تاریخ گواہ ہے
قرآن کی سورہ نمبر ۱۰۳ میں زندگی کی حقیقت بتائی گئی ہے۔ اس سورہ کا ترجمہ یہ ہے: زمانہ کی قَسم، بے شک انسان گھاٹے میں ہے۔سِوا اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے اور انہوں نے ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور انہوں نے ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی (العصر)
قرآن کی اس سورہ میں قسم سے مراد گواہی ہے اور زمانہ سے مراد تاریخ۔ یعنی انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس دنیا میں بیشتر انسانوں کا کیس ناکامی کا کیس ہے۔ اس سے مستثنیٰ صرف وہ لوگ ہیں جو دنیا کی زندگی میں ایمان اور عمل صالح کا ثبوت دیں اور جو لوگوں کے درمیان اس طرح رہیں کہ وہ انہیں حق کا پیغام پہنچارہے ہوں اور انہیں صبر کی تلقین کررہے ہوں۔
اصل یہ ہے کہ انسان پیدائشی طورپرایک مُتلاشیِ لذت حیوان (pleasure-seeking animal) ہے۔ یہ انسان کی استثنائی صفت ہے۔ ساری کائنات میں کوئی بھی دوسری معلوم مخلوق نہیں جو اپنے اندر لذت اور مسرت کی طلب لئے ہوئے ہو۔
اسی فطری مزاج کی بنا پر ایساہوتا ہے کہ ہر انسان جو اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے وہ اپنی ساری کوشش اس میں لگا دیتا ہے کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق اپنے لیے خوشیوں کی ایک دنیا بنا سکے مگر تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی بھی انسان اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اس کی کوشش مکمل بھی نہیں ہوپاتی، یہاں تک کہ اس پر موت آجاتی ہے اور وہ اچانک اس میدان عمل سے ہٹا دیا جاتا ہے۔
اس عمومی ناکامی کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کی طلب یا اس کی خواہش لامحدود ہے جب کہ موجودہ دنیا ایک محدود دنیا ہے۔ طلب اور مقامِ طلب کے درمیان یہی وہ تضاد ہے جس کی بنا پر کوئی بھی شخص موت سے پہلے اپنی مطلوب دنیا کی تعمیر نہیں کرپاتا۔
مذکورہ آیت میں ایمان سے مراد اسی حقیقت کی دریافت ہے اور عمل صالح سے مراد اس دریافت کے مطابق عمل کرنا۔ جو لوگ زندگی کی اس حقیقت کو جان لیں اور وہ اس کے مطابق اپنی سرگرمیوں کا منصوبہ بنائیں وہ مذکورہ عموم سے مستثنیٰ لوگ ہیں۔ کیوں کہ وہ اس دریافت کی بنا پر یہ جان لیتے ہیں کہ موجودہ دنیا ان کے لیے اپنا مطلوب پانے کی جگہ نہیں۔ موجودہ دنیا جنت کا استحقاق ثابت کرنے کی جگہ ہے، وہ جنت کو عملاً پانے کی جگہ نہیں۔
سورہ کے آخری حصہ میں یہ حقیقت بتائی گئی ہے کہ سچی دریافت ہمیشہ دعوت بن جاتی ہے۔ دریافت اور دعوت دونوں جُڑے ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ دعوت اپنی حقیقت کے اعتبار سے یک طرفہ پیغام رسانی کا عمل نہیں، وہ دو طرفہ نوعیت کی چیز ہے—وہ تعلیم بھی ہے اور اسی کے ساتھ تعلّم بھی۔
دریافت ہمیشہ اظہار چاہتی ہے۔ اظہار کی یہ اسپرٹ آدمی کو تنہا رہنے نہیں دیتی، وہ اس کو دوسروں کے ساتھ جوڑ دیتی ہے۔ اس طرح دعوت کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ آدمی کا دوسروں کے ساتھ ڈائیلاگ اور ڈسکشن شروع ہوجاتا ہے۔ دوسروں کے ساتھ اس کا فکری تبادلہ (intellectual exchange) جاری رہتا ہے۔
اس اجتماعی عمل کے دو بنیادی نکتے ہوتے ہیں۔ ایک ہے، دریافت کی ہوئی سچائی کا دوسروں میں چرچا کرنا اور اسی کے ساتھ دوسروں کی طرف سے پیش آنے والی ناخوشگواریوں پر صبر کرنا۔ حق کا ظہور ہمیشہ نزاع کا سبب بنتا ہے اور حق پرست آدمی کے لیے نزاع سے نپٹنے کا سب سے زیادہ موثر طریقہ یہ ہے کہ وہ اس کے مقابلہ میں صبر اور اعراض کی روش اختیار کرے۔