لائف بیانڈ لائف

Life Beyond Life

کیا موت کے بعد آدمی دوبارہ زندہ رہتا ہے۔ جواب یہ ہے کہ ہاں۔ موجودہ دنیا میں کسی بھی چیز کو ثابت کرنے کے لیے جس طرزِ استدلال کو معتبر سمجھا جاتا ہے، ٹھیک اسی طرزِاستدلال سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ موت کسی کے لیے زندگی کا خاتمہ نہیں۔ ہر عورت اور مرد کی زندگی ابدی ہے۔ موت کا مطلب صرف یہ ہے کہ آدمی ایک دورِ حیات سے نکل کر دوسرے دورِ حیات میں داخل ہوجاتا ہے۔

۱۔ علماء طبّ پہلے یہ خیال کرتے تھے کہ موت کا مطلب دل کی حرکت کا بندہوجانا ہے۔ مگر اب یہ نظریہ رد کیا جاچکا ہے۔ اب یہ مانا جاتا ہے کہ کوئی آدمی اُس وقت مرتا ہے جب کہ اس کے برین کا فنکشن رُک جائے۔ اس واقعہ کو بتانے کے لیے فنکشن کا لفظ درست نہیں۔زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ برین کسی انسان کے لیے موجودہ دنیا میں اس کے سفر کا آخری اسٹیشن ہے۔

جیساکہ معلوم ہے، جب انسان کے ساتھ وہ واقعہ پیش آتا ہے جس کو کلنکل موت (clinical death) کہا جاتا ہے تو یہ ہوتا ہے کہ اس کے جسم سے روح نکل جاتی ہے، لیکن جہاں تک برین کا تعلق ہے، وہ بدستور ویسا ہی باقی رہتا ہے جیسا کہ وہ موت سے پہلے تھا۔ موت کے بعد برین کا ایک سیل(cell) بھی کم نہیں ہوتا۔

اس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ روح یا انسان کی شخصیت (personality) برین سے الگ اپنا ایک مستقل وجود رکھتی ہے۔ وہ کسی بھی اعتبار سے برین کا حصہ نہیں۔

۲۔ اس سلسلے میں دوسری قابل لحاظ بات یہ ہے کہ مرنے والا انسان مرکر بظاہر ہمارے پاس سے چلا جاتا ہے۔ لیکن اس کے وجود کا کم از کم ایک حصہ دنیا میں باقی رہتا ہے۔ یہ اس شخص کی آواز ہے۔ اس کے مرنے کے بعد جب ہم کیسیٹ پر اس کی آواز سنتے ہیں تو ہم کسی شبہہ کے بغیر یہ جان لیتے ہیں کہ یہ آواز اُسی مرنے والے انسان کی آواز ہے۔

موت کے بعد کسی آدمی کی آواز کا ٹھیک اُسی طرح موجود رہنا، اِس بات کا کم ازکم ایک جزئی ثبوت ہے کہ انسان کی ہستی ایک غیر فانی ہستی ہے۔ انسان کی شخصیت کا اگر ایک جز ثابت شدہ طور پر موت کے بعد بھی باقی رہتا ہے تو اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ انسان کی پوری ہستی بھی قابلِ اعادہ (repeatable) حالت میں باقی اور موجود ہو۔

اگر یہ کہا جائے کہ موت کے بعد کسی انسان کی آواز جو باقی رہتی ہے وہ صوتی لہروں (sound waves) کی شکل میں باقی رہتی ہے۔ جب کہ انسان ایک زندہ وجود ہے۔ مگر یہ اعتراض درست نہیں۔ اس لیے کہ اس دنیا میں ہر چیز لہروں ہی کا ایک مجموعہ ہے۔ اس دنیا میں جو چیزیں ہیں ان کی آخری ہیئت لہروں پر مشتمل ہے۔ میٹریل و رلڈ کی ہر چیز اپنے آخری تجزیے میں الکٹران ہے، اور الکٹران کے بارے میں سائنس داں یہ کہتے ہیں کہ وہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ اَمواج امکان (waves of probability) ہیں، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ پھر اگر اِس دنیا کی تمام چیزیں امواجِ امکان ہیں تو انسان کی شخصیت بھی اگر امواجِ امکان کی ایک صورت ہو تو اس کے وجود سے انکار کیسے کیا جاسکتا ہے۔

۳۔ حیاتیاتی سائنس بتاتی ہے کہ انسان کاوجود بے شمار چھوٹے چھوٹے سیل (cell)کا مجموعہ ہے۔ یہ سیل ہر وقت ٹوٹتے رہتے ہیں، اور نیا سیل پرانے سیل کی جگہ لیتا رہتا ہے۔ یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ پورے جسم کے تمام سیل بدل جاتے ہیں۔ گویا کہ معروف موت سے پہلے بھی انسان کا جسم برابر مرتا رہتا ہے۔

جسم میں سیل کے بدلنے (replacement) کا یہ عمل برابر جاری رہتا ہے۔ بار بار ایسا ہوتا ہے کہ کسی انسان کا سابقہ جسم مکمل طورپر مرجاتا ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ آدمی کا حافظہ (memory) مستقل طورپر ایک حالت میں باقی رہتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ جب جسم پر بار بار موت واقع ہوتی ہے تو انسان کا حافظہ کہاں باقی رہتا ہے۔ اگروہ جسم کے سیل پر موجود رہا ہو تو حافظے کو ختم ہوجانا چاہیے۔ لیکن سیل کے فنا ہونے کے باوجود حافظے کا باقی رہنا، اِس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کی شخصیت، جسم سے ماورا ایک مستقل وجود ہے۔ وہ معروف موت کے باوجود اپنے آپ کو باقی رکھتی ہے۔

۴۔ اس سلسلے میں آخری اہم بات یہ ہے کہ دنیا میں کسی بات کو ثابت کرنے کے لیے جو طرزِ استدلال رائج ہے، اور جس معیار پر وضاحت کے بعد چیزیں ثابت شدہ مان لی جاتی ہیں، اسی معیار پر زندگی بعد موت کے ثبوت کا تقاضا بھی کیا جاسکتا ہے۔ کسی اور معیار پر زندگی بعد موت کے ثبوت کا تقاضا کرنا غیر علمی بات ہے۔ اس حقیقت کو ذہن میں رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ زندگی بعد موت بھی اسی طرح ایک ثابت شدہ واقعہ ہے جس طرح زندگی قبل موت ایک ثابت شدہ واقعہ سمجھی جاتی ہے۔ خالص منطقی اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom