شکر اور سنجیدگی
قرآن کی سورہ الاحقاف میں ایک بندہ صالح کی دعا ان الفاظ میں آئی ہے:رَبِّ أَوۡزِعۡنِيٓ أَنۡ أَشۡكُرَ نِعۡمَتَكَ ٱلَّتِيٓ أَنۡعَمۡتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَٰلِدَيَّ وَأَنۡ أَعۡمَلَ صَٰلِحٗا تَرۡضَىٰهُ وَأَصۡلِحۡ لِي فِي ذُرِّيَّتِيٓ إِنِّي تُبۡتُ إِلَيۡكَ وَإِنِّي مِنَ ٱلۡمُسۡلِمِينَ(47:15)۔ یعنی، اے میرے رب، مجھے توفیق دے کہ میں تیرے احسان کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر کیا اور میرے ماں باپ پر کیا اور یہ کہ میں وہ نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہو۔ اور میری اولاد میں بھی مجھ کو نیک اولاد دے۔ میں نے تیری طرف رجوع کیا اور میں فرمان برداروں میں سے ہوں۔
سورہ النمل (آیت19)میں الفاظ کے جزئی فرق کے ساتھ یہی دعا حضرت سلیمان علیہ السلام کے حوالہ سے آئی ہے۔اس دعا کے ذریعہ ایک سنجیدہ انسان (sincere person) کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب اس کو نعمت ملے تو اس کا حال کیا ہونا چاہیے۔ عام طور پر لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ جب ان کو کوئی نعمت(favor) ملتی ہے تو وہ اس کا کریڈٹ خدا کو نہیں دیتے ہیں، بلکہ اپنی ذات کو اس کا کریڈٹ دیتےہیں۔ اس قسم کا کوئی بڑاواقعہ ایک عام انسان کو فخر و غرور میں مبتلا کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ مگرایک بندہ صالح ، جس کو خدا کی معرفت حاصل ہوئی ہو، اللہ سے تعلق قائم ہونے کے بعد اس کے اندر اپنے مُنعم حقیقی کے لیے اعتراف (acknowledgement) کا جذبہ ابھرتا ہے۔ وہ نعمت کو دیکھ کر سراپا شکر بن جاتا ہے۔ جو کچھ بظاہر اس کو ذاتی محنت سے حاصل ہوتا ہے اس کو بھی وہ پورے طور پر خدا کے خانہ میں ڈال دیتا ہے۔ یہی ہرسنجیدہ انسان کا طریقہ ہونا چاہیے۔ اِسی اعتراف کا شرعی نام شکر ہے۔ یعنی کسی نعمت کے حصول پر مُنعِم کے لیےدل کی گہرائی سے قدردانی کا اظہار ہے:
deep appreciation for kindness received
جہاں شکر نہ ہو، یقینی طور پر وہاں دین بھی نہ ہوگا۔اس دنیا کے اندر شکر کے آئٹم اتنے زیادہ ہیں کہ ان کو گنا نہیں جاسکتا ہے(النحل، 16:18)۔ اگر انسان سنجیدہ (sincere) ہوتو نعمت کا احساس انسان کے اندر شکر وحمد کے چشمے جاری کردیتا ہے۔ یہی اللہ سے تعلق کا خلاصہ ہے۔
انسان کے اندر یہ کمزوری ہے کہ اس کی نفسیات میں کسی کیفیت کا تسلسل باقی نہیں رہتا۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ہمیشہ شکرِ خداوندی کی کیفیات میں زندگی گزارے۔ اِس لیے انسان پر مختلف قسم کے ناخوشگوار حالات لائے جاتے ہیں، تاکہ اس کے ذریعے سے انسان کے اندر نعمت اور منعم کی اہمیت کا احساس ابھرے۔ تاکہ آدمی کبھی شکر کی کیفیت سے خالی نہ ہونے پائے، وہ اِس دنیا میں رہتے ہوئے ہر تجربے کے بعد شکر کا رسپانس (response) دیتا رہے۔
اِس دنیا میں انسان کو اپنے وجود سے لے کر لائف سپورٹ سسٹم (life support system) تک جو چیزیں ملی ہیں، وہ سب کا سب اللہ کا عطیہ ہیں۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پورے دل وجان کے ساتھ اِن انعامات کے منعم (giver) کا اعتراف کرے۔
بے خبرانسان
نومبر2004 میں بمبئی (ممبئی)کے لیے میرا ایک سفر ہوا۔ اس سفر میں ایک بڑا عبرت ناک واقعہ معلوم ہوا۔ ممبئی میں نیتومانڈکے نامی ایک ڈاکٹر تھے۔ 2003 میں ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ امراضِ قلب کے بہت بڑے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ سرجری میں اُن کو کمال حاصل تھا۔ انہوں نے بہت سے دل کے مریضوں کی کامیاب سرجری کی تھی۔ آخر میں اُن کو اپنے فن پر بہت غرور آ گیا تھا۔یہاں تک کہ وہ خدا کے منکربن گئے ۔
ایک صاحب نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک بار ایک مسلم خاتون کے دل کا آپریشن کیا۔ آپریشن سے صحتیابی کے بعد مسلم خاتون نے ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی، اور بات کرتے ہوئے یہ کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ آپریشن کامیاب رہا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا اس میں خدا کی کیا بات ہے۔ تم پیسہ دو اور میں تم کو صحت دوں گا:
Give me money and I will give you cure.
وہ ایک آپریشن کا معاوضہ تین لاکھ روپیے لیتے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ خود اُن کا انتقال دل کے دورے میں ہوا۔ وہ اپنی قیمتی کار میں سفر کررہے تھے، ہندو جا ہاسپٹل پہنچے کہ اچانک اُن پر دل کا دورہ پڑا۔ ان کو فوراً اسپتال لے جایا گیا، اتفاق سے وہاں اُس وقت جو عملہ تھا وہ ان کو پہچانتا نہ تھا۔ چنانچہ اسپتال میں ان کے ساتھ بے توجہی کا معاملہ ہوا۔ وہ بے بسی کے ساتھ چلّاتے رہے کہ میں ڈاکٹر مانڈکے ہوں۔ مگر عدم واقفیت کی بنا پر وہاں بَر وقت ان کا صحیح علاج نہ ہوسکا اور اسپتال ہی میں ان کا خاتمہ ہوگیا۔
ممبئی کے ایک دوسرے سرجن، ڈاکٹر کامران سے ملاقات ہوئی۔انھوں نے بتایا کہ انسان کے جسم میں ایک خاص عنصر ہوتا ہے۔ یہی آپریشن کے بعد اندمال (healing)کا سارا کام کرتا ہے۔ اگر یہ عنصر نہ ہوتو تمام سَرجن بے روزگار ہوجائیں۔ ڈاکٹر مانڈکے اگر اِس پوری حقیقت پر غور کرتے تو وہ ہر سرجری کے بعد اپنے عجز کو دریافت کرتے۔ لیکن غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے وہ برعکس طورپر سرجری کے واقعے میں اپنی مہارت دیکھتے رہے۔ اس لیے ایسا ہوا کہ جس واقعے میں انہیں عجز کی غذا مل رہی تھی، اُس سے وہ غلط طورپر کبر کی غذا لیتے رہے اور آخر کار اسی بے خبری کے ساتھ اُن کا خاتمہ ہوگیا۔
موجودہ زمانے میں یہ مزاج بہت زیادہ عام ہوچکا ہے— نعمتوں کا استعمال، لیکن مُنعم کا اعتراف نہیں۔ہر انسان مکمل طورپر عاجز ہے مگر وہ اپنے آپ کو قادر سمجھ لیتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ غور و فکر سے کام نہیں لیتا۔حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر کام خارجی اسباب کی رعایت کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔ آپ کی زندگی میں 99 فی صد سے زیادہ حصہ خدا کا ہے اور ایک فی صد سے بھی کم حصہ آپ کی اپنی کوشش کا۔ ایسی حالت میں انسان کے اندر اعتراف (شکر ) کا جذبہ خدا کے لیے ہوناچاہیے، نہ کہ اپنی ذات کے لیے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اِس معاملے میں تمام دنیا کے لوگ بے خبری میں مبتلا ہیں۔
غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ موجودہ زمانے میں خدا نے انسان کو نہایت قیمتی چیزیں عطا کی ہیں، جو قدیم زمانے میں بادشاہوں کو بھی حاصل نہیں تھیں۔ مگر میر ے تجربے کے مطابق، بیش تر لوگ ان کا صرف غلط استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً جدید کمیونی کیشن خدا کی ایک عظیم نعمت ہے مگر غالباً اس نعمت کا تقریباً 95 فیصد حصہ صرف بے فائدہ یا غلط مقاصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ اور جہاں تک کہ اس نعمت پر شکر کا تعلق ہے وہ تو میں نے اپنے تجربے میں حقیقی طور پر کسی کے اندر پایا ہی نہیں، نہ مذہبی لوگوں میں اورنہ سیکولر لوگوں میں۔ اس معاملے میں دونوں کی حالت ایک ہے — اپنے دین کوجانچنے کا معیار یہ ہے کہ آپ دیکھیے کہ آپ کے اندر شکر کی نفسیات ہے یا نہیں۔