شکر کی حقیقت
شکر یہ ہے کہ آدمی خدا کی نعمتوں کا اعتراف کرے۔ یہ اعتراف اصلاً دل میں پیدا ہوتا ہے۔ اور پھر وہ الفاظ کی صورت میں آدمی کی زبان پر آ جاتا ہے۔
انسان کو خدا نے بہترین جسم اور دماغ کے ساتھ پیدا کیا ۔ اس کی ضرورت کی تمام چیزیں افراط کے ساتھ مہیا کیں۔ زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو انسان کی خدمت میں لگا دیا۔ زمین پر زندگی گزارنے یا تمدن کی تعمیر کرنے کے لیے جو جو چیزیں مطلوب تھیں، وہ سب وافر مقدار میں یہاں مہیا کر دیں۔انسان ہر لمحہ ان نعمتوں کا تجربہ کرتا ہے۔ اس لیے انسان پر لازم ہے کہ وہ ہر لمحہ خدا کی نعمتوں پر شکر کرے۔ اس کا قلب خدا کی نعمتوں کے احساس سے سرشار رہے۔
شکر کی اصل حقیقت اعتراف ہے۔ جس چیز کو انسان کے سلسلہ میں اعتراف کہا جاتا ہے اسی کا نام خدا کی نسبت سے شکر ہے۔ اعتراف کا لفظ انسان کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے اور شکر کا لفظ خدا کے مقابلہ میں۔شکر تمام عبادتوں کا خلاصہ ہے۔ عبادت کی تمام صورتیں دراصل شکر کے جذبہ ہی کی عملی تصویر ہیں۔ شکر سب سے زیادہ جامع اور سب سے زیادہ کامل عبادت ہے۔ شکر خدا پرستانہ زندگی کا خلاصہ ہے۔
شکر کا تعلق انسان کے پورے وجود سے ہے۔ ابتدائی طور پر آدمی اپنے دل اور اپنے دماغ میں شکر کے احساس کو تازہ کرتا ہے، پھر وہ اپنی زبان سے بار بار اس کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے بعد جب شکر کے جذبات قوی ہو جاتے ہیں تو انسان اپنے مال اور اپنے اثاثہ کو اظہار شکر کے طور پر خدا کی راہ میں خرچ کرنے لگتا ہے۔ اسی طرح اس کا جذبۂ شکر اس کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے وقت اور اپنی طاقت کو اس خدا کی راہ میں صَرف کرے جس نے اس کو وقت اور طاقت کا یہ سرمایہ دیا ہے۔ ہمارا وجود پورا کا پورا خدا کا دیا ہوا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں جیتے ہیں جو سب کا سب خدا کا عطیہ ہے۔ اسی حقیقت کے اعتراف اور اظہار کا دوسرا نام شکر ہے۔
(زیر نظر شمارہ شکر کے موضوع پر آنے والی نئی کتاب کے منتخب مضامین پر مشتمل ہے)