اجتماعی معاملات
زندگی کے معاملات دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق مسلمانوں اور مسلمانوں کے باہمی معاملات سے ہو۔ دوسرا وہ جس کا تعلق مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان معاملات سے ہو۔ جو معاملات مسلمانوں اور مسلمانوں کے باہمی معاملات سے تعلق رکھتے ہوں ان کے فیصلہ کی بنیاد ہمیشہ کے لیے صرف ایک ہے، اور وہ قرآن اور سنت ہے۔ اس قسم کے باہمی معاملات میں مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ ابدی طورپر قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کریں اور جو کچھ وہاں سے ملے اُس پر دل کی رضامندی کے ساتھ قائم ہوجائیں (النساء: ۶۵۔۶۴)۔
معاملات کی دوسری قسم وہ ہے جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان پیش آنے والے مسائل سے تعلق رکھتی ہے۔ اس دوسرے قسم کے معاملات میں فیصلہ کی بنیاد وہ ہوگی جو دونوں کے لیے قابل قبول ہو۔ دوسرے لفظوں میں، اس کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان معاملات میں فیصلہ کی بنیاد وہ بین اقوامی معیارات (international norms) ہوں گے جو کسی زمانہ میں رائج ہوجائیں۔
مثال کے طورپر، ایک ایسے سماج کو لیجئے جس میں کئی مذاہب کے ماننے والے ہوں۔ ایسے سماج میں باہمی تعلقات کی بنیاد وہ ہوگی جو ہر ایک کے لیے یکساں طورپر قابل قبول ہو۔ یہ بنیاد صرف ایک ہے، اور وہ ہے باہمی احترام(mutual respect)۔ اسی اصول کو قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: لکم دینکم ولی دین (الکافرون )۔ یعنی تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرادین۔
اسی طرح مثال کے طورپر قدیم زمانہ میں مسلم حکومتوں کے تحت رہنے والے غیر مسلموں کو ذمّی کہاگیا اور ان پر جزیہ عاید کیاگیا۔ اب موجودہ زمانہ میں اگر اسلامی ریاست قائم ہو تو اس میں ایسا نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ اس معاملہ میں اُسی بین اقوامی معیار کو اختیار کر لیا جائے گا جو آج کی دنیا میں عالمی سطح پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔
یہ اصول پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت سے ثابت ہوتا ہے۔ آپ کے زمانہ میں یمن کے علاقہ میں ایک مُدَّعیِ نبوت ظاہر ہوا۔ اس کو تاریخ کی کتابوں میں مُسَیلمہ کَذّاب کہا جاتا ہے۔ اُس نے اپنی طرف سے دو رُکنی وفد مدینہ بھیجا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پیغام دیا کہ آپ میری نبوت کو تسلیم کریں۔ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ عالمی رواج نہ ہوتا کہ سفیر قتل نہیں کیے جاتے تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا (لولا ان الرسل لا تقتل لضربت اعناقکما)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے یہ اصول مستنبط ہوتا ہے کہ کسی اجتماعی معاملہ میں جو بین اقوامی اصول ہو وہی اُصول اسلامی ریاست میں بھی تسلیم کرلیا جائے گا۔ اس طرح کے معاملات میں اسلام میں بھی اُسی معیار کو مان لیا جائے گا جو کسی زمانہ میں بین اقوامی طور پر مسلّمہ معیار بن چکا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ بین اقوامی معاملات میں اس کے سوا کوئی اور قابل عمل اُصول نہیں۔ مسلمان دنیا میں اپنا کوئی علیٰحدہ سیاسی جزیرہ نہیں بنا سکتے۔ بین اقوامی زندگی کا نظام باہمی احترام اور باہمی رضامندی کے اُصول پر چلتا ہے۔ یہ اُصول جس طرح دوسری قوموں کے لیے قابل قبول ہے اُسی طرح وہ اسلام کے لیے بھی قابل قبول ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ سنت کا تعلق محدودطورپر صرف سفیر کے معاملہ سے متعلق نہیں ہے بلکہ وہ ایک عمومی اُصول ہے۔ اس سنت میں ایک ایسی رہنمائی ملتی ہے جس کی روشنی میں تمام بین اقوامی معاملات کو قائم کیا جاسکے۔