دانش مند باپ

مختار الحسن رفیقی (پیدائش ۱۹۷۲) ایک ہونہار نوجوان ہیں۔ ان کی تعلیم جامعہ دار السلام عمر آباد میں ہوئی۔ ان کے والد مولانا محمدرفیق قاسمی ۱۹۹۸ میں دہلی سے کویت جارہے تھے۔ اس وقت انھوں نے اپنا بایوڈاٹا ان کو دیااور کہا کہ آپ کویت جارہے ہیں، وہاں کوشش کیجئے کہ مجھے کوئی جاب مل جائے۔ یہ بظاہر بیٹے اور باپ کا معاملہ تھا۔ باپ ہمیشہ بیٹے کے لیے نرم دل ہوتا ہے۔ لیکن یہاں بالکل برعکس واقعہ ہوا۔ باپ نے بیٹے کے بایو ڈاٹا کو اس کے سامنے ہی پھاڑ کر پھینک دیا اور کہا کہ میں اس کو نہیں لے جاسکتا۔ آپ اپنے اندر ایسی صلاحیت پیداکریں جس سے لوگ آپ کو بذات خود مدعو کریں۔

مختار الحسن رفیقی صاحب کو فطری طورپر اس واقعہ پر بہت غصہ آیا۔ وہ یہ سمجھے کہ میرے باپ کو مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کو میرے مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہے۔ لیکن یہ واقعہ دراصل ایک دانشمند باپ کا واقعہ تھا۔ چنانچہ اس کے بعد یہ ہوا کہ مختار الحسن صاحب ہمیشہ سے زیادہ متحرک ہوگئے۔ان کی صلاحیتیں اس جھٹکے کے بعد جاگ اٹھیں۔ انھوں نے بزنس کے میدان میں کام شروع کردیا۔ اب وہ خدا کے فضل سے ممبئی میں ایک کمپنی میں مینیجر ہیں اور ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔

عام طور پر باپ کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے ساری سہولتیں فراہم کرے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں نہ دینا بھی دینے کی ایک صورت ہے۔ جو باپ اپنے بیٹے کو کچھ نہ دے وہ اس کو زیادہ بڑی چیز دے دیتا ہے، اور وہ ہے خود کچھ کرنے کا جذبہ۔

اِس دنیا میں سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ آدمی کے اندر عمل کا جذبہ جاگ اٹھے۔ اس کو کام کرنے کی دُھن لگ جائے۔ اس کے دماغ میں یہ بات بیٹھ جائے کہ میں اپنے ہی کیے کا نتیجہ پاؤں گا۔ کسی اور سے مجھے کچھ ملنے والا نہیں۔ ایسا آدمی ایک بے پناہ آدمی بن جاتا ہے۔ اس کی سوئی ہوئی صلاحیتیں جاگ اٹھتی ہیں۔ یہاں تک کہ پہلے کا زیرو آج کا ہیرو بن جاتا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom