اسلام ہر زمانے کے لیے

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف، لکل آیۃ منہا ظَہَر وبَطن ولکل حد مطلع (مشکوٰۃ المصابیح، رقم الحدیث ۲۳۸) یعنی قرآن سات حرفوں (لہجوں ) پر نازل کیاگیا ہے۔ اور ہر حد کے لیے ایک مطلع ہے۔

اس حدیث میں ظہرِ آیت اور بطنِ آیت کے لفظوں میں جو بات کہی گئی ہے اس کا ایک پہلو غالباً یہ ہے کہ ظہرِ آیت سے مراد زمانی رعایت ہے اور بطنِ آیت سے مُراد اَبدی رعایت۔ قرآن ایک خاص زمانے میں اُترا۔ لیکن جیسا کہ معلوم ہے، قرآن ہر زمانہ کے لحاظ سے ہدایت کی کتاب ہے۔ اس بنا پرقرآن میں دونوں پہلوؤں کی رعایت ہے، زمانی پہلو کی بھی اور ابدی پہلو کی بھی۔ اس معاملہ کی ایک مثال یہاں درج کی جاتی ہے۔

قرآن کی سورہ نمبر ۸ میں اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: واعدوا لہم مااستطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل ترہبون بہ عدواللہ وعدوکم (الانفال ۶۰) یعنی اور ان کے لیے جس قدر تم سے ہوسکے تیار رکھو قوت اور پَلے ہوئے گھوڑے کہ اس سے تمہاری ہیبت رہے اللہ کے دشمنوں پر اور تمہارے دشمنوں پر۔

اِس آیت میں خَیل (گھوڑے) کا لفظ زمانی رعایت کے اعتبار سے ہے اور اِرہاب (خوف دِلانا) کا لفظ ابدی پہلو کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ’’ اعداد قوت‘‘ کا اصل معیار اس کے اندر اِرہاب کی صفت ہونا ہے۔ قدیم زمانہ میں جنگی گھوڑے کے اندر اِرہاب کی صفت ہوتی تھی۔ مگر موجودہ زمانہ میں یہ صفتِ ارہاب دوسری چیزوں میں پیدا ہوگئی ہے۔ مثلاً سائنس اور ٹیکنالوجی۔ اس لیے موجودہ زمانہ میں اِس آیت کی تعمیل، گھوڑوں کی فراہمی نہ ہوگی بلکہ یہ ہوگی کہ جو چیز آج کی قوتِ مُرہِبَہ ہو اس کو حاصل کیا جائے۔

یہی دو طرفہ خصوصیت قرآن کی دوسری اکثر آیتوں میں پائی جاتی ہے۔ قرآن میں ایک اعتبار سے ہم عصر اہلِ ایمان کے لیے رہنمائی تھی، دوسرے اعتبار سے بعد کے اہلِ ایمان بھی اُس کی آیتوں میں تدبر کر کے اپنے لیے واضح رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی بنا پر حدیث میں قرآن کے بارے میں آیا ہے کہ : لا تنقضی عجائبہ (الدارمی، فضائل القرآن، الترمذی، ثواب القرآن) اس معاملہ کی مزید وضاحت کے لیے یہاں چند مثالیں درج کی جاتی ہیں۔

۱۔ قرآن کی سورہ نمبر ۲ میں ارشاد ہوا ہے: کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ، بإذن اللّٰہ (البقرۃ ۲۴۹) یعنی کتنی ہی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں۔ مفسرین نے اس آیت کی جو تشریح کی ہے اس کے اعتبار سے اس میں اُس فرق کو بتایا گیا ہے جو جنگ کے موقع پر مقاتلین کے درمیان ہوتا ہے۔مثلاً اصحابِ طالوت اور اصحابِ بدر کے مقابلہ میں اُن کے اَعداء کی تعداد۔

قرآن کی اِس آیت میں جس اُصول کو بتایا گیا ہے اس کا ایک عصری مفہوم بھی ہے۔ اس اعتبار سے یہ آیت جدید زمانہ تک کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔موجودہ زمانہ میں ایک نئی تبدیلی وقوع میں آئی ہے۔ پہلے زمانہ میں طاقت کا ذریعہ صرف ایک چیز ہوتی تھی اور وہ سیاسی اقتدار ہے۔ سیاسی طاقت کا انحصار فوجی طاقت پر ہوا کرتا تھا۔ موجودہ زمانہ میں یہ صورتِ حال بدل گئی ہے۔ اب سیاسی اقتدار کے علاوہ ایک اور چیز ظہور میں آئی ہے جس کو ادارہ (institution) کہا جاتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں بے شمار قسم کے ادارے بنانا ممکن ہوگیا ہے۔ یہ غیر سیاسی ادارے اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ وہ خود سیاسی اقتدار کو اپنے زیرِ اثر کرلیتے ہیں۔

واقعات بتاتے ہیں کہ مو جودہ زمانہ میں اقلیتیں اداروں پر قابض ہوکر حکومت تک کو اپنے اثر میں لے لیتی ہیں۔ اقلیتی گروہ ان مواقع کو استعمال کرکے اکثریتی گروہ کے اوپر چھا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال امریکا میں مقیم یہودیوں کی ہے۔ وہ اپنے غیر سیاسی اداروں کی طاقت ہی کے ذریعہ وہاں کے سیاسی اقتدار کو مغلوب کیے ہوئے ہیں، نہ کہ معروف معنوں میں کسی سازش کے ذریعہ۔

۲۔ قرآن کی سورہ نمبر ۹ میں اہلِ ایمان کے معاملہ کو اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: قل ہل تربصون بنا الّا احدی الحسنیین (التوبہ ۵۳) یعنی کہو تم ہمارے لیے صرف دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی کے منتظر ہو۔ اس آیت میں ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے۔آیت کے ابتدائی مصداق کے اعتبار سے اس کاتعلق زمانی حالات سے ہے لیکن آیت کے وسیع انطباق کے لحاظ سے اس کا تعلق ابدی ہوجاتا ہے۔

قدیم مفسرین نے اس آیت میں دو بہتر انجام سے، غنیمت اور شہادت یا فتح اور شہادت مراد لیاہے۔اس تفسیر کے مطابق، یہ آیت جنگی حالات سے متعلق ہوجاتی ہے۔ مگر وسیع تر مفہوم کے اعتبار سے اِس کا تعلق پُر امن حالات سے بھی ہے، فردکے لیے بھی اور اجتماع کے لیے بھی۔ مثلاً ایک شخص انڈیا سے امریکا جاتا ہے۔ وہاں لمبی مدت تک کوشش کے باوجود اس کو اقامتی ویزا نہیں ملتااور اس کو اپنے وطن واپس آنا پڑتا ہے۔ اس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اِحدَی الحُسنَیَیْن کے اصول کے مطابق، تم کو دو میں سے ایک بہتر چیز ملی۔ تم اگر چہ ویزا حاصل نہ کرسکے مگر تم کو اِس دوران مغربی دنیا کا تجربہ ہوا، اور یہ تجربہ یقینا ویزا سے کم نہیں۔

۳۔ قرآن کی سورہ نمبر ۴ میں قدیم مکہ کے اہل ایمان کو ہجرت کا حکم دیا گیا تھا۔ فرشتوں کی زبان سے یہ جملہ نقل کیا گیاہے: الم تکن أرض اللہ واسعۃ فتہاجروا فیہا (النساء ۹۷) یعنی کیا خدا کی زمین کُشادہ نہ تھی کہ تم وطن چھوڑ کر وہاں چلے جاتے۔ ہجرت کا یہ حکم قرآن کی دوسری سورتوں میں بھی مختلف الفاظ میں آیا ہے۔

دورِ اول میں جب یہ آیتیں اُتریں اُس وقت ہجرت سے مراد ہجرتِ مکانی ہوتا تھا۔چنانچہ بہت سے لوگوں نے اس حکم پر عمل کیا۔ مگر موجودہ زمانہ میں ہجرتِ مکانی کا طریقہ زیادہ قابل عمل نہیں رہا ہے۔ تاہم موجودہ زمانہ میں بھی یہ اُصول اپنی حقیقت کے اعتبار سے بدستور باقی ہے۔ مثلاً کسی ملک کے مسلمان اگر سیاسی سرگرمیوں کی بنا پر وہاں کی حکومت کے عِتاب کا شکار ہورہے ہیں تو اُن سے یہ کہا جائے گا کہ تم اِس عتاب کا شکار صرف اس لیے ہورہے ہو کہ تم نے اپنے ملک کی حکومت سے متشددانہ قسم کا سیاسی ٹکراؤ جاری کررکھا ہے۔ تم سیاست کا میدان چھوڑ کر غیر سیاسی میدان میں آجاؤ اور پُر امن تعمیری کام کرو۔ قدیم ہجرت اگر جغرافی ہجرت تھی تو یہ دوسری ہجرت میدان کار کے اعتبار سے ہجرت قرار پائے گی۔ اِس طرح ہجرت کا اُصول آج بھی پوری طرح قابل عمل بن جاتا ہے۔

یہاں یہ اضافہ کرنا ضروری ہے کہ قدیم زمانہ میں جو حالات تھے اُن میں صرف مکانی ہجرت ہی قابل عمل ہوتی تھی۔ اُس زمانہ میں میدانِ کار کے اعتبار سے ہجرت کا کوئی امکان نہ تھا۔ مگر موجودہ زمانہ میں نئے حالات اور نئے مواقع کے ظہور کے بعد میدانِ کار کے اعتبار سے ہجرت ایک عظیم تصور بن چکا ہے۔آج سیاسی اعتبار سے مغلوب مسلمان میدانِ کار کی تبدیلی کے ذریعہ وہ سب کچھ اپنے لیے حاصل کرسکتے ہیں جس کے لیے انہوں نے سیاسی ٹکراؤ کا راستہ اختیار کیا تھا۔

۴۔ قرآن کی سورہ نمبر ۲۴ میں آداب ملاقات کو بتاتے ہوئے حکم دیاگیا ہے کہ : ائے ایمان والو، تم اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو جب تک اجازت حاصل نہ کرلو اور گھر والوں کو سلام نہ کرلو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ تاکہ تم یاد رکھو (النور ۲۷) اس آیت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے داخلہ کی اجازت حاصل کی جائے اور اس کی صورت یہ بتائی گئی کہ دروازہ پر پہنچ کر آدمی بلند آواز سے یہ کہے: السلام علیکم۔ یہ گویا حصول اجازت کا ایک طریقہ ہے اور جب اندر سے اجازت کا اشارہ مل جائے تو اس کے بعد گھر میں داخل ہو۔

اِس آیت کا اصل مدعا ملاقات کے لیے پہلے سے اجازت حاصل کرناہے۔ یہ تعلیم اپنی نوعیت کے اعتبار سے دَوامی ہے۔ اس کے بعد جہاں تک السلام علیکم کہنے کا طریقہ ہے، وہ زمانی نوعیت کی ایک صورت ہے۔ موجودہ زمانہ میں ٹیلی فون اور رابطہ کے دوسرے ذرائع حاصل ہوچکے ہیں۔ اب یہ ضروری نہیں کہ آدمی دروازہ پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے السلام علیکم کہے۔ اب آدمی کو چاہیے کہ وہ عصری ذرائع کو استعمال کرے۔ جس سے ملاقات کرنا ہے اس کو ٹیلی فون کرے یا اس کے نام خط بھیجے۔ اس طرح پیشگی اجازت لے کر صاحبِ ملاقات کے پاس جائے۔ یہ گویا اس کے لیے ایک قرآنی حکم کا عصری انطباق ہوگا۔

۵۔ عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ابتدائی زمانہ میں اسلام کے دو دَور تھے—مکی دَور اور مدنی دَور۔ ہجرت سے پہلے مکی دور کو دعوت کا دور سمجھا جاتا ہے اور ہجرت کے بعد مدنی دور کو جہاد کا دور۔ اس تقسیمی طرز فکر کا نتیجہ یہ ہے کہ مکی دور کی کئی تعلیمات کو مدنی دور پیش آنے کے بعد منسوخ سمجھ لیا گیاہے۔ مثلاً مکہ کے دعوتی دو رمیں صبر اور اعراض اور تالیف قلب اور مدعوگروہ کے ساتھ یک طرفہ حُسن سلوک، وغیرہ۔ مگر مدنی دور میں ان تعلیمات کو منسوخ کرکے فریقِ ثانی سے صرف قتال کا حکم دے دیا گیا۔

ناسخ اور منسوخ کا اصول اسلامی شریعت کا ایک اہم اصول ہے۔مگر یہ حکم حالات کے تابع ہے، یعنی حالات کے بدلنے سے ایک حکم منسوخ قرار پائے گا۔ مگر دوبارہ جب سابقہ حالات پیدا ہوجائیں تو اس وقت منسوخ چیز دوبارہ جائز اور مطلوب ہوجائے گی۔ اس اصول کا لحاظ نہ رکھنے کی وجہ سے اسلام کے بعد کی تاریخ میں بہت بڑا نقصان واقع ہوا ہے۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھ لیا گیا کہ مدنی دور میں جو احکام منسوخ ہوئے تھے وہ ہمیشہ کے لیے منسوخ ہوگئے۔

اِس مفروضہ کی بنا پر یہ ہوا کہ صبر اوراعراض اور تالیفِ قلب اور مدعو کے ساتھ ناصحانہ معاملہ امت کے حافظہ سے عملاً محو ہوگیا ہے۔ اسی کا یہ شدید تر نتیجہ ہوا کہ دعوت الی اللہ کی ذمہ داری بھی عملاً فراموش کردی گئی۔ دعوت ایک ایسا عمل ہے جو صبر اور اعراض اور تالیف قلب اور مدعو کے ساتھ خیر خواہی کا طالب ہے۔ جب یہ اخلاقیات منسوخ قرار پائیں تو فطری طور پر یہ ہوا کہ دعوت کا کام بھی عملی طورپر ایک منسوخ حکم بن گیا۔

اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ بعد کے زمانہ میں جب حدیث اور فقہ کی کتابیں لکھی گئیں اور دوسرے اسلامی موضوعات پر تصنیفات تیار کی گئیں تو ان تمام کتابوں میں دعوت الی اللہ کا باب حذف ہوگیا۔ اب یہ ہوا کہ ان تمام کتابوں میں جہاد اور قتال کا باب تفصیل کے ساتھ شامل کیا گیا۔ مگر پُر امن دعوت کا با ب غالباً کسی بھی کتاب میں درج نہ ہوسکا۔

اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ناسخ اور منسوخ کو کوئی حتمی حکم نہ سمجھا جائے۔ بلکہ ان کو حالات پر مبنی قرار دیا جائے۔ اس طرح یہ ہوگا کہ ایک طرف دعوت الی اللہ کا متروک عمل زندہ ہوجائے گا اور دوسری طرف امن پر مبنی اقدار دوبارہ اہمیت اختیار کر لیں گی جو کہ جہاد و قتال کے ذہن کی بنا پر عملاً متروک قرار پا گئی تھیں۔

یہ صحیح ہے کہ اسلام کی دعوت و اشاعت کا کام بعد کے زمانہ میں مسلسل جاری رہا ہے اور کثیر تعداد میں لوگ اسلام قبول کرتے رہے ہیں اور اب بھی قبول کررہے ہیں۔ مگر اسلام کی یہ اشاعت اسلام کی اپنی طاقت کی بنا پر ہو رہی ہے نہ کہ مسلمانوں کی کسی باقاعدہ دعوتی جدوجہد کے نتیجہ میں۔

اِس کا راز یہ ہے کہ مذہب انسان کی فطری ضرورت ہے۔ ہر انسان خود اپنی فطرت کے زور پر مذہب کی تلاش میں رہتا ہے۔ مگر صورت حال یہ ہے کہ اسلام کے سوا تمام دوسرے مذاہب تحریف اور تبدیلی کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس بنا پر دیگر مذاہب نے فطرتِ انسانی کے ساتھ اپنی مطابقت کھو دی ہے۔ یہی وجہ ہے جو لوگوں کو اسلام کی طرف لے آتی ہے۔ جو آسمان کے نیچے واحد غیر محرَّف مذہب ہے۔ اسلام کی اسی استثنائی صفت نے اُس کے اندر یہ طاقت پیدا کردی ہے کہ وہ کسی باقاعدہ دعوتی عمل کے بغیر لوگوں کے درمیان پھیلتا رہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom