فخر اور شکر
ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے پُر اعتماد لہجے میں کہا — میں پورے فخر اور شکر کے ساتھ کہتا ہوں کہ اللہ تعالی نے مجھے فلاں دینی ماحول میں پیدا کیا، اور اس نے مجھے فلاں ادارے میں تعلیم وتربیت حاصل کرنے کا موقع عطا فرمایا، وغیرہ۔
یہ کسی ایک شخص کی بات نہیں۔ اِس قسم کی بات بہت سے لوگ اپنے اپنے انداز میں کہتے ہیں۔ یہ الفاظ بظاہر خوب صورت معلوم ہوتے ہیں، لیکن وہ انتہائی بے معنیٰ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فخر اور شکر دونوں دو مختلف جذبات ہیں۔ جہاں فخر ہوگا، وہاں شکر نہیں ہوگا اور جہاں شکر ہوگا، وہاں فخر نہیں ہوگا۔ جو لوگ ایسے الفاظ بولیں، ان کے اندر فخر تو ہوسکتا ہے، لیکن حقیقی شکر کا جذبہ ان کے اندر ہرگز موجود نہیں ہوسکتا۔
شکر کیا ہے۔ شکر دراصل، خداوند ِ ذوالجلال کی نعمتوں کا اعتراف ہے۔ خداوند ِ ذوالجلال کی نعمت کا احساس فوراً ہی آدمی کے اندر اپنی بے مائگی کا احساس پیدا کردیتا ہے اور اپنی بے مائگی کے احساس کے بعد کوئی شخص کبھی فخر کا تحمل نہیں کرسکتا۔ اِس قسم کے احساس کے بعد آدمی اپنے آپ کو ’’بے کچھ‘‘ کے مقام پر پاتا ہے اور خداوندذوالجلال کو ’’سب کچھ‘‘ کے مقام پر۔ جو آدمی اس قسم کی نفسیات کا حامل ہو، اس کے لیے فخر ایک مضحکہ خیز لفظ بن جائے گا۔ ایسا آدمی سب کچھ بھول کر شکر ِ خداوندی کے جذبے سے سرشار ہوجائے گا۔اس کے اندر فخر جیسی چیز کے لیے کوئی جگہ نہ ہوگی۔ شکر کی توفیق ہمیشہ عجز کامل کی سطح پر ہوتی ہے جس آدمی کے اندر عجز کامل کی اعلیٰ ربانی صفت نہ ہو، وہ شکر کا تجربہ بھی نہیں کرسکتا۔
فخر کے ساتھ شکر کا لفظ بولنا، بتاتا ہے کہ ایسا آدمی، امتحان کی اصطلاح میں، مائنس مارکنگ (minus marking) کا مستحق ہے۔ ایسا کہنے والا شخص اِس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ وہ فخر اور شکر دونوں کی اصل حقیقت سے بے خبر ہے۔ وہ نہ فخر کی نفسیات کو جانتا ہے اور نہ شکر کی نفسیات کو۔ اگر وہ دونوں کی حقیقت سے باخبر ہوتا تو وہ اِس طرح، فخر اور شکر کے متضاد الفاظ کو ایک ساتھ نہ بولتا۔ حقیقت یہ ہے کہ شکر ہمیشہ نفیِ فخر کی زمین پر پیدا ہوتا ہے، نہ کہ اثباتِ فخر کی زمین پر۔