن کی اِس آیت میں بیان کیاگیا ہے: لکلٍّ جعلنا منکم شرعۃً ومنہاجاً (المائدہ: 48)
قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دینِ ہدایت کے اشتراک کے باوجود، ہر نبی کو ایک ایسی چیز بھی دی گئی جو دوسرے نبیوں سے مختلف تھی۔ قرآن کے الفاظ میں یہ ’منہاج‘ ہے۔ منہاج سے مراد وہی چیز ہے جس کو ہم طریقِ کار (method) کہتے ہیں، یعنی ہر نبی کا دین، نظریاتی اعتبار سے ایک تھا، لیکن اس کے انطباق کے معاملے میں زمانی حالات کے اعتبار سے مختلف طریقے اختیار کیے گیے۔
اِس کی مختلف مثالیں پیغمبروں کی تاریخ میں موجود ہیں۔ مثلاً حضرت یوسف اور حضرت موسیٰ دونوں مصر میں پیغمبر بنائے گیے۔ حضرت یوسف نے اپنے زمانے کے مشرک بادشاہ کے اقتدار کے تحت، محکمۂ غذا (ministry of food) کا چارج قبول کرلیا۔ اِس کے برعکس، حضرت موسیٰ کے زمانے کے مشرک بادشاہ سے ان کا ٹکراؤ ہوا، یہاں تک کہ خدا نے حضرت موسیٰ کی مدد کی اور مشرک بادشاہ کو اُس کے لشکر سمیت تباہ کردیا۔
یہی معاملہ پیغمبراسلام ﷺکا بھی ہے۔ آپ بلا شبہہ آخری پیغمبر (final prophet) تھے۔ لیکن آپ ہر صورت حال کے لیے آخری نمونہ (final model) نہ تھے۔ چناں چہ قرآن میں آپ کے لیے ’اُسوۂ حسنہ‘ کا لفظ آیا ہے، نہ کہ اسوۂ کاملہ کا۔ (الاحزاب: 21) کسی پیغمبر کو فائنل ماڈل سمجھنا خدا کے قائم کردہ قانونِ فطرت کی تنسیخ کے ہم معنی ہے۔ ایسی تنسیخ ممکن نہیں، اِس لیے عملی اعتبار سے کسی پیغمبر کا فائنل ماڈل ہونا بھی ممکن نہیں۔ فائنل پرافٹ کا تعلق، دین کے نظریاتی حصے سے ہے۔ اور نظریاتی اعتبار سے بلا شبہہ ایک پیغمبر فائنل پیغمبر ہوسکتا ہے، لیکن ماڈل کا تعلق، خارجی حالات سے ہے۔ یہ حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں، اِس لیے عملی اعتبار سے کوئی ایک پیغمبر فائنل ماڈل نہیں بن سکتا۔
قرآن کی اصطلاح کے مطابق، یہ کہنا صحیح ہوگا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ’الدّین‘ کے اعتبار سے فائنل پیغمبر تھے، لیکن ’منہاج‘ کے اعتبار سے آپ فائنل ماڈل نہ تھے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ حدیث میں یہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ آخری زمانے میں مسیح دوبارہ نازل ہوں گے۔
جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبرآخر الزماں کا زمانۂ نبوت قیامت تک ہے، اس لیے اب آپ کے بعد کسی اور پیغمبر کا شخصی طورپر آنا ناقابلِ فہم بات ہے۔ اِس لیے اِن روایات کو درست مانتے ہوئے ان کی صحیح تاویل یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں جو چیز واقع ہوگی، وہ مسیح کی آمد ثانی نہیں ہے، بلکہ مسیح کے ماڈل کی آمد ثانی ہے۔یعنی بعد کے زمانے میں حالات کے اندر ایسی تبدیلیاں واقع ہوں گی کہ حالات کے اعتبار سے حضرت مسیح کا عملی ماڈل زیادہ قابلِ انطباق (applicable) بن جائے گا۔
پیغمبر اسلام کے ماڈل اور پیغمبر مسیح کے ماڈل میں کیا فرق ہے۔ یہ فرق نصوص سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے۔ پیغمبر اسلام کا ماڈل یہ ہے کہ آپ نے مکہ میں اپنے دعوتی مشن کا آغاز کیا۔ اِس کے بعد مخاطبین کی طرف سے سخت مخالفت پیش آئی۔ اِس کے بعد آپ نے مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ کو اپنا مستقر بنایا۔
اب مخالفین کی طرف سے حملے کیے گیے۔ اس کے نتیجے میں دفاعی جنگ پیش آئی۔ اِس کے بعد آپ نے اپنے حریفوں سے وہ صُلح کی جو اسلام کی تاریخ میں ’صلح حدیبیہ‘ کے نام سے مشہور ہے۔ آخر میں فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا اور پھر عرب میں آپ کا اقتدار قائم ہوگیا۔
اِس کے مقابلے میں مسیح کے ماڈل میں آغاز میں بھی دعوت ہے اور انجام میں بھی دعوت۔ مسیح کے دعوتی ماڈل میں ہجرت اور جہاد (بہ معنی قتال) کے واقعات موجود نہیں۔
محمدی ماڈل میں ہجرت اور جنگ اُس کے واضح اجزا کے طور پر شامل ہیں، لیکن اب حالات نے ہجرت اور جنگ کو ناقابلِ عمل بنا دیا ہے۔ اب ساری دنیا میں ماڈرن نیشنل ازم کا زمانہ ہے۔ ہر ملک میں نیشنل حکومتیں قائم ہیں۔ ماڈرن نیشنل ازم نے اب ہجرت جیسے کسی طریقے کو عملی طورپر ناممکن بنا دیا ہے۔یہی معاملہ جنگ کا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے میں عمومی تباہی کے ہتھیار (weapons of mass destruction) نے جنگ جیسے طریقے کو بالکل ناقابلِ اختیار بنا دیا ہے۔ اب جنگ کا انتخاب صرف ایک دیوانگی کا فعل ہے، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔
دوسری طرف حالات میں جو جدید تبدیلی ہوئی ہے، وہ عین اسلامی دعوت کے حق میں ہے۔ میری مراد جدید تہذیب سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں ہجرت اور جنگ کے بغیر صرف پُرامن جدوجہد کے ذریعے ایک انٹرنیشنل دعوہ ایمپائر قائم کیا جاسکتا ہے۔ قدیم زمانے میں ساری طاقت سیاسی اقتدار کے پاس ہوتی تھی۔ اب محدود ایڈمنسٹریشن کے سوا ساری طاقت اداروں (institutions) کے پاس چلی گئی ہے۔
اِس نیے امکان کو سیکولر میدان میں دوسرے لوگ بھر پور طورپر استعمال کررہے ہیں۔ مثلاً اِسی نیے امکان کا سیکولر استعمال کرکے یہودیوں نے امریکا میں اپنا میڈیا ایمپائر بنا لیا ہے۔ چینیوں نے ملیشیا میں اپنا کمرشیل ایمپائر بنا لیا ہے۔ عیسائیوں نے ہندستان میں اپنا ایجوکیشنل ایمپائر بنا لیا ہے، مغرب سیاسی اعتبار سے، ہندستان سے واپس چلاگیا تھا، لیکن اب وہ یہاں دوبارہ اپنا انڈسٹریل ایمپائر بنا رہا ہے، وغیرہ۔
اِسی طرح اسلام کے پیرو خالص پر امن تدبیروں کے ذریعے ایک دعوہ ایمپائربنا سکتے ہیں۔مگر دعوہ ایمپائر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ نیے حالات کو سمجھا جائے۔ نیے امکانات کو بین اقوامی اصولوں کے مطابق، استعمال کیا جائے۔ یہی وہ حکمت ہے جس کو ہم نے مسیحی ماڈل کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔