کنزیومر کمیونٹی
جب کسی مذہبی کمیونٹی پر سکیڑوں سا ل گذر جائیں، اور وہ عددی اعتبار سے ایک بڑی کمیونٹی بن جائے تو اس کی حیثیت ایک کنزیومر کمیونٹی کی ہوجاتی ہے۔ ۶۱۰ عیسوی میں پیغمبر اسلام اکیلے مومن تھے۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے ایک گروہ تیار ہوا جو عددی اعتبار سے ایک محدود گروہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اُس وقت جو گروہ بنا وہ کوئی کنزیومر گروہ نہ تھا۔ لیکن آج مسلمان ساری دنیا میں سات بلین ہوچکے ہیں۔ صرف ہندستان میں ان کی تعداد بیس کروڑ سے زیادہ ہے۔
اس طرح آج کے مسلمان پورے معنوں میں ایک کنزیومر کمیونٹی بن چکے ہیں۔ ان کے درمیان ہر قسم کے تجارتی مواقع کھل گیے ہیں۔ تسبیح اور مصلّی، اسلامی موبائل، اسلامی ٹی وی، اسلامی لٹریچر، اسلامی اجتماع اور اسلامی تحریک، اسلامی ادارہ اور اسلامی سروس، اسلامی سیاست اور اسلامی قیادت، اسلامی میڈیا اور اسلامی دفاع، اسلامی کمپیوٹر اور اسلامی انسائیکلوپیڈیا، اسلامی تقریر اور اسلامی تحریک، اسلامی نظام اور اسلامی بینکنگ حتی کہ زمزم اور کھجور، وغیرہ۔
اس قسم کی تمام چیزوں پر بظاہر اسلام کا لیبل لگا ہوا ہے مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک قسم کا سامانِ تجارت (commodity) ہیں۔ وہ لوگوں کے لیے اسی طرح مفید ہیں جس طرح عام تجارتی سرگرمیاں مفید ہوتی ہیں۔ اب اسلام کے نام پر وہ سارے مادّی فا ئدے حاصل ہورہے ہیں جو پہلے صرف عام تجارتوں کے ذریعے حاصل ہوتے تھے۔ میڈیا کی شان و شوکت نے ان فوائد میں بہت زیادہ اضافہ کردیا ہے۔
غالباً یہی وہ صورتِ حال ہے جس کے بارے میں پیغمبر اسلام نے پیشگی طورپر خبر دے دی تھی۔ ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام نے فرمایا: ویقال للرجل ما أعقلہ وما أظرفہ وما أجلدہ، وما فی قلبہ مثقال حبّۃ خردل من إیمان۔(فتح الباری بشرح صحیح البخاری، جلد: ۱۱، صفحہ: ۳۴۱) یعنی میری امت پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب کہ ایک شخص کی شان دار کارکردگی کو دیکھ کر کہا جائے گا کہ وہ کتنا زیادہ عقل والا ہے، وہ کتنا زیادہ ظرف والا ہے، وہ کتنا زبردست ہے۔ حالاں کہ اس کے دل میں رائی کے ایک دانے کے برابر بھی ایمان نہ ہوگا۔
اِس حدیث پر غور کرتے ہوئے سمجھ میں آتا ہے کہ یہ اس زمانے کی بات ہے جب کہ مذہب ایک پروفیشنل چیز بن جائے گا۔ لوگ اسلام کو پروفیشن یا کیریئر کے طورپر اختیار کریں گے۔ یہ ایک معلوم بات ہے کہ پروفیشنل کلام یا پروفیشنل سلوک ہمیشہ ظاہری طورپر زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ مثلاً ایک پروفیشنل سیلس مَین ہمیشہ عام انسانوں سے زیادہ، خوش گفتاری کا ثبوت دیتا ہے۔ حالاں کہ اس کے دل میں کوئی حقیقی جذبہ نہیں ہوتا۔یہ کنزیومر ایتھکس ہے۔ جب مسلم کمیونٹی ایک کنزیومر کمیونٹی بن جائے تو اس کے بعد اسی کردار والے لوگ پیدا ہوتے ہیں جس کا ذکر اوپر کی حدیث میں کیا گیا ہے۔