نعمت نہ کہ زحمت
زُہیر بن ابی سُلمیٰ (وفات: ۶۰۹ء) عرب جاہلیت کا مشہور شاعر تھا۔ ابن الاعرابی نے اس کے بارے میں کہا ہے: کان لزُہیر فی الشعر ما لم یکن لغیرہ(زہیر کا درجہ شعر میں وہ تھا جو کسی اور کو حاصل نہیں ہوا)۔ اس کا ایک قصیدہ سبع معلّقہ میں شامل کیا گیا۔ زہیر نے اپنے ایک شعر میں کہا ہے کہ—میں زندگی کی مشقتوں سے اُکتا چکا ہوں، اور جو شخص اسی سال تک زندہ رہے گا، تیرے باپ کی قسم، وہ زندگی سے اکتا جائے گا:
سئمتُ تکالیف الحیاۃ ومن یعش ثمانین حولاً لاأبا لکََ یسأم
میری عمر اب اسّی سال سے زیادہ ہوچکی ہے۔اپنے تجربے کی روشنی میں میں کہہ سکتا ہوں کہ لمبی عمر بلاشبہہ جسمانی اعتبار سے ایک بوجھ بن جاتی ہے۔ لیکن ذہنی اعتبار سے وہ کوئی بوجھ نہیں بلکہ وہ ایک نعمت ہوتی ہے۔ کیوں کہ زیادہ عمر کا مطلب ہے—زیادہ علم، زیادہ تجربہ، زیادہ معرفت اور زیادہ بصیرت۔ یہ چیز جو لمبی عمر میں ملتی ہے وہ کسی کو کم عمری میں حاصل نہیں ہوتی۔آدمی اگر اس حقیقت کو سمجھے اور اپنے علم اور بصیرت کو مثبت طور پر استعمال کرے تو وہ نہ اُکتائے گا اور نہ مایوس ہوگا، بلکہ وہ نیے حوصلے کے ساتھ ازسرِ نو زندگی کا سفر شروع کردے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ جس آدمی کے اندر دو صفتیں ہوں۔ ایک، امکاناتِ فطرت کا شعور اور دوسرے، انسان کے ساتھ گہری خیر خواہی۔ جس آدمی کے اندر یہ دو چیزیں ہوں وہ برعکس طورپر یہ سوچے گا کہ آج دنیا کو دینے کے لیے میرے پاس ہمیشہ سے زیادہ ہے۔ مجھے یہ کرنا چاہیے کہ میں اِس سرمایے کو تمام انسانوں کی امانت سمجھوں اور اس کو دوسروں تک پہنچانے میں اپنی بقیہ زندگی وقف کردوں۔زیادہ عمر ایک نعمت ہے، اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی۔
اِس دنیا کا قانون یہ ہے کہ یہاں ہر ناموافق میں ایک موافق پہلو چھپا ہوا ہے۔ بڑھاپا اگر چہ انسان کے لیے بظاہر ایک غیر مطلوب چیز ہے۔ لیکن اس کے اندر ایک اعلیٰ درجے کی مطلوب چیز چھپی ہوئی ہے۔