دعوت کی تاریخ

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل حیثیت یہ تھی کہ آپ حق کے داعی تھے۔ آپ کے بعد امتِ مسلمہ کی اصل ذمے داری بھی یہی ہے کہ وہ تمام قوموں تک اُس سچائی کو پہنچائے جو پیغمبر کے ذریعے اس کو ملی ہے۔ لیکن دعوت کا یہ کام اسلام کی تاریخ میں اپنے مطلوبہ انداز میں زیادہ نہ ہوسکا۔ دعوت کے اعتبار سے اسلام کی تاریخ کے تین دور ہیں :

۱۔ ایکٹیو دعوہ(active dawah)

۲۔ پَیسیو دعوہ(passive dawah)

۳۔ اینٹی دعوہ (anti dawah)

رسول اور اصحاب رسول کا زمانہ ایکٹیو دعوہ کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں براہِ راست طورپر دعوت الی اللہ کا کام کیاگیا۔ کسی بھی سیاسی یا غیر سیاسی آمیزش کے بغیر دعوت کا کام اس کی بے آمیز صورت میں انجام دیا گیا۔ یہ دعوت کے اعتبار سے اسلام کی تاریخ میں معیاری دور تھا۔

خلافتِ راشدہ کے بعد وہ دور آیا جب کہ دعوت کا براہِ راست کام تقریباً ختم ہوگیا۔ لیکن دعوت کاکام بالواسطہ انداز میں اب بھی پوری طرح جاری رہا۔ اب قرآن محفوظ ہوچکا تھا۔ حدیث مدوّن ہوگئی تھی۔ ایک مسلم سماج بڑے پیمانے پر بن گیا تھا۔ مسلم ادارے منظم کیے جاچکے تھے۔ عبادات کا نظام قائم ہوگیا تھا۔ اِس قسم کی چیزوں کے نتیجے میں یہ ہوا کہ دعوت کا کام خود اپنے زور پر برابر جاری رہا۔ اِس بعد کے زمانے میں اگر چہ مسلمان عملاً براہِ راست انداز میں دعوت کی مہم نہیں چلارہے تھے، لیکن قائم شدہ ماحول کی بنا پر بالواسطہ انداز میں اسلام کا تعارف جاری تھا، اور اس کے نتیجے میں لوگ برابر اسلام میں داخل ہورہے تھے۔ اسی کو ہم نے پیسیو دعوہ کہا ہے۔ یہ کام مسلسل طورپر اٹھارہویں صدی عیسوی تک جاری رہا۔ اس کے بعد نو آبادیاتی نظام کے ظہور کی بنا پر اس کے اوپر روک لگ گئی۔

نوآبادیاتی نظام آٹھارہویں صدی میں مسلم دنیا میں داخل ہوا، اب مسلمانوں کے اندر غیر مسلموں کے خلاف منفی ذہن پیدا ہوگیا۔انھوں نے غیر مسلموں کے خلاف جگہ جگہ مسلّح جنگ چھیڑ دی۔ پورے مسلم سماج میں غیر مسلموں کے خلاف نفرت کا ماحول پیداہوگیا۔ یہ نفرت یا جنگ مدعوکے خلاف تھی۔ چنانچہ اس نے مسلمانوں کی طرف سے دعوت کے عمل کا خاتمہ کردیا۔ مدعو قوموں کے لیے مسلمانوں کے دل میں نُصح اور خیر خواہی کا جذبہ باقی نہیں رہا، وہ ان کو دشمن کی نظر سے دیکھنے لگے۔ ایسی حالت میں فطری طورپر دعوت کا کام جاری نہیں رہ سکا۔

رسول اور اصحاب رسول کے بعد مسلمان تقریباً ایک ہزار سال تک آپس میں لڑتے رہے۔ اِس لمبی مدت کا کوئی بھی لمحہ ایسا نہیں ہے جب کہ مسلمان مختلف گروہوں میں بٹ کر آپس میں لڑائی نہ کررہے ہوں۔ یہ آپس کی لڑائی بلا شبہہ غلط تھی، لیکن وہ پیسیو دعوہ کے عمل کے جاری رہنے میں کوئی رکاوٹ نہ بن سکی۔

اینٹی دعوہ کا دَور جو اٹھارہویں صدی میں شروع ہوا، وہ دعوت کے لیے قاتل کی حیثیت رکھتا تھا۔ باہمی لڑائیوں میں مسلمان قتل ہوتے تھے، لیکن مدعو کے خلاف لڑائی میں دعوت کا قتلِ عام ہونے لگا۔ اِس عمل کے نتیجے میں فطری طورپر دعوت کے عمل کو سخت نقصان پہنچا۔ یہی تیسرا دور ہے جس کو ہم نے اوپر کی تقسیم میں اینٹی دعوہ کا نام دیا ہے۔

مسلمان جب تک آپس میں لڑرہے تھے وہ خدا کی نظر میں صرف گنہ گار کی حیثیت رکھتے تھے۔ لیکن جب انھوں نے مدعو قوموں سے لڑنا شروع کیا تو وہ خدا کے غضب کا نشانہ بن گیے۔ قرآن اور حدیث کے مطابق، وہ لعنت کے مستحق قرا ر پائے۔

یہ تیسرا دَور بے حد خطرناک دور ہے۔ یہی وہ دَور ہے جب کہ خدا نے مسلمانوں کو ان کے دشمنوں کے حوالے کردیا۔ وہ ذلّت اور تباہی کے مستحق قرار پائے۔ دو سو سال سے بھی زیادہ مدّت سے مسلمانوں پر یہی دور گزر رہا ہے۔ عزت اور سرفرازی ان سے چھین لی گئی ہے۔ خدا نے انھیں ان کے دشمنوں کے حوالے کر دیا ہے۔ یہ صورتِ حال صرف اُس وقت ختم ہوگی جب کہ مسلمان اپنی مجرمانہ روش کی بھیانک غلطی کا اعتراف کریں، وہ مدعو کے خلاف اپنی نفرت اور اپنے تشدد کو یک طرفہ طورپر ختم کردیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom