خدا اور انسان

اِنتھراپالوجی ایک ڈسپلن ہے۔ اس ڈسپلن کے تحت انسان کی اسٹڈی کی جاتی ہے۔ انتھراپالوجی کے تحت قدیم ترین معلوم زمانہ سے لے کر اب تک کی تفصیلی اسٹڈی کی گئی ہے۔اِس اسٹڈی کے ذریعہ جو باتیں معلوم ہوئی ہیں ان میں سے ایک اہم بات یہ ہے کہ خدا کا تصور انسان کی فطرت میں نہایت گہرائی کے ساتھ پیوست ہے۔ ہر عورت اور ہر مردپیدائشی طور پر خدا کے تصور کو لے کر اس دنیا میں آتے ہیں۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر مجبور ہیں کہ اِس تصور کے ساتھ زندگی گزاریں۔

مزید مطالعہ بتاتا ہے کہ خدا انسان کی ایک لازمی ضرورت ہے۔ انسان ایک توجیہہ طلب حیوان (explanation seeking animal) ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنے وجود اور اپنے اِرد گِرد کی دنیا کی توجیہہ کرے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کو مانے بغیر اس کی توجیہہ ممکن نہیں۔ اسی طرح انسان اپنی محدودیت کی بنا پر اپنے آپ کو بے سہارا محسوس کرتا ہے۔ اِس احساس کی تلافی بھی صرف خدا جیسی ایک ہستی کو جاننے سے ہوتی ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ہر انسان ناتمام خواہشوں (unfulfilled desires) میں جیتا ہے۔ یہ صرف خدا ہے جس کے ذریعہ اس کو تکمیل کی امید ہوسکتی ہے۔ انسان اپنے مخصوص نیچر کی بنا پر یقین (conviction)میں جینا چاہتا ہے۔ اس یقین کا سورس بھی خدا کے سوا اور کوئی نہیں۔

انسان کو اپنی سرگرمیوں کے لیے ایک نشانہ درکار ہے تاکہ وہ مطمئن ہو کر اس کی طرف اپنا سفر جاری رکھے۔ یہ نشانہ بھی اس کو صرف خدا کے عقیدہ کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔

مطالعہ بتاتا ہے کہ دنیا کے تمام عورت اور مرد کسی نہ کسی طور پر خداکو مانتے ہیں۔ حتیٰ کہ بظاہر منکرِ خدا (atheist) لوگوں کا بھی یہ حال ہے کہ جب ان پر کوئی کرائسس (crisis) آتا ہے تو وہ بے اختیارانہ طورپر خدا کو پکار اٹھتے ہیں۔ معلوم طورپر اِس معاملہ میں کسی بھی عورت یا مرد کا کوئی استثناء نہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ جب ہر شخص خدا میں عقیدہ رکھتا ہے تو اس کو وہ نتیجہ کیوں نہیں ملتا جو خدا میں عقیدہ رکھنے کی صورت میں ملنا چاہیے۔ خدا کو مانتے ہوئے بھی ہر انسان کا یہ حال ہے کہ وہ ربّانی احساس (divine inspiration) سے محروم ہے۔ اس کوذہنی سکون (peace of mind) حاصل نہیں۔ ہم خداپر یقین رکھتے ہیں (We trust in God) کا بورڈ لگانے والے بھی حقیقی معنوں میں گاڈ میں ٹرسٹ کرنے کی نعمت سے محروم ہیں۔ لوگ خدا کو مانتے ہیں مگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ خدا کے ساتھ ان کا ربط(communion) قائم نہیں ہوتا۔ خدا کو ماننے کے باوجود لوگوں کی زندگیوں میں خدا کی رحمت (blessing) کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔

اس کا سبب یہ ہے کہ لوگ خدا کے نام پر غیر خدا سے اپنے آپ کووابستہ (associate) کئے رہتے ہیں۔ زبان سے وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا کو مانتے ہیں مگر عملاً وہ اپنے آپ کو کسی نہ کسی غیر خدا کے ساتھ وابستہ کیے ہوئے رہتے ہیں۔

کوئی کسی زندہ یا مردہ انسان کو خدا کی جگہ بٹھائے ہوئے ہے۔ کوئی سورج دیوتا (Sun god) اورچاند دیوتا (Moon god) جیسے خداؤں میں اٹکا ہوا ہے۔ کوئی ہیومنزم کے نام پر وہ کر رہا ہے جس کوعہدہ کا خدا سے انسان کی طرف منتقل ہونا کہا جاتا ہے:

Transfer of seat from God to Man

کوئی قانونِ فطرت(law of nature) کو خدا کا بدَل سمجھے ہوئے ہے۔ اِسی طرح کچھ لوگ مانسٹِک(monistic) تصورِ خدا کو لیے ہوئے ہیں۔ جس میں خدا ایک vague اسپرٹ ہوتا ہے نہ کہ کوئی مستقل وجود جس سے ربط قائم کیا جاسکے، وغیرہ۔

اگر آپ اپنے ٹیلی فون پر کسی نمبر کوڈائل کریں اور اتفاق سے غلط نمبر ڈائل ہوجائے تو دوسری طرف سے یہ آواز آئے گی کہ یہ نمبر موجود نہیں (This number does not exist) :۔ یہی آج لوگوں کا حال ہے۔ وہ خدا کے نام پر ایسی ہستیوں کو پکار رہے ہیں جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں۔ اِس لیے ان کی ہر پکار کا جواب یہ آرہا ہے کہ یہ خدا موجود نہیں (This god does not exist)۔

اِس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ہر آدمی اس پورے معاملہ کا از سَرِنو جائزہ لے۔ اگر وہ اس معاملہ میں سنجیدہ ہوگا تو یقینی طورپر وہ اِس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اس کو اُس سسٹم آف تھاٹ کو دریافت کرنا ہے جس میں خدا کا تصور اپنی خالص صورت میں آدمی کو مل جائے۔ یہ ہر عورت اور مرد کا مسئلہ ہے۔ ہر عورت اور مرد اعتقادی طورپر کسی نہ کسی خدا کو اپنا خدا بنائے ہوئے ہے۔ مگر خدا کو ماننے کے جو نتائج ہیں وہ اس کو حاصل نہیں۔ ہر انسان اپنے ذاتی تجربہ کے تحت یہ محسوس کرسکتا ہے کہ اس کے لیے مسئلہ خدا پر عقیدہ نہ رکھنے (lack of belief in God) کا نہیں ہے بلکہ عقیدۂ خدا کا نتیجہ نہ ملنے(lack of result of belief in God) کا مسئلہ ہے۔یہ ایک ایسی یونیورسل حقیقت ہے جس کو ہر آدمی اپنے ذاتی تجربہ کے تحت جان سکتا ہے۔

عقیدہ اور نتیجۂ عقیدہ کے درمیان اِس فرق کا ممکن سبب صرف ایک ہی ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ اس نے خدا کے نام پر کسی غیر خدا پر اپنا عقیدہ بنا رکھا ہو۔ ایسی حالت میں فطری طورپر یہ ہوگا کہ عقیدہ کے باوجود آدمی کو عقیدہ کا نتیجہ حاصل نہیں ہوگا۔

بہت سے اسکالرس نے اس مسئلہ پر ریسرچ کی ہے اور اس کا جواب معلوم کیا ہے۔انہی میں سے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ بنگالی ڈاکٹرنِشی کانت چَٹوپادّھیائے ہیں۔ انہوں نے ۱۹۰۴ میں حیدرآباد دکن میں ایک مطبوعہ لکچر میں اپنا دریافت کردہ جواب بتایا تھا۔ وہ یہ کہ’’ اِس معاملہ میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ ساتویں صدی عیسوی سے پہلے جو مذاہب دنیا میں آئے وہ اگر چہ اعتقادی طور پر ایک ہی خدا کو ماننے والے تھے مگر بعد کے زمانہ میں ان کا اوریجنل ٹکسٹ محفوظ نہ رہ سکا۔ ہر مذہب کے ساتھ یہ ہوا کہ اس میں خدا کا تصور تبدیلی کا شکار ہوگیا اور خدا کے معاملہ میں ان مذاہب کی اوریجنل تعلیم محفوظ نہ رہ سکی۔

ساتویں صدی کے رُبع اول میں اسلام کا ظہور ہوا۔اسلام بھی اگر چہ دوسرے مذاہب کی طرح ایک مذہب تھا لیکن اسلام کی امتیازی صفت یہ ہے کہ اس کا اوریجنل ٹکسٹ پوری طرح محفوظ رہا۔ اس لیے اب بعد کی جنریشن کے لیے خدا کے درست عقیدہ کو جاننے کا معتبر ماخذ صرف اسلام رہ گیا ہے۔ جو آدمی اس معاملہ میں سنجیدہ ہو اور خدا کے معاملہ میں درست عقیدہ کو جاننا چاہے اس کے لیے اب اسلام کے سوا کوئی دوسراانتخاب (choice) موجود نہیں ‘‘۔

قرآن واحد محفوظ کتاب ہے۔قرآن کے مطابق، خدا ایک ہے۔ وہی انسان اور کائنات کا خالق اور مالک ہے۔ وہ پورے عالم کاقَیّوم (Sustainer) ہے۔ خدا ایک زندہ ہستی ہے۔وہ دیکھنے اور سننے والا ہے۔ ہر لمحہ اور ہر جگہ انسان کے لیے ممکن ہے کہ وہ خدا سے بر اہِ راست کنٹیکٹ کرسکے۔ خدا اپنی بے پناہ طاقتوں کے ساتھ انسان کی ہر کمی کی تلافی کرنے والا ہے۔ خدا قبل از موت دَور(pre-death period) اوربعد از موت دَور (post-death period) دونوں مرحلہ میں انسان کا مددگار ہے۔ خدا انسان کے لیے پیس اورسکون کا اتھاہ خزانہ ہے۔ خدا ہر معاملہ میں انسان کو اپنے پیغمبروں کے ذریعہ ہدایت فراہم کرتا ہے۔

خدا کی صفت یہ ہے کہ وہ انسان کا خالق(Creator) اور اس کا قیوم (Sustainer) ہے۔ اِس بنا پر ایسا ہے کہ خدا انسان کی ماہیت کو پوری طرح جانتا ہے۔ وہ انسان کی ضرورتوں سے آخری حد تک باخبر ہے۔ اِس بنا پر خدا ہی اِس قابل ہے کہ وہ انسان کے معاملہ کو سمجھے اور اُس کو وہ سب کچھ دے سکے جس کی انسان کو ضرورت ہے۔یہی اکیلا خدا انسان کا خدا بن سکتا ہے۔ اس کے سوا کسی مفروضہ ہستی کو یہ طاقت حاصل نہیں کہ وہ انسان کی اس ضرورت کو پورا کرسکے جس کو خدا کہا گیاہے۔

قرآن اسی خدا کا مستنَد تعارف ہے۔ قرآن واحد ماخذ ہے جس کے ذریعہ کوئی شخص خدا کے بارے میں قابلِ اعتماد تعارف حاصل کرسکے۔

مِلْیَنز اور ملینز انسانوں نے اپنے ذاتی تجربہ کے تحت اِس بات کی گواہی دی ہے کہ انہوں نے قرآن کا مطالعہ کیا اوراس میں انہوں نے خدا کا وہ تعارف حاصل کیا جو ان کی فطرت تلاش کررہی تھی۔ انہوں نے اِس بات کا اقرار کیا ہے کہ خدا کے دوسرے تصورات ان کی اندرونی طلب کا جواب نہیں بن رہے تھے۔ مگر جب انہوں نے قرآن میں دیے ہوئے تصورِ خدا کو جانا تو ان کا دل پکار اٹھا کہ یہی ان کا وہ مطلوب خدا ہے جس میں ان کی شخصیت کے لیے کامل (fulfilment) موجود ہے۔

ہر زمانہ کا انسان اپنی فطرت کے تحت خدا کا طالب تھا۔ ہر زمانہ کے مذاہب انسان کو اس کی طلب کے مطابق خدا کا علم دیتے رہے۔ مگر قدیم زمانہ میں کتابوں کے لکھنے اور اس کو محفوظ رکھنے کا بے خطا نظام نہیں بنا تھا۔ اِس لیے یہ مذہبی کتابیں اپنی اصل حالت میں محفوظ نہ رہیں۔ آخر کار ساتویں صدی کے آغاز میں قرآن کا ظہور ہوا۔ مخصوص اہتمام کی بنا پر یہ ممکن ہوا کہ قرآن اپنی اوریجنل صورت میں مکمل طورپر محفوظ ہو جائے۔ اب جو شخص بھی اپنی زندگی کی تعمیر کا طالب ہو وہ قرآن کا مطالعہ کرکے اس خدا کو دریافت کرسکتا ہے جس کے بغیر کسی انسان کے لیے اپنے مستقبل کی حقیقی تعمیر ممکن نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom