توحید کا عقیدہ

توحید کاآغاز معرفت (realization) سے ہوتا ہے۔ یعنی خدا کو خالق و مالک کی حیثیت سے دریافت کرنا۔ کسی انسان کو جب خدا کی یہ معرفت حاصل ہوتی ہے تو اس کا حال کیا ہوتا ہے۔ اس کو قرآن میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے:

اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اِس سبب سے کہ ان کو حق کی معرفت حاصل ہوئی۔ وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب، ہم ایمان لائے۔ پس تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ اور ہم کیوں نہ ایمان لائیں اللہ پر اور اُس حق پر جو ہمیں پہنچا ہے جب کہ ہم یہ آرزو رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہم کو صالح لوگوں کے ساتھ شامل کرے۔ پس اللہ ان کو اِس قول کے بدلہ میں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بدلہ ہے نیک عمل کرنے والوں کا (المائدہ ۸۵۔۸۳)

خدا کی معرفت آدمی کے اندر کس قسم کی شخصیت پیدا کرتی ہے، اس کو قرآن میں مختلف انداز سے بتایا گیا ہے۔ اِس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: ایمان والے تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذِکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جائیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کے سامنے پڑھی جائیں تو وہ ان کا ایمان بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں (الانفال ۲)

توحید کے عقیدہ کا خطاب اصلاً انسان سے ہے نہ کہ کسی نظام سے۔ یہ عقیدہ ایک فرد کے اندر جگہ پکڑتا ہے۔ وہ فرد کو یہ یقین دلاتا ہے کہ خدا اس کا خالق اور مالک ہے۔ وہ فرد کو خدا کی عظمت کے احساس میں سرشار کردیتا ہے۔ وہ انسان کی پوری شخصیت کو خدا کے رنگ میں رنگ دیتا ہے۔ وہ انسان کے فکر اور احساس کا کامل رہنما بن جاتا ہے۔ ایسا انسان خدا کو یاد کرنے والا بن جاتا ہے۔ وہ خدا کی پکڑ سے بچنا چاہتا ہے اور خدا کے انعام کا حریص بن جاتا ہے۔ توحید کا عقیدہ انسان کی داخلی شخصیت میں اِس طرح بھونچال بن کر داخل ہوتا ہے کہ وہ اس کی پوری زندگی کو ہِلا دیتا ہے۔ وہ خدا کو اپنا سب کچھ بنا لیتا ہے۔ اس کا جینا اور مرنا خدا کے لیے بن جاتا ہے۔ اس کی پوری زندگی خدا رخی زندگی (God-oriented life) بن جاتی ہے۔

دین کا اصل نشانہ حکومتِ الٰہیہ نہیں ہے۔ دین کااصل نشانہ معرفتِ الٰہیہ ہے۔ انسان خدا کی معرفت حاصل کرے۔ اس کو سچائی کا عرفان ہوجائے۔ اُس کی روح خدا کی دریافت سے چمک اُٹھے۔ اُس کی شخصیت کامل طورپر عارفانہ شخصیت بن جائے۔ یہی دین کا اصل مقصود ہے۔ اس اعتبار سے دین کا اصل نشانہ فرد ہے، نہ کہ اجتماع۔

سیاسی اقتدار کی حیثیت اسلام میں مطلوب ثانوی کی ہے نہ کہ مطلوبِ اول کی۔ اِسی لیے قرآن میں اُس کی بابت یہ الفاظ آئے ہیں : وَأخریٰ تحبونہا، نصرمن اللہ وفتح قریب (الصف)

معرفتِ خداوندی کے دو درجے ہیں۔ ایک روایتی معرفت، اور دوسرے علمی معرفت۔ قبل سائنسی دَور میں انسان کے لیے روایتی معرفت ممکن ہوتی تھی۔ بعد سائنسی دور میں انسان کے لیے علمی معرفت ممکن ہوگئی۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو ایک حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: مثل امتی کمثل المطر لا یدریٰ اولہ خیر ام آخرہ (میری امت کی مثال بارش جیسی ہے، نہیں معلوم کہ اُس کا پہلا دَور زیادہ اچھا ہے یا اُس کا دوسرا دَور زیادہ اچھا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom