آئی ڈنٹٹی کی تلاش
مَیں کون ہوں (who am I) ایک ایسا سوال ہے جو ہمیشہ سے انسان کی توجّہ کا مرکز رہا ہے۔ اِس سوال کو ایک لفظ میں آئی ڈنٹٹی کرائسس(identity crisis) کا نام دیا جاسکتا ہے۔ افکار کی تاریخ (history of thought) بتاتی ہے کہ اِس معاملے میں انسانی دماغ سب سے زیادہ جس تصور سے مسحور رہا ہے وہ وحدتِ وجود (monism) کا تصور ہے۔ ہندو ازم میں اس کو ادُوئت واد کہا جاتا ہے۔ اِس تصور کا مطلب یہ ہے کہ یہاں ایک عظیم پھیلی ہوئی طاقت ہے اور انسان اسی طاقت کا ایک جُزء ہے۔
فلسفہ اور مذہب دونوں میں یہ نظریہ ہمیشہ چھایا رہا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان بھی بعد کے زمانے میں یہ نظریہ پھیل گیا۔ صوفیامیں خاص طورپر اور علماء میں عام طور پر اِس نظریے نے غیر معمولی مقبولیت حاصل کرلی۔مثنوی مولانا روم، جس کا ترجمہ مختلف زبانوں میں ہوچکا ہے، اورجو نہ صرف صوفیا بلکہ علماء میں بھی مقدس کتاب کے طورپر پڑھی جاتی رہی ہے، وہ پوری کی پوری وحدتِ وجود کے تصور پر لکھی گئی ہے۔
اِس بات کو اردو شاعر نے اِس طرح بیان کیا ہے:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
اصل یہ ہے کہ انسان جب پیدا ہو کر دنیا میں آتا ہے تو و ہ شعوری یا غیر شعوری طورپر اِس سوال سے دوچار ہوتا ہے کہ میں کون ہوں، میں کہاں سے آیا ہوں، اور میری منزل کیا ہے۔
پانچ ہزار سال پہلے یونانی فلسفیوں نے آئی ڈنٹٹی کرائسس کے اِس سوال پر غور کرنا شروع کیا۔ انھوں نے یہ فرض کیا کہ انسان ایک حقیقتِ کُلّی کا حصہ ہے۔ وہ صرف اس لیے اُس سے الگ ہوا ہے کہ ایک دن وہ دوبارہ اس سے مل جائے۔ انسان ایک الگ وجود کی حیثیت سے اپنی شناخت نہیں پارہا تھا۔ لیکن جب اس نے یہ مان لیا کہ وہ ایک عظیم تر حقیقتِ کلّی کا ذاتی جز ہے تو اس نے گویا اپنی شناخت پالی۔ کائنات کے اندر اس کو اپنی پہچان معلو م ہوگئی۔ یہ نظریہ بہت بڑے پیمانے پر پھیلا۔ یہی وہ نظریہ ہے جس کو مانزم اور ادوئت واد اور وحدتِ وجود کہا جاتا ہے۔
یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ انسان اپنی ذات میں ایک نامکمل وجود ہے۔ وہ اپنی تکمیل کے لیے اپنی ذات سے باہر کسی اور چیز کو چاہتا ہے۔ یہ احساس ہر انسان کو مسلسل طورپر بے چین رکھتا ہے۔ جب انسان کو اپنی اِس تلاش کا جواب نہیں ملتا تو اس کا حال وہ ہو جاتا ہے جس کو سر جیمز جینز نے اِن الفاظ میں بیان کیا تھا— میں شاید بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہوں جو میرے لیے بنائی نہیں گئی۔ اِسی احساس کی ترجمانی ایک اردو شاعر نے اِس طرح کی ہے:
مجھے بلا کے یہاں، آپ چھپ گیا کوئی وہ میہماں ہوں جسے میزباں نہیں ملتا
I was invited here, but when I came the invitee was absent. I am the guest who failed to find his host.
میں نے وحدتِ وجود کا تفصیل کے ساتھ مطالعہ کیا۔ مگر میں نے پایا کہ اِس پورے نظریے کے پیچھے کوئی حقیقی دلیل موجود نہیں۔ یہ پورا نظریہ صرف تمثیلات پر کھڑا کیاگیا ہے، اور تمثیل کسی بھی درجے میں منطقی دلیل کے قائم مقام نہیں۔ مثال کے طورپر ہندوازم کوماننے والے یہ دلیل دیتے ہیں کہ سمندر کا ایک قطرہ سمندر سے باہر ہو تب بھی وہ سمندر کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ اِسی طرح انسان حقیقت کے سمندر کا ایک قطرہ ہے۔ جب تک وہ باہر ہے وہ ایک الگ قطرہ دکھائی دیتا ہے۔ لیکن جب وہ سمندر میں مل جائے تو اس کے بعد ایک الگ قطرے کی حیثیت سے اس کا کوئی وجود باقی نہیں رہتا۔ اسی بات کو مثنوی مولانا روم میں اِس طرح کہاگیا ہے:
بشنو ازنَے حکایت می کُند از جدائی ہا شکایت می کند
اصل یہ ہے کہ یہ سارا معاملہ ایک کنفیوژن کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ انسان کے اندر اپنی شناخت کے حوالے سے جو بحران (crisis) پایا جاتارہا ہے وہ اِس لیے نہیں ہے کہ پانی کا قطرہ اپنے سمندر کی تلاش میں ہے، بلکہ وہ اِس لیے ہے کہ مخلوق اپنے خالق کو پہچاننا چاہتی ہے۔ اسی فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے وہ نظریات پیدا ہوئے جن کو مانزم یا اِس طرح کے دوسرے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔
اِس معاملے پر قرآن کی روشنی میں غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ بندے اور خدا کے درمیان ربط اپنے آپ میں ایک فطری حقیقت ہے۔ لیکن اِس ربط کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پانی کا قطرہ سمندر میں مل کر ایک ہو جائے، بلکہ اس کا مطلب صرف قربت(nearness) ہے۔ انسان فطری طورپر اپنے اُس خدا کی قربت چاہتا ہے جس نے اس کو پیدا کیا، اور جو اس کو سب کچھ دینے والا اور اس کو سنبھالنے والا ہے۔
اِس قربت کو ماں اور بیٹے کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ بیٹا اپنی ماں سے قریب ہونا چاہتا ہے۔ یہ بلا شبہہ اس کی سب سے بڑی خواہش ہے۔ لیکن اس خواہش کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ماں اور بیٹا دونوں کی ذات ایک دوسرے میں مدغم ہوجائے، یہاں تک کہ بیٹے کا کوئی الگ وجود باقی نہ رہے۔ بیٹے کے اندر یہ خواہش سادہ طورپر صرف قربت کے معنیٰ میں ہے نہ کہ انضمام (merger) کے معنٰی میں۔
قرآن میں خدااور بندے کی دنیوی قربت کے معنی میں یہ آیت آئی ہے: واسجد واقترب (القلم)، اور آخرت میں خدا اور بندے کی قربت کا تصور اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے: ربّ ابن لی عندک بیتاً فی الجنّۃ (التحریم ۱۱)
اِس بات کو دوسرے لفظوں میں اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کی زندگی میں خدا اور بندے کے درمیان روحانی ہم سائیگی (spiritual neighbourhood) کامعاملہ پیش آتا ہے اور آخرت کی زندگی میں خدا اور بندے کے درمیان مادّی ہم سائیگی (physical neighbourhood) کا تجربہ ہوگا۔ جو کہ انسان کے لیے تمام لذتوں سے زیادہ لذیذ ثابت ہوگا۔
اس معاملے پر مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے انسان کو پیدا کرکے جس دنیا میں اس کورکھا ہے وہ دنیا پورے معنوں میں اپنے خالق کاتعارف ہے۔ یہاں وسیع خلا ہے جو خالق کی ناقابلِ احاطہ ہستی کا گویا ایک تعارف ہے۔ یہاں روشن سورج اور روشن ستارے ہیں جو بتاتے ہیں کہ خالق کس طرح تمام موجودات کے لیے روشنی کا منبع ہے۔ یہاں اونچے پہاڑ ہیں جو خدا کی عظمت کا ایک علامتی اظہار ہیں۔ یہاں پانی کے اتھاہ سمندر ہیں جو خدا کی بے پایاں رحمت کی داستان سنارہے ہیں۔ یہاں سرسبز درخت ہیں جویہ بتارہے ہیں کہ خدا نے کس طرح ہماری زمین پر لائف سپورٹ سسٹم کا حیرت انگیز نظام قائم کر رکھا ہے، وغیرہ۔
انسان پیدائشی طورپر ایک عاجز مخلوق ہے۔ وہ اپنے عجزکی تلافی کے لیے اپنے سے بڑی کسی ہستی کو پانا چاہتا ہے۔ اِسی فطری احساس کی توجیہہ کرنے کی کوشش میں وحدتِ وجود کی قسم کے فلسفے بنے۔ مگر اِس احساس کا صحیح جواب یہ ہے کہ انسان خدا کی معرفت حاصل کرے۔ وہ خدا کی تخلیق میں غور و فکر کرکے خدا کی جھلکیاں دیکھے۔ وہ خدا کو دریافت کرنے کی سعادت حاصل کرے۔
قرآن کے مطابق، انسان کی زندگی کا ایک مختصر حصہ قبل از موت دورِ حیات میں رکھا گیا ہے، اور اس کا زیادہ بڑا حصہ بعد ازموت دَور میں رکھا گیا ہے۔ اِن دونوں دوروں میں کامیابی کا راز یہ ہے کہ مخلوق کو اپنے خالق کی قربت حاصل ہوجائے۔ یہ قربت، دنیا کی زندگی میں تصوّراتی قربت کی صورت میں حاصل ہوگی، اور آخرت کی زندگی میں حقیقی قربت کی صورت میں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ دنیا کی زندگی میں آدمی کو خدا رُخی زندگی حاصل ہوجائے اور آخرت میں اس کو خدا کے پڑوس میں رہنے کی سعادت ملے۔