کیفیات،کمّیات
موجودہ زمانے میں بہت سی مسلم جماعتیں اور مسلم تنظیمیں وجود میں آئی ہیں۔ ان میں ایک اور دوسرے کے درمیان بہت سے فرق پائے جاتے ہیں۔ مگر ایک چیز سب میں مشترک ہے، اور وہ یہ کہ ہر ایک نے کسی نہ کسی پہلو سے اسلام کی کمّیاتی تعبیر کر رکھی ہے۔ کیفیات پر مبنی تعبیر کے بجائے کمّیات پر مبنی تعبیر میرے نزدیک سرتا سر گمراہی ہے۔ اس نے موجودہ زمانے میں زبردست نقصان پہنچایا ہے۔
کیفیاتی تعبیر کی صورت میں آدمی ہمیشہ اپنی دین داری کے بارے میں شک میں مبتلا رہتا ہے۔ کیوں کہ کیفیات (تقویٰ، اور خشیّت) داخلی چیزیں ہیں، ان کو ناپا اور تولا نہیں جاسکتا۔ لیکن کمّیاتی تعبیرمیں دین داری ایک ایسی چیز بن جاتی ہے جس کو خارجی اعتبار سے ناپا اور تولا جاسکے۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوتا ہے کہ آدمی بے خوف ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے عمل کو ناپ تول میں ڈھال کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ جو عمل مجھے کرنا تھا وہ میں نے کردیا۔ کیفیت پر مبنی سوچ خدا کا خوف پیدا کرتی ہے اور کمّیت پر مبنی سوچ آدمی کے اندر فرضی یقین پیدا کرکے اس کو خدا سے بے خوف بنا دیتی ہے۔
اصحابِ رسول ہمیشہ لرزاں اور ترساں رہتے تھے۔ کیوں کہ ان کے نزدیک، دین داخلی کیفیت کا نام تھا، اور داخلی کیفیت کو ناپ تول کی زبان میں معلوم نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ زمانے کے مسلمان خدا سے بے خوف ہوگیے ہیں کیوں کہ وہ اپنے کمیاتی ذہن کی بنا پر سمجھتے ہیں کہ جو کچھ کرنا تھا وہ ہم نے کردیا۔ اب ہمارا معاملہ بالکل درست ہے۔
سیاست پر مبنی تعبیر، مسائل پر مبنی تعبیر، فضائل پر مبنی تعبیر، برکت پر مبنی تعبیر، وسیلے پر مبنی تعبیر، عشقِ رسول پر مبنی تعبیر، مظاہرِ شرک پر مبنی تعبیر، خیر امت پر مبنی تعبیر، وغیرہ۔
یہ تمام تعبیریں ظواہرِ دین پر مبنی تعبیریں ہیں۔ دین مسلّمہ طورپر داخلی حقیقت کا نام ہے۔ اس لیے ہر وہ تعبیرِ دین جو ظواہر یا فارم پر مبنی ہو وہ بلاشبہہ باطل قرار پائے گی، اور ظواہر دین پر چلنا خود ساختہ دین پر چلنا ہے نہ کہ خدا کے بھیجے ہوئے دین پر چلنا۔