شکر سب سے بڑی عبادت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مختلف کتابوں میں آئی ہے ۔ مثلاً صحیح البخاری (حدیث نمبر 6490)، صحیح مسلم (حدیث نمبر 2963)جامع الترمذی ( حدیث نمبر 2513)، سنن ابن ماجہ (حدیث نمبر 4142) ،وغیرہ۔ مسند احمد کے الفاظ یہ ہیں:انْظُرُوا إِلَى مَنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ، وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ، فَهُوَ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللهِ۔ قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ ۔ عَلَيْكُم(مسند احمد،حدیث نمبر10246)۔ یعنی، تم اس کو دیکھو جوتم سے نیچے ہے اورتم اس کونہ دیکھو جوتم سے اوپر ہے ، کیوںکہ اس طرح تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت کوکم نہیں سمجھوگے ۔
اس حدیث کی مزید تشریح ایک اورحدیث سے ہوتی ہے ۔ ایک مرفوع روایت کے مطابق رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خَصْلَتَانِ مَنْ كَانَتَا فِيهِ كَتَبَهُ اللهُ شَاكِرًا وَصَابِرًا ، مَنْ نَظَرَ فِي دِينِهِ إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَهُ ، وَنَظَرَ فِي دُنْيَاهُ إِلَى مَنْ هُوَ دُونَهُ ، فَحَمِدَ اللهَ ، كَتَبَهُ اللهُ شَاكِرًا صَابِرًا وَمَنْ نَظَرَ فِي دُنْيَاهُ إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَهُ فَأَسِفَ عَلَى مَا فَضَّلَهُ اللهُ عَلَيْهِ ، لَنْ يَكْتُبَهُ اللهُ شَاكِرًا وَلَا صَابِرًا (مسند الشامیین للطبرانی، حدیث نمبر 505)۔یعنی، دوصفتیںہیں جوکسی کے اندرہوں تو اللہ اس کو شاکر اورصابر لکھ دیتاہے ۔ جواپنے دین کے معاملہ میں اس کو دیکھے جواس کے اوپرہے، اوردنیا کے معاملہ میں اس کو دیکھے جواس سے کم ہے پھر وہ اللہ کا شکراداکرے، اللہ اس کو شاکر اورصابر لکھ دیتاہے ۔ اورجواپنے دنیا کے معاملہ میں اس کو دیکھے جواس سے بڑھ کرہے پھروہ اس پرافسوس کرے جو مادی برتری اللہ نے اس کے مقابل کو دی تواللہ اس کو ہرگز شاکرو صابرنہیں لکھے گا۔
شکر سب سے بڑی عبادت ہے ۔ کسی بندے سے جوچیز سب سے زیادہ مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ وہ اللہ کو ایک عظیم منعم کے طورپر دریافت کرے ۔ اللہ کی نعمتوں کے احساس سے اس کاسینہ بھراہواہو ۔ اس کی روح میں شکر کاابدی چشمہ جاری ہوجائے۔وہ اللہ کو ایک ایسی ہستی کے طورپرپائے جو اس پر بے پایاں نعمتوں کی بارش کررہاہے ۔ یہ شعور اتنا زیادہ قوی ہوکہ کسی بھی حال میں اس کاسینہ شکر خدا وندی کے احساس سے خالی نہ ہو۔
مگر یہ کوئی آسان بات نہیں ۔ اپنے آپ کوشکر کے جذبہ سے سرشار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آدمی کاشعور اس معاملہ میں پوری طرح زندہ ہو ۔ وہ اس کامسلسل اہتمام کرے ۔ وہ کسی ایسے خیال کو اپنے دل میں جگہ نہ دے جواس کے جذبۂ شکر کومجروح کرنے والاہو۔ وہ سب کچھ برداشت کرلے مگر وہ اپنے جذبۂ شکر کاانحطاط (erosion)کبھی برداشت نہ کرے۔ موجودہ دنیا میں فطری طورپر ہمیشہ ایسا ہو تاہے کہ لوگوں کے درمیان نا برابری قائم رہتی ہے ۔ اس بنا پر ہرآدمی یہ محسوس کرتاہے کہ مادی اعتبارسے کوئی اس سے کم ہے اورکوئی اس سے زیادہ ۔ اب اگر آدمی اپنامقابلہ اس شخص سے کرے جوبظاہر اس سے زیادہ ہے تواس کے اندر کمتری کااحساس پیدا ہوگا اور اس کاجذبۂ شکر دب کررہ جائے گا۔ اس لیے آدمی کوایسا کبھی نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اپنا موازنہ (comparison) اس سے کرے جومادی اعتبارسے بظاہر اس سے زیادہ ہے ۔ اس کے بجائے آدمی کویہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنا موازنہ (comparison)ان لوگوں سے کرے جومادی اعتبارسے ا س سے کم ہیں ۔ اس طرح اس کاجذبۂ شکر زندہ رہے گا ۔ اس کا دل کبھی نعمت کے احساس سے خالی نہ ہوسکے گا۔
موجودہ دنیا میں ہمیشہ ایساہو تاہے کہ تمام لوگ مادی اعتبارسے یکساں نہیں ہو تے ۔ کوئی زیادہ ہو تاہے اورکوئی کم ، کوئی پیچھے ہوتاہے اورکوئی آگے ، کوئی طاقت ورہوتاہے اورکوئی کمزور ۔ اس قسم کے تمام فرق امتحان کی مصلحت کی بنا پر ہیں ۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ آدمی مختلف قسم کے حالات سے گزرے ، مگروہ حالات سے متاثرہوئے بغیر اپنے ایمانی شعور کوزندہ رکھے ۔ وہ ناشکری والے حالات سے دوچار ہو، پھربھی اس کے شکر کے جذبہ میں کوئی کمی نہ آئے ۔ وہ بے اعترافی کی صورتِ حال سے گزرے ، مگر وہ اپنے اعتراف کی صفت کو نہ کھوئے ۔ وہ منفی جذبات پیدا کرنے والے حالات سے دوچارہو ، اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو مثبت طرز فکر پرقائم رکھے ۔ شکر وہ سب سے قیمتی متاع ہے جس کو انسان اپنے رب کے سامنے پیش کرسکتاہے ۔ ایسی حالت میں عقل مند انسان وہ ہے جو اپنے سینہ کو شکر کے احساس سے خالی نہ ہونے دے ، حتی کہ انتہائی غیرموافق صورت حال میں بھی ۔