صبر وشکر
اکتوبر 1988 میں میرا کابل کے لیے ایک سفر ہوا۔میں نظام الدین ویسٹ نئی دہلی اپنےآفس سے ایر پورٹ کے لیے روانہ ہوا توسڑک کے دونوں طرف سرسبز درختوں کی قطاریں مسلسل چلی جا رہی تھیں ۔ اس کو دیکھ کر مجھے شارجہ کا ایک صحرائی منظر یاد آیا۔ 1984 کے شارجہ کے سفر میں الشیخ علی المحویتی (قاضی شارجہ) مجھے اپنے رہائشی مکان پر لے گئے تھے جو شہرسے تقریباً25 کیلومیٹر کے فاصلہ پر واقع تھا۔ یہ سفر پورا کا پورا صحرا کے ریتیلے میدان میں طے ہوا تھا۔ دہلی کا سفر سرسبز ماحول میں تھا تو شارجہ کا یہ سفر صحرائی ماحول میں۔ اس دنیا میں ’’درخت‘‘ اس لیے ہیں کہ آدمی ان کو دیکھ کر شکر کرے، اور’’صحرا ‘‘ اس لیے ہیں کہ آدمی ان کو دیکھ کر صبر کر نا سیکھے۔ آدمی دونوں قسم کی چیزوں کو دیکھتا ہے مگروہ ان سے نہ شکر کا سبق لیتا ہے اور نہ صبرکا ۔
مومن انسان کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ صحابیٔ رسول صہیب رومی (وفات 38 ھ) کی ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ اس کا ہر معاملہ اس کے لیے خیر ہے۔ اور ایسا مومن کے سوا کسی اور کے لیے نہیں ۔اگر اس کو آرام ملتا ہے تو (وہ اللہ کی حمد کرتا ہے، اور) شکر کرتا ہے۔ پس وہ اس کے لیے خیر بن جاتا ہے۔ اور اگر اس پر مصیبت آتی ہے تو وہ(اللہ کی حمد کرتا ہے، اور ) صبر کرتا ہے۔ پس وہ اس کے لیے خیر بن جاتا ہے:
عَنْ صُهَيْبٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاك لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ (وفی روایۃ لاحمد: حَمِدَ رَبَّهُ وَ) شَكَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ، (وفی روایۃ لاحمد: وَإِنِ أصَابَتْهُ مُصِيبَةٌ حَمِدَ رَبَّهُ وَ) صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2999؛ مسند احمد، حدیث نمبر 1487)۔
The affair of the believer is truly strange. Every situation proves good for him and this is special to a believer alone. If he finds himself in a pleasant situation, he is thankful to God, and that is good for him. If he is faced with unpleasant situation he keeps patience and again that is good for him.
اللہ کی حمد وہی کرسکتا ہے جومنفی نفسیات سے خالی ہو۔مومن کے ساتھ دو طرفہ خیر کا یہ معاملہ کسی پر اسرار سبب سے نہیں ہوتا ، وہ مکمل طورپر ایک معلوم سبب کے تحت پیش آتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ مومن اس انسان کا نام ہے جس کو دریافت کی سطح تک خدا کی معرفت حاصل ہوئی ہو۔ ایسے انسان کے اندر ایک ذہنی انقلاب آجاتا ہے۔ اس کے اندر شعوری بیداری کی صفت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ معاملات اور تجربات کو حقیقت کی نظر سے دیکھے۔ وہ وقتی جذبات سے بلند ہو کر معاملہ کی گہرائی کو سمجھ سکے۔
مومن اپنی اس حقیقت شناسی کی بنا پر اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ جس تجربہ سے بھی گزرے وہ اس کو مثبت نتیجہ میں تبدیل کرسکے۔ وہ ہر واقعہ میں خدا کی کارفرمائی کو دیکھے۔ وہ ذاتی تجربہ کو خدا کے تخلیقی نقشہ میں رکھ کر دیکھ سکے۔ مومن کی یہی وہ صفات ہیںجو اس کے اندر یہ با معنٰی صلاحیت پیدا کردیتی ہیں کہ اس کو جب خوشی اور راحت کا تجربہ ہو تو وہ سرکش نہ بن جائے۔وہ اس کو خدا کا عطیہ سمجھ کر خدا کی خدائی کا اعتراف کرے۔ اسی اعتراف خداوندی کا نام شکر ہے۔ شکر بلاشبہ ایک عظیم عبادت ہے۔
تاہم دنیا کی زندگی میں آدمی کو ہمیشہ خوش گوار تجربے نہیں ہوتے۔ بار بار ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کو ناخوش گوار تجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس وقت مومن کی شعوری بیداری اس کو اس سے بچا لیتی ہے کہ وہ اس پر شکایت یا فریاد کرنے لگے۔ وہ ناخوش گوار تجربہ کو خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق سمجھتا ہے۔ وہ ناخوش گوار تجربہ کو ایک فطری عمل سمجھ کر اس سے یہ یقین حاصل کرتا ہے کہ یہ ایک وقتی چیز ہے۔ حالات یقیناً بدلیں گے اور وہ جلدہی مجھ کو زیادہ بہترزندگی عطا کریں گے، خواہ آج کی دنیا میں یا آج کے بعد بننے والی دوسری ابدی دنیا میں۔
حقیقت یہ ہے کہ صبر بھی شکر ہی کی ایک صورت ہے۔ ناخوش گوار صورت حال کو رضامندی کے ساتھ قبول کرنا اور اس کو خدا کی طرف سے آیا ہوا مان کر مثبت ذہن کے تحت اس کا استقبال کرنا یہی صبر ہے۔ اور یہ صبر ہمیشہ شاکرانہ قلب سے ظاہر ہوتا ہے۔ ناشکری سے بھرا ہوا دل کبھی صبر کا ثبوت نہیں دے سکتا۔