خبرنامہ اسلامی مرکز ۱۷۵
۱۔ نیشنل بک ٹرسٹ اور حکومت میزورم کے تعاون سے میزورم کی راجدھانی ایزول میں ایک بُک فئر لگائی گئی۔ وہ ۵مارچ سے ۱۱ مارچ ۲۰۰۶تک جاری رہی۔ اِس موقعے پر گُڈ ورڈ بُکس (نئی دہلی) کی طرف سے ایک بُک اسٹال لگایا گیا۔ مسٹر مصطفی عمری نے اس کو سر انجام دیا۔ انھوں نے بتایا کہ میزورم میں یہ پہلا اسلامی بُک اسٹال تھا۔ لوگوں نے کافی دلچسپی لی۔ خاص طورپر قرآن (انگریزی) کے تمام نسخے لوگوں نے حاصل کرلیے۔ ادارے کی دوسری اسلامی کتابیں بھی لوگوں نے کافی دلچسپی کے ساتھ خریدیں۔ میزورم کے گورنر بھی بُک اسٹال پر آئے اور انھوں نے اسلام کے بارے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا۔
۲۔ ۶ مارچ ۲۰۰۶ کو روزنامہ راشٹریہ سہارا کے نمائندہ مسٹر سُنیل نے ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ اُن کا سوال بنارس میں ایک مندر پر بم دھماکے کے حوالے سے تھا۔ انھوں نے پوچھا کہ کسی عبادت گاہ پر بم دھماکے کے لیے اسلام میں کیا حکم ہے۔جواب میں بتایاگیا کہ اِس قسم کا بم دھماکہ ہر حال میں حرام ہے، خواہ وہ کسی مندر پر کیا جائے یاکہیں اور کیا جائے۔ اِس قسم کے بم دھماکوں میں بے قصور لوگ مارے جاتے ہیں، اور بے قصور لوگوں کو مارنے کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ جس نے ایک بھی بے قصور آدمی کو قتل کیا تو اس نے گویا کہ سارے ہی انسانوں کو قتل کر ڈالا۔ اس قسم کا متشددانہ فعل ہر حال میں قابلِ مذمت ہے۔ کوئی بھی عذر اس کو جائز ثابت نہیں کرتا۔ اختلاف یا شکایت کے موقع پر اسلام میں پُر امن حل کی تلقین کی گئی ہے۔ پُر تشدد کارروائی اسلام میں سرے سے جائز نہیں۔
۳۔ دور درشن (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر وریندر شرما نے ۸ مارچ ۲۰۰۶کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اِس انٹرویو کا موضوع ۷ مارچ کو بنارس میں ہونے والا بم دھماکہ تھا جس میں ایک مندر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ جوابات کے ذیل میں بتایا گیا کہ اِس قسم کا بم دھماکہ اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے۔ اسلام کے مطابق، ہر عبادت گاہ قابلِ احترام ہے، خواہ وہ کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ ہو۔ عبادت گاہ پر بم دھماکہ کرنا دہرا گناہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک ہے عبادت گاہ پر متشددانہ حملہ کرنا اور دوسرا ہے بے قصور لوگوں کی جان لینا۔ یہ واقعہ ہر اعتبار سے سخت قابلِ مذمت ہے۔
۴۔ حبیب بھائی نے حیدرآباد (جُبلی ہِل) میں ایک دعوتی سنٹر بنایا ہے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے حیدرآباد کا سفر کیا۔ یہ سفر۹ مارچ سے ۱۱ مارچ ۲۰۰۶ کے درمیان ہوا۔ ان کے ساتھ سی پی ایس کے دس اور افراد اِس سفر میں شامل تھے۔ حیدر آباد میں عام ملاقاتوں کے علاوہ کئی باقاعدہ پروگرام ہوئے۔ حبیب بھائی کے سنٹر میں دعوتی کام کی اہمیت پر تفصیلی خطاب ہوا۔ پرگنا بھارتی کی طرف سے بھارتیہ وِدّیا بھون کے ہال میں ایک پروگرام کیا گیا جس کا موضوع تھا: بقائِ باہم اور اسلام:
Co-existence in Islam.
اِس موضوع پر تفصیلی خطاب ہوا۔ جامعہ دار الفرقان للبنات (سعید آباد) میں ایک پروگرام ہوا جس کا موضوع تھا: خواتین کا درجہ اسلام میں۔ ایک پروگرام یونیورسٹی آف حیدرآباد میں تھا۔ یونیورسٹی کی ہال میں خطاب ہوا۔ اِس کا موضوع تھا: امن (Peace)، وغیرہ۔ اِس سفر کی تفصیلی روداد انشاء اللہ سفر نامے کے تحت، الرسالہ میں شائع کر دی جائے گی۔
۵۔ ۱۹۔۲۲ مارچ ۲۰۰۶ کو اسپین کے شہر اشبیلیہ (Seville) میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ یہ کانفرنس امن کے موضوع پر تھی۔ اِس میں مسلم اور یہود کے مذہبی پیشواؤں کو بلایا گیا تھا:
Second World Congress of Imams and Rabbis for Peace. Organized by the Hommes de Parole Foundation Svelle, Spain
اس کانفرنس میں صدر اسلامی مرکز کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ اس کا دعوت نامہ مؤرخہ ۲۳ فروری ۲۰۰۶ مسز نائلہ(Nayla A. Khalek)کے دستخط سے ملا تھا۔ اس سلسلے میں ان کی طرف سے کئی ٹیلی فون آئے۔ ان کے ایک نمائندہ بھی مرکز میں آئے۔ لیکن بعض وجوہ سے اس میں شرکت کے لیے سفر کا پروگرام نہ بن سکا۔ البتہ CPS کے کچھ انگریزی پمفلٹس اور مضامین ان کو بھیج دیے گئے۔ جو کہ امن کے موضوع سے متعلق تھے۔
۶۔ ای ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۲۳ مارچ ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس انٹرویو کا تعلق موجودہ زمانے کی متشددانہ مسلم تنظیموں سے تھا۔ سوالات کے جواب میں بتایا گیا کہ آج کل جس طرح اسلامی شخصیتوں یا اسلامی ناموں کو لے کر تنظیمیں بنائی جارہی ہیں وہ بدعت ہے۔ صحابہ نے کبھی اس قسم کی تنظیمیں نہیں بنائیں۔ ایک سوال کے جوا ب میں بتایا گیا کہ اسلام میں مسلح جہاد خالصۃً باقاعدہ طورپر قائم شدہ حکومت کا حق ہے۔ یہ غیر حکومتی تنظیموں کا حق نہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ امریکا نے مسلم ملکوں پر حملہ کیا تو اس سے غیر حکومتی تنظیموں کو یہ جواز نہیں ملتا کہ وہ امریکا کے خلاف متشددانہ جہاد شروع کردیں۔ اس طرح کی جارحیت کے مقابلے میں صرف مسلم حکومتوں کو سامنے آنا چاہیے نہ کہ غیر حکومتی تنظیموں کو۔
۷۔ پرگتی پیٹھ (نئی دہلی) ایک فلاحی تنظیم ہے۔ اس کے زیراہتمام ۲۵ مارچ ۲۰۰۶ کوایک سیمنار ہوا۔ یہ سیمنار چنمئی (Chinmay) مشن کے آڈیٹوریم میں منعقد کیاگیا تھا۔ اس میں ڈاکٹر کرن سنگھ اور دوسرے مذہبوں کے نمائندے شریک ہوئے۔ اس کا موضوع یہ تھا:
What is religion?
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ یہ پروگرام انگریزی زبان میں ہوا۔ انھوں نے اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اس موضوع پر آدھ گھنٹہ تقریر کی۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام کے مطابق، مذہب بنیادی طورپر دو قسم کی تعلیمات پر مشتمل ہے—خدا کی عبادت گذاری، اور انسان کے ساتھ امن اور خیر خواہی کے ساتھ رہنا۔
۸۔ نئی دہلی کے ٹی۔وی ایس۔ون چینل (S-1 Channel) کے تحت، ۲۵ مارچ ۲۰۰۶ کی شام کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اِس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوئے۔ اِس پروگرام کا عنوان یہ تھا—ہندو اور مسلم بھائی چارہ کیسے قائم ہو۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ بھائی چارہ عملًا قائم ہے۔ اگر بھائی چارہ نہ ہو تو ملک میں بحران پیدا ہوجائے۔ آپ کسی مسلمان سے اس کے ہندو پڑوسی کے بارے میں پوچھئے تو وہ اس کے بارے میں اچھی رائے دے گا۔ اسی طرح آپ کسی ہندو سے اس کے مسلمان پڑوسی کے متلق پوچھئے تو ہ اس کے بارے میں اچھی رائے دے گا۔ یہ مسئلہ زیادہ تر میڈیا کا پیدا کردہ ہے۔ میڈیا اپنے مزاج کے مطابق، سنسنی خیز خبروں کو منتخب کرکے ان کو نمایاں کرتا ہے۔ مگر یہ ہندستانی سماج کی صحیح تصویر نہیں۔ بعض ناخوشگوار واقعات ضرورہوتے ہیں لیکن وہ ہر جگہ ہوتے ہیں حتی کہ مسلم ملکوں میں بھی۔ ان کی بنیاد پر کوئی عمومی رائے نہیں بنائی جاسکتی۔
۹۔ برٹش صحافی سر مارک تُلی (Mark Tully) نے ۴ ؍اپریل ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو لیا۔ وہ ریلیجس انڈراسٹینڈنگ پر انگریزی میں ایک کتاب لکھ رہے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ اِس موضوع پر اسلام کا نقطۂ نظر کیا ہے۔ انھیں تفصیل کے ساتھ قرآن اور حدیث کی تعلیمات بتائی گئیں۔ انھیں بتایا گیا کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے درمیان ہر حال میں معتدل تعلقات قائم رکھے جائیں، اور پُرامن ماحول کو برقرار رکھا جائے۔ کیوں کہ امن کے بغیر کوئی بھی تعمیری کام نہیں ہوسکتا۔ جہاں تک مذہبی اختلاف کی بات ہے، اِس معاملے میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اپنے مذہب پر پوری طرح قائم رہتے ہوئے دوسروں کے مذہب کا پورا احترام کیا جائے۔
۱۰۔ ہمدرد پبلک اسکول نئی دہلی) میں ۱۵؍ اپریل ۲۰۰۶ کو ایک پروگرام ہوا۔اس کا انعقاد اسکول کے ہال میں کیاگیا۔ تمام طلبا اور اساتذہ اس میں شریک ہوئے۔ جناب سید حامد صاحب (بانیٔ اسکول) بھی اس میں موجود تھے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور سیرتِ رسول کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ تقریر میں منتخب احادیث کی روشنی میں بتایا گیا کہ زندگی کی تعمیر کے لیے پیغمبر اسلام نے کیا رہنما اصول دیے ہیں۔ یہ تقریر چالیس منٹ تک ہوئی۔ اِس موقع پر اسکول کے اساتذہ اور پرنسپل سے ملاقات ہوئی۔ طلبا اور اساتذہ نے خصوصی دل چسپی کا اظہار کیا۔ اِس پروگرام میں سی پی ایس کی ٹیم کے بھی کچھ افراد شریک ہوئے۔
۱۱۔ ہمدرد یونیورسٹی (نئی دہلی) میں ۱۴؍ اپریل ۲۰۰۶ کوسیرت النبی کے عنوان کے تحت ایک پروگرام ہوا۔ اس میں ڈاکٹر موسی رضا وغیرہ نے تقریر کی۔ صدر اسلامی مرکز کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ چنانچہ وہ بھی اس میں شریک ہوئے اور سیرتِ رسول کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ اِس تقریر میں بتایا گیا کہ اسلام ہمیشہ امن کے حالات پسند کرتا ہے۔ کیوں کہ اسلام کا جو مشن ہے وہ صرف امن کے حالات میں حاصل ہوسکتا ہے۔ اسلام کامشن یہ ہے کہ لوگوں کو توحید کا پیغام پہنچایا جائے۔ لوگوں کے اندر جنت اور جہنم کا شعور پیدا کیا جائے۔ لوگوں کو خدا کے تخلیقی نقشے سے باخبر کیا جائے۔ یہ پروگرام یونیورسٹی کے ایک کنونشن سنٹر میں ہوا۔ اس موقع پر دوسرے حضرات کے علاوہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور ڈاکٹر اوصاف علی بھی وہاں موجود تھے۔ اِس موقع پر سی پی ایس کی ٹیم کے افراد شریک ہوئے۔ انھوں نے حاضرین کے درمیان دعوتی پمفلٹ اور بروشر تقسیم کیے۔ لوگوں نے نہایت شوق کے ساتھ ان کو پڑھا۔
۱۲۔ رابعہ گرلس پبلک اسکول (نئی دہلی) میں ۱۹؍ اپریل ۲۰۰۶ کو سیرت النبی کے موضوع پر ایک جلسہ ہوا۔ اس میں تین مختلف اسکولوں کے ٹیچر اور اسٹوڈنٹ شریک ہوئے۔ شہر کے کچھ ممتاز افراد بھی اس میں شریک ہوئے۔ یہ جلسہ صدر اسلامی مرکز کی تقریر کے لیے رکھا گیاتھا۔ انھوں نے وہاں موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ آخر میں سوال وجواب ہوا۔ تقریر سننے کے بعد کئی ہندو اور مسلم ٹیچروں نے کہا کہ آج ہمیں اسلام اور پیغمبر اسلام کا صحیح تعارف حاصل ہوا۔ اسکول کے مینیجر نے کہا کہ آپ کی تقریر عصری اسلوب میں ہونے کے ساتھ ساتھ بڑوں اور بچوں دونوں کے لیے یکساں طورپر بڑی مفید اور قابلِ فہم تھی۔
۱۳۔ ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ امریکا کی ڈیوک یونیورسٹی (درہم) میں پروفیسر ہیں۔ ان کا تعلق، ڈپارٹمنٹ آف ریلیجس اسٹڈیز سے ہے۔ وہ ۱۹؍ اپریل ۲۰۰۶ کو ایک کیمرہ مین کے ساتھ دفتر میں آئے، اور صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ وہ یونیورسٹی کے ایک پروجیکٹ کے تحت، ایک کتاب لکھ رہے ہیں جس کا نام یہ ہے:
Inside Madrasas
ان کے سوالات کا تعلق مدرسے سے، مسلمانوں کے مسائل سے اور اسلام اور عصر حاضر سے تھا۔ یہ پورا انٹرویو انگریزی میں تھا۔ گفتگو کے دوران ایک بات یہ کہی گئی کہ مسلم مسائل پر تمام بولنے اور لکھنے والے دفاعی انداز اختیار کرتے ہیں۔ یعنی مسلمانوں کو ہر حال میں درست ثابت کرنا۔ یہ طریقہ سخت مہلک ہے۔ اس سے آپ کو یہ فائدہ تو مل سکتا ہے کہ آپ کو مسلمانوں کے درمیان مقبولیت حاصل ہوجائے۔ مگر اس کا یہ عظیم نقصان ہے کہ وہ مسلمانوں کے اندر احتساب کا ذہن نہیں پیدا کرتا۔ آج سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر re-assessment کی تحریک اُٹھے۔ مگر دفاعی یا وکیلانہ انداز اِس عمل کو زندہ کرنے میں مستقل رکاوٹ ہے۔
۱۴۔ نئی دہلی کے سائی انٹرنیشنل سنٹر (لودی روڈ) میں ۲۷ اپریل ۲۰۰۶ کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام میں مختلف سَینک اسکولوں کے پرنسپل شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکزنے اس میں شرکت کی۔ ان کو یہاں اِس موضوع پر بولنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا کہ اسلام میں بیسک ہیومن ویلوز کا تصور کیا ہے۔ انھوں نے آدھ گھنٹہ اس موضوع پر تقر یر کی۔ اس کے بعد پندرہ منٹ تک سوال اور جواب ہوا۔ انھوں نے اپنی تقریر میں اسلام میں حسب ذیل ہیومن ویلوز بتائے:
Peace, Love, Truth, Non-violence, Tolerance, Good conduct.
اِس پروگرام میں سی پی ایس (انٹرنیشنل) کی ٹیم کے افراد بھی شریک ہوئے۔ تقریر کے بعد انھوں نے لوگوں سے ملاقاتیں کرکے اُن سے اسلام کے موضوع پر باتیں کیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کے درمیان اسلامی پمفلٹ اور اسلامی بروشر بھی تقسیم کیے گیے۔
۱۵۔ الرسالہ کے درج ذیل قدیم شمارے بقیمت درکار ہیں:
اکتوبر، نومبر، دسمبر ۱۹۷۶، جنوری، جون، ستمبر، اکتوبر، نومبر دسمبر ۱۹۷۷، جنوری، فروری، مارچ، اپریل، جون، جولائی، اگست، ستمبر، اکتوبر ۱۹۷۸، جنوری، فروری، مارچ، اپریل، ستمبر ۱۹۷۹، اگست، دسمبر ۱۹۸۰، فروری، مارچ، اپریل، مئی، نومبر ۱۹۸۱، فروری، مارچ، اپریل، مئی، اگست، ستمبر، اکتوبر، نومبر، دسمبر ۱۹۸۲، جنوری، فروری، مارچ، اپریل، مئی، اگست، نومبر، ۱۹۸۳، جنوری، مارچ، اپریل، جون، جولائی، ستمبر، اکتوبر ۱۹۸۴، اگست، اکتوبر ۱۹۸۵، جون، اگست ۱۹۸۶، دسمبر ۱۹۸۸، اگست ۱۹۹۳۔
جن حضرات کے پاس الرسالہ کے مذکورہ شمارے برائے فروخت موجود ہوں وہ مطلوبہ قیمت کی وضاحت کے ساتھ درج ذیل پتے پر مطلع فرمائیں:
Shah Imran Hasan, Mahalla Dilawarpur, Ward No. 19, Kali Tazia Road, Distt. Munger, Bihar—811201
۱۶۔ الرسالہ کے قاریوں کی سہولت کی خاطر یہ کیا گیا ہے کہ الرسالہ کی قیمتیں گھٹا دی گئی ہیں۔ اب الرسالہ کی قیمتیں حسب ذیل ہوں گی—اندرونِ ملک سالانہ زرِ تعاون صرف ایک سو روپیہ، اوربیرونی ممالک کے لیے سالانہ زرِتعاون (ہوائی ڈاک سے) صرف$10۔