اضافۂ ایمان
سائنسی اندازہ کے مطابق،سورج ہماری زمین سے تقریباًنو کرورتیس لاکھ میل دور ہے۔ سورج ہماری زمین سے ایک لاکھ تیس ہزارگنا بڑا ہے۔ سورج زمین کی مانند ٹھوس نہیں ہے، بلکہ وہ پورا کا پورا ایک عظیم دہکتا ہوا شعلہ ہے۔ اس کی گرمی گیارہ ہزار ڈگری فارن ہائٹ ہے۔ یہ گرمی اتنی زیادہ ہے کہ سخت ترین مادہ بھی اس میں پگھلے بغیر نہیں رہ سکتا۔ زمین اگر اس کے قریب کی جائے تو وہ ایک سکنڈ سے بھی کم عرصے میں پگھل کر گیس بن جائے گی۔
سورج کیسے چمکتا ہے اور کیسے اتنی بڑی مقدار میں وہ روشنی اور گرمی دے رہا ہے۔ قدیم خیال یہ تھا کہ سورج مسلسل جل رہا ہے، جیسے کوئی لکڑی یا کوئلہ جلتا ہے۔ مگر جب فلکیاتی تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ ہزاروں ملین سال سے اسی طرح روشن ہے تو یہ خیال غلط ثابت ہوگیا۔ سورج میں اگر کوئی مادہ جل رہا ہوتا تو اب تک سورج بجھ چکا ہوتا، کیوں کہ کوئی چیز اتنی زیادہ لمبی مدت تک جلتی ہوئی حالت میں نہیںرہ سکتی۔
اب سائنس دانوں کا نظریہ یہ ہے کہ سورج کی گرمی اُسی قسم کے ایک عمل (process) کا نتیجہ ہے جو ایٹم بم کے اندر وقوع میں آتا ہے، یعنی سورج، مادہ کو توانائی میں تبدیل کرتا ہے۔ یہ عمل جلنے سے مختلف ہے۔ جلنا مادہ کو ایک صورت سے دوسری صورت میں تبدیل کرتا ہے، مگر جب مادہ کو توانائی میں بدلا جائے تو بہت زیادہ توانائی صرف تھوڑے سے مادہ کے ذریعہ حاصل کی جاسکتی ہے۔ مادہ کا ایک اونس اتنی زیادہ توانائی پیدا کرسکتا ہے جو ایک ملین ٹن سے زیادہ چٹان کو پگھلا دے:
The sun changes matter into energy. This is different from burning. Burning changes matter from one form to another. But when matter is changed into energy, very little matter is needed to produce a tremendous amount of energy. One ounce of matter could produce enough energy to melt more than a million tons of rock.
کائنات میں ا س قسم کی ان گنت نشانیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ نشانیاں بتاتی ہیں کہ کائنات کے پیچھے ایک عظیم خالق کی ہستی کام کررہی ہے۔ عظیم خالق کے بغیر کبھی اس قسم کی عظیم تخلیق ظہور میں نہیں آسکتی۔قرآن میں بار بار کائناتی نشانیوں پر غور کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ یہ غور وفکر ایک خالص دینی عمل ہے، وہ مومن کے ایمان میں غیر معمولی اضافے کا سبب بنتا ہے، وہ مومن کے شکر کے جذبے کو بے پناہ حد تک بڑھا دیتا ہے۔
جولائی 2001 میں میرا ایک سفر سوئٹزرلینڈ کے لیے ہوا۔ ہمارا جہاز 25 جولائی کی صبح کو ٹھیک وقت پر زیورک ، سوئٹزر لینڈ پہنچ گیا۔ جہاز جب ایر پورٹ کے قریب پہنچ کر نیچے اترا تو چاروں طرف سرسبز مناظر دکھائی دے رہے تھے۔ یہ ایک خوبصورت دنیا تھی جو گویا فطرت کے سبزہ زار ماحول میں بنائی گئی تھی۔ اس کو دیکھ کر میری زبان سے نکلا:
It is like seeing paradise from a distance.
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ نے ایک نہایت حسین اور معیاری دنیا بنائی جہاں انسان ابدی طورپر پر مسرت زندگی گزار سکے۔ یہ جنت ہے ۔پھر اس نے ایک اور دنیا موجودہ زمین کی صورت میں بنائی۔ ہماری زمین ساری کائنات میں ایک انتہائی انوکھا استثنا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں بتایا گیا ہے،یعنی اس دنیا میں جنت کے مشابہ تمام چیزیں رکھ دی گئی ہیں (البقرہ ، 2:25)۔ گویا موجودہ دنیا آخرت کی کا مل جنت کا ایک ناقص تعارف ہے۔ یہ دنیا انسان کو اس لیے دی گئی ہے تاکہ وہ اس کے اندر جنت کی ابتدائی جھلک دیکھے اور پھر اس کا شکر ادا کر کے ابدی جنت کا مستحق بنے ۔ اس حقیقت کی طرف قرآن میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے: لَئِن شَكَرۡتُمۡ لَأَزِيدَنَّكُمۡ (14:7)۔ یعنی، اگر تم شکر کرو گے تو میں تم کو (جنت کی صورت میں)زیادہ دوں گا۔