مسلم ایمپاورمنٹ، یا سیلف ایمپاورمنٹ
۱۹۴۷ میں جب ہندستان آزاد ہوا تو مسلم سیاست کی نسبت سے جو سب سے بڑی غلطی ہوئی وہ یہ کہ ہندستان کے مسلمانوں کے اندر کوئی ایسی شخصیت یاتحریک نہیں اٹھی جو مسلمانوں میں اپنی ملّی تعمیر کے لیے صحت مند رجحان (healthy trend) قائم کرے۔ فوری ردّ عمل کے تحت، ہر باریش اور بے ریش رہنما نے مسلم حقوق کے نام پر مطالبات کی مہم شروع کردی۔ یہ ان لوگوں نے کیا جو ایک ایسے مذہب پر فخر کرتے تھے جس کی تعلیم یہ ہے کہ— دوسروں سے سوال نہ کرو بلکہ دوسروں کے لیے نفع بخش بن جاؤ، اس کے بعد تمہارے حقوق تم کو اپنے آپ مل جائیں گے۔
حال میں اِس قسم کے لوگوں کو اپنی بے نتیجہ مطالباتی مہم کو چلانے کے لیے ایک نیا خوب صورت لفظ مل گیا ہے، اور وہ مسلم ایمپاورمنٹ (Muslim Empowerment) ہے۔ ایمپاور یا ایمپاورمنٹ کا مطلب ہے اختیار دینا۔ کہا جاتا ہے:
Science empowers men to control natural forces more effectively.
مسلم ایمپاورمنٹ کا مطلب دوسرے لفظوں میں مسلم اَپ لفٹ (uplift) ہے، یعنی مسلمان جو مفروضہ طورپر ایک پچھڑی ہوئی کمیونٹی بن گیے ہیں، ان کو ایسے مواقع بہم پہنچانا کہ وہ اوپر اٹھیں اور دوسرے گروہوں کے برابر ہوجائیں۔ اِسی قسم کی تحریک عورتوں کے حوالے سے ویمن ایمپاورمنٹ (Women Empowerment) کے نام سے چل رہی ہے۔ وہاں بھی یہی تصور ہے کہ عورتیں سماجی زندگی میں مَردوں سے پیچھے ہوگئی ہیں۔ اب عورتوں کو ایسے مواقع فراہم کیے جائیں جن کے ذریعہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں مَردوں کے برابر ہوجائیں۔
میرے نزدیک مسلم ایمپاورمنٹ کی تحریک ایک لفظی کھیل کے سوا اور کچھ نہیں۔ مسلم حقوق کے لیے مطالبات کی مہم پچھلی نصف صدی کے دوران مسلسل چلائی گئی ہے۔ یہ مہم اس سے پہلے مسلمانوں کے ’’اکابر‘‘ کے ذریعے چلائی گئی۔ لیکن وہ مکمل طورپر ناکام رہی۔ اب یہ مہم مسلمانوں کے ’’اصاغر‘‘ کے ذریعے چلائی جارہی ہے۔ ایسی حالت میں کیسے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اب وہ نتیجہ خیز ہوجائے گی۔
اس معاملے میں ناکامی کسی اتفاقی سبب سے نہیں ہوئی۔ اس کا سبب صرف ایک تھا، اور وہ یہ کہ یہ مطالباتی مہم، قانونِ فطرت کے خلاف تھی۔ اِس دنیا کے لیے فطرت کا اٹل قانون یہ ہے کہ—جو دے وہ پائے، اور جو نہ دے وہ پانے سے محروم رہے۔ فطرت کا یہی اصول قرآن کی اِس آیت میں بیان کیاگیا ہے: وأمّا ما ینفع الناس فیمکث فی الأرض (الرعد: ۱۷) یعنی جو دوسروں کے لیے نفع بخش بنتا ہے اُسی کو اِس دنیا میں قیام اور استحکام حاصل ہوتا ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا: ولا تسئلنَّ أحداً شیئاً وإنّ سقط سوسطک (مسند احمد، جلد ۵، صفحہ ۱۸۱) اِس حدیث کو عام طورپر فضائل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے حالاں کہ اِس میں زندگی کا ایک قانون بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ خدا کی اِس دنیا میں اگر کامیاب ہونا چاہتے ہو تو مانگنے کا مزاج اپنے اندر سے ختم کردو، اپنی ذاتی محنت کے بل پر اپنی زندگی کی تعمیر کرو۔
مسلم ایمپاورمنٹ کی بات کرنے والے لوگ دستورِ ہند کا حوالہ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری مطالباتی مہم جائز ہے۔ کیوں کہ دستورِ ہند میں ملک کے شہریوں اور اقلیتوں کو جو حقوق دیے گیے ہیں ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان حقوق کو عملاً ہمیں دے دیا جائے۔
یہ بات گریمر کے اعتبار سے صحیح ہے۔ لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ سرتاسرغلط ہے۔ اِس ملک کا ہر آدمی جانتا ہے کہ دستورِ ہند، صرف ایک لفظی گُل دستہ ہے۔ بعض ٹکنکل دفعات کے سوا، اس میں لکھی ہوئی کوئی بات اب تک واقعہ نہیں بنی— دستورِ ہند کے مطابق، ملک کو فیر الکشن ملنا چاہیے، لیکن اب تک ملک اس سے محروم ہے۔دستور کے مطابق، ملک کو دیانت دار ایڈمنسٹریشن ملنا چاہیے، لیکن ملک کو صرف ایک کرپٹ ایڈمنسٹریشن ملا ہے۔ دستور ہند کے مطابق، دستور کے نفاذ کے پندرہ سال کے اندر سارے ملک کو تعلیم یافتہ ہوجانا چاہیے تھا، لیکن اب تک یہ خواب پورا نہیں ہوا۔ دستور نے ہندی زبان کو ملک کی قومی زبان کادرجہ دیا تھا لیکن عملاً ملک کے اوپر انگریزی زبان کا راج ہے، وغیرہ۔
دستور ِ ہند کی یہ ناکامی ایک معلوم اور مسلّم واقعہ ہے۔ ایسی حالت میں کس طرح ممکن ہے کہ دستورِ ہند ایک استثنائی معجزہ کے طورپر مسلمانوں کی خواہش کے مطابق، ان کے تمام حقوق کا پارسل انھیں رجسٹرڈ ڈاک کے ذریعہ روانہ کردے۔
جیسا کہ معلوم ہے، ہندستان میں مسلمانوں کے علاوہ اور کئی ’’اقلیتیں ‘‘ بستی ہیں۔ مثلاً عیسائی، پارسی، سکھ اور جَین وغیرہ۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ دوسری اقلیتوں کے حقوق پوری طرح محفوظ ہیں۔ عیسائی اِس ملک کے تعلیمی نظام پر چھائے ہوئے ہیں۔ پارسیوں نے اِس ملک میں اپنا انڈسٹریل ایمپائر بنا لیا ہے۔ سکھوں کی تعداد صرف دو فیصد ہے لیکن عملاً وہ ملک کی تقریباً بیس فیصد اقتصادیات کو کنٹرول کررہے ہیں۔ جینی فرقہ اتنا زیادہ خوش حال فرقہ ہے کہ اس کو کسی سے کچھ مانگنے کی ضرورت نہیں۔ اِن اقلیتوں نے یہ کامیابی خود اپنی جدوجہد کے ذریعہ حاصل کی ہے، وہ انھیں دستور کے عطیہ کے طورپر نہیں ملی۔
اِن مثالوں میں ایک اور مثال شامل کر لیجئے، اور وہ خود مسلمانوں کا وہ طبقہ ہے جو مسلمانوں کی محرومی کو لے کر اپنی تحریک چلا رہا ہے، اور مسلمانوں کو ایمپاور کرنا چاہتا ہے۔قریب سے دیکھیے تو یہ لوگ اپنی ذات کے اعتبار سے خود پوری طرح ایمپاور ہوچکے ہیں۔ ان کو وہ تمام مادّی چیزیں حاصل ہیں جن کودوسروں کے لیے فراہم کرنے کے نام پر وہ اپنی تحریکیں چلارہے ہیں۔
ایسی حالت میں مسلم ایمپاور منٹ کا نعرہ لگانے والوں کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو یہ بتائیں کہ اِس ملک کی دوسری اقلیتوں اور خود مسلم ایمپاور منٹ کے لیڈروں نے کس طرح اِسی ملک میں اپنے تمام مطلوب مفادات حاصل کرلیے۔ انھیں چاہیے کہ مسلمانوں کو کا میابی کا یہ راز بتائیں تاکہ وہ اِس سے فائدہ اٹھا کر اپنے آپ کو کامیاب بنا سکیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلم ایمپاورمنٹ کا اِشو، سیلف ایمپاورمنٹ کا اشو ہے۔ یعنی خود اپنی جدوجہد کے ذریعے اپنے آپ کو محرومی سے نکالنا اور اپنے آپ کو ترقی کے مقام تک پہنچانا۔ یہ سارا معاملہ داخلی جدوجہد کا ہے، نہ کہ خارجی مطالبات کا۔