میڈٹیشن(Meditation)
میڈٹیشن ایک مستقل ڈسپلن ہے۔ میڈٹیشن کا مقصد اسپریچول ڈیولپمنٹ ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ انٹلکچول ڈیولپمنٹ کا تعلق، فارمل ایجوکیشن سے ہے، اور اس کے مقابلے میں میڈٹیشن کا تعلق، انفارمل ایجوکیشن سے۔ میڈٹیشن یا اسپریچول ڈسپلن کے کئی طریقے ہیں اور وہ کسی نہ کسی صورت میں قدیم زمانے سے چلے آرہے ہیں۔
میرے تجربے کے مطابق، میڈٹیشن یا اسپریچول ڈسپلن کے دو بڑے اسکول ہیں۔ ایک وہ جو مراقبہ (Meditation) پَر مبنی ہوتا ہے۔ اور دوسرا وہ جو تفکّر (Contemplation) کی بنیاد پر قائم ہے۔پہلا اسکول مبنی بر قلب (heart-based) اسکول ہے، اور دوسرا اسکول مبنی بَر ذہن (mind-based) اسکول۔ میں ذاتی طور پر تفکّر والے اسکول سے تعلق رکھتا ہوں۔
اسپریچویلٹی کا جو اسکول میڈٹیشن یا مراقبے پر قائم ہے اس کو مسلم تاریخ میں تصوف کہا جاتا ہے۔ تصوف میں بہت سی چیزیں ویدانتا سے لی گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تصوف اور ویدانتامیں بہت زیادہ مشابہت ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے گہرے طورپر متاثر ہوئے ہیں۔ اگر چہ ویدانتا کا ریفرنس پوائنٹ(reference point) وید ہے اور تصوف کا ریفرنس پوائنٹ قرآن۔ لیکن اپنے مجموعی اسلوب کے اعتبار سے دونوں ایک دوسرے سے ملتے جُلتے ہیں۔
مثلاً تصوف میں لطائفِ ستّہ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یہ اصطلاح براہِ راست طورپر ہندو سسٹم سے لی گئی ہے۔ غالباً یہ تصور پہلے ہندو سسٹم میں آیا اور اس کے بعد مسلم صوفیوں نے اپنے لیے مفید سمجھ کر اس کو اختیار کرلیا۔
لطائف ستّہ کا مطلب صوفیا کے نزدیک، یہ ہے کہ انسان کے جسم میں چھ مقامات (points) ہیں۔ یہ مقامات روحانی احساسات کے مراکز ہیں۔ دھیان اور توجّہ سے ان پر مسلسل زور ڈالا جائے تو یہ روحانی مقامات کُھل جاتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں پوری انسانی شخصیت کو روحانی غذا ملنے لگتی ہے۔ اس قسم کی پریکٹس اور بعض دوسری قسم کی پریکٹس ہیں جن پر عمل کرکے آدمی اپنی شخصیت کے مادّی پہلو کو دباتا ہے اور اپنی شخصیت کے روحانی پہلو کو بیدار کرتا ہے۔
میں اپنے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ میں ایک پیدائشی صوفی ہوں۔ میری پوری زندگی روحانی غور وفکر اور روحانی تجربات میں گذری ہے۔ میں لمبی مدت سے اِس مقصد کے لیے ایک ادارہ بھی چلا رہا ہوں۔ جس کا نام یہ ہے:
Center for Peace and Spirituality (CPS International)
لیکن میری روحانیت تمام تر ذہنی بیداری پر مبنی ہے۔ میں جس صوفی ازم کو مانتا ہوں اس کو تخلیقی صوفی ازم (creative sufism) کہا جاسکتا ہے۔
میرا ماننا یہ ہے کہ مبنی بَر قلب روحانیت، آدمی کو جس درجے تک پہنچاتی ہے وہ دراصل وجد (ecstasy) ہے۔مخصوص اعمال اور اشغال کے ذریعے آدمی کے اندر ایک خاص اہتزازی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اس کو روایتی صوفی، روحانی یافت کا نام دیتے ہیں۔
روحانیت کے جس مسلک کو میں مانتا ہوں اس کا تعلق، تمام تر فکری عمل سے ہے۔ یہ روحانیت اِس طرح آتی ہے کہ آدمی یہ سوچتا ہے کہ میں کیا ہوں۔ میرے آس پاس کی دنیا کیا ہے۔ جس نے دنیا کو بنایا ہے اس کا وہ تخلیقی نقشہ (creation plan) کیا ہے جس کے تحت، اس نے انسان کو اور بقیہ کائنات کو بنایا ہے۔
روحانیت کا یہ سفر دراصل تلاشِ حقیقت کے جذبے کے تحت، شروع ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جب ایک متلاشی ٔ حق انسان سچائی کو دریافت کرلیتا ہے اور وہ خالق کے تخلیقی نقشے کو جان لیتا ہے تو اس کی زندگی ایک نئے دَور میں داخل ہوجاتی ہے۔ یہ دور وہ ہے جس کو روحانی اصولوں پر انسانی شخصیت کی تعمیر کا دور کہا جاسکتا ہے۔
یہ سفر مکمل طورپر ایک ذہنی سفر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر موجودہ دنیا میں ہر عورت اور مرد ایک تجربے سے دوچار ہوتے ہیں۔ یہ تجربہ منفی حوادث کا تجربہ ہے۔ چوں کہ موجودہ دنیا میں ہر آدمی آزاد ہے۔ ہر آدمی کو موقع ہے کہ وہ اپنی آزادی کا غلط استعمال کرے۔ اِس بنا پر باربار یہ صورت پیش آتی ہے کہ ایک انسان کو دوسرے انسان سے دُکھ پہنچتا ہے۔ ایک انسان کو دوسرے انسان کی کسی کارروائی سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ایک انسان کو دوسرے انسان سے کوئی ایسا ناخوش گوار تجربہ پیش آتا ہے جو اس کو مشتعل کردیتا ہے۔
ایک طبقے کے نزدیک ایسے حالات میں روحانیت کو باقی رکھنے کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی انسانی بستی سے دُورکے ماحول میں رہنا شروع کردے جہاں کوئی چیز اس کو مشتعل کرنے والی نہ ہو۔ اِسی نقطۂ نظر کی ترجمانی امریکا سے چھپی ہوئی اُس کتاب میں کی گئی ہے جس کا نام یہ ہے:
A monk who sold his ferrari
میں جس روحانی مدرسۂ فکر کو مانتا ہوں وہ اِس سے مختلف ہے۔ اِس دوسرے مدرسۂ فکر کے مطابق، آدمی کوچاہیے کہ وہ اپنے منفی تجربات کو کنورٹ کرکے ان کو مثبت تجربے کی شکل دے۔ وہ مادّی واقعات کو روحانی تجربے میں تبدیل کرسکے۔ وہ ایک غیر روحانی واقعے کو روحانی واقعے کی صورت دے دے۔
یہ وہی اصول ہے جس پر انسان کے باہر کی پوری مادّی دنیا قائم ہے۔ اِس اصول کو تبدیلی کا اصول(principle of conversion) کہا جاسکتا ہے۔ مثال کے طورپر پانی کیا ہے، دو گیسیں جو اپنے آپ میں پانی نہیں ہیں وہ مل کر ایک اور چیز کی شکل اختیار کرتی ہیں جس کو ہم سیّال پانی کہتے ہیں۔ درخت کیا ہے، درخت در اصل غیر نباتاتی چیزوں کے کنورژن کا نتیجہ ہے۔
اسی کی ایک مثال گائے ہے۔ گائے اپنے جسم میں دودھ نہیں داخل کرتی۔ بلکہ وہ اپنے جسم کے اندر گھاس داخل کرتی ہے۔ پھر مخصوص نظام کے تحت، یہ گھاس کنورٹ ہو کر دودھ بن جاتی ہے۔ گویا کہ گائے ایک ایسی انڈسٹری ہے جو نان مِلک کو مِلک میں تبدیل کرتی ہے۔ اسی حقیقت کو ایک اردو شاعر نے اِس طرح بیان کیا ہے:
کل جو گھاس چری تھی بَن میں دودھ بنی وہ گائے کے تھن میں
کہا جاتا ہے کہ ایک شخص ایک بزرگ سے ملا۔ وہ کسی بات پر بزرگ سے غصہ ہوگیا۔ بزرگ اُس وقت بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ آدمی اٹھا اور اپنے پاؤں سے بزرگ کے سینے پر مار دیا۔ یہ بزرگ کے لیے ایک منفی رد عمل کا واقعہ تھا۔ مگر انھوں نے اِس منفی واقعے کو ایک مثبت تجربے میں تبدیل کیا اور اس آدمی سے کہا میرے آہنی سینے سے تمہارے نرم پاؤں کو چوٹ تو نہیں لگی۔ (واضح ہو کہ یہ ایک قصہ ہے نہ کہ ایک واقعہ)۔
حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ جب کسی بندے کو کوئی تکلیف پہنچے اور وہ اس پر صبر کرلے تو خدا اس کے گوشت کو ایک اور گوشت اور اس کے خون کو ایک اورخون بنا دیتا ہے۔
یہ تبدیلی فزیکل معنوں میں نہیں ہوتی بلکہ وہ اسپریچول معنوں میں ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مصیبتوں پر صبر وشکر کا رسپانس پیش کرنا آدمی کے لیے ایک روحانی تربیت بن جاتا ہے۔ یہ اس کو منفی سوچ کے بجائے مثبت سوچ والا انسان بنا دیتا ہے۔ یہ اس کو دشمنی کرنے والے انسان کے بجائے محبت کرنے والا انسان بنا دیتا ہے۔ یہ اس کو پست سطح پر جینے والے انسان کے بجائے اونچی سطح پر جینے والا انسان بنا دیتا ہے۔ یہ اس کو دوطرفہ اخلاقیات (bilateral ethics) کے بجائے، یک طرفہ اخلاقیات (unilateral ethics) کا حامل بنا دیتا ہے۔
اِس قسم کا روحانی انسان اعلیٰ فکری عمل کے ذریعے بنتا ہے۔ ایسا انسان بننے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ وہ اپنے ذہن کی ری انجینئرنگ پر راضی ہوجائے۔ اِس مقصد کے لیے اپنی شخصیت کی توڑ پھوڑ کرنی پڑتی ہے۔ اپنی شخصیت کو پھر سے مولڈ کرنا پڑتا ہے۔ ایک انسان وہ ہے جو سماج کے اندر بنتا ہے، دوسرا انسان وہ ہے جو اسپریچویلٹی کے کارخانے میں بن کر تیار ہوتا ہے۔
جرمن فلسفی نٹشے نے ایک ترقی یافتہ انسان کو وجود میں لانے کا راز سیلف تھنکنگ کو بتایا تھا۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ناقص سچائی ہے۔ پوری سچائی کی بات یہ ہے کہ ایک ترقی یافتہ انسان بننے کا راز اینٹی سیلف تھنکنگ میں چھپا ہوا ہے۔ اِس کا سب یہ ہے کہ ہر آدمی ایک معاشرے میں جیتا ہے۔ یہ معاشرہ ہر آن اس کے ذہن کی کنڈیشننگ کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ مکمل طورپر ایک کنڈیشنڈ مائنڈ بن جاتا ہے۔ امریکی عالمِ نفسیات جے۔بی۔ واٹسن (J.B.Watson) نے غلطی سے اسی کنڈیشنڈ انسان کو اصل انسان سمجھ لیا۔ حالاں کہ وہ ایک مصنوعی انسان ہوتا ہے نہ کہ اصل انسان۔
اسپریچول ڈیولپمنٹ کا عمل در اصل اسی کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ سے شروع ہوتا ہے۔ کوئی شخص جتنا زیادہ اپنے مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ کرے گا اتنا ہی زیادہ وہ اسپریچول ڈیولپمنٹ کا مقصد حاصل کرے گا۔ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ کے بغیر روحانی ترقی ممکن ہی نہیں۔
اصل یہ ہے کہ ہر انسان پیدائشی طورپر ایک اسپریچول انسان ہی کے طورپر پیدا ہوتا ہے۔ ہر انسان پیدائشی طورپر مسٹر نیچر یا مسٹر اسپریچول ہوتا ہے۔ لیکن پیدا ہونے کے بعد وہ جس سوسائٹی میں رہتا ہے اس کے مطابق، اس کی کنڈیشننگ شروع ہوجاتی ہے۔ اِس بعد کی کنڈیشننگ کو ختم کرکے اپنے آپ کو دوبارہ اپنی پیدائشی حالت یا فطری حالت کی طرف لے جانے ہی کا دوسرا نام اسپریچویلٹی ہے۔ اسپریچول سائنس در اصل مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ کا نام ہے۔ ڈی کنڈیشننگ نہیں تو اسپریچویلٹی بھی نہیں۔
اِس اعتبار سے انسانی دماغ کی مثال پیاز جیسی ہے۔ پیاز کے بیج میں ابتداء ًاس کا ایک چھوٹا سا مغز ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس مغز کے اوپر پرت چڑھنے لگتی ہے۔ ایک کے بعد دوسری پرت دوسری کے بعد تیسری پرت، تیسری کے بعد چوتھی پرت۔ پرت چڑھنے کا یہ عمل جاری رہتا ہے یہاں تک کہ اندر کا مغز پوری طرح اِن خارجی پرتوں کے اندر ڈھک جاتا ہے۔ اب بظاہر صرف پرت دکھائی دیتی ہے۔ اندر کا مغز دکھائی نہیں دیتا۔
پیاز کے اندر کے مغز کو حاصل کرنے کے لیے اس کے اوپر کی تمام پرتیں ہٹانی پڑتی ہیں۔ اِسی طرح نیچر والے انسان کو دوبارہ سامنے لانے کے لیے اس کی کنڈیشننگ کو ختم کرنا پڑتا ہے۔ کنڈیشننگ کا یہ عمل ویسا ہی ہے جیسا کہ پیاز کے اوپر کی پرت کوہٹانے کا عمل۔ اسپریچول سائنس کا پورا معاملہ پیاز کی اِس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔پیاز گویا اسپریچویلٹی کے معاملے کا ایک مادّی مظاہرہ ہے۔ پیاز انسان کو ایک مادی واقعے کے روپ میں بتارہی ہے کہ اس کو اپنے اندر روحانیت کی تعمیر کے لیے کیا کرنا چاہیے۔
خدا نے اِس دنیا میں حصولِ کمال کے لیے اکتشافی طریقہ (discovery method) رکھا ہے، مادّی چیزوں کے لیے بھی اور انسان کے لیے بھی۔ مادی دنیا میں خدا نے بنابنایا اسٹیل (steel) نہیں رکھا بلکہ خام لوہا (ore) رکھا۔ انسان اِس خام لوہے کو زمین سے نکال کر اپنی فیکٹری میں لاتا ہے اور وہاں مخصوص عمل (process) سے گذار کر اس کو اسٹیل کی صورت دیتا ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے۔ فطرت کسی کو بھی اسٹیل سپلائی نہیں کرتی۔ وہ صرف خام لوہا دیتی ہے۔ اب اسٹیل کے طالب کا اپنا کام ہے کہ وہ خام لوہے پر عمل کرکے اس کو اسٹیل بنائے۔
یہی معاملہ انسان کا ہے۔ یہاں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ انسان کو روحانی پیکر کی صورت میں پیدا کردیا جائے۔ اس کے بجائے یہ ہوتا ہے کہ انسان پیدائشی طورپر ہر قسم کی روحانی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اب یہ خود انسان کا کام ہے کہ وہ اپنے اندر روحانی تشکیل کا عمل کرے۔ وہ اپنی تربیت کرکے اپنے آپ کو ایک کامل روحانی شخصیت میں ڈھال لے۔
روحانی انسان ایک خود تعمیر کردہ انسان کا نام ہے۔ روحانی انسان کسی پُر اسرار کرامت کے ذریعے نہیں بنتا، وہ ایک معلوم تربیتی عمل کے ذریعے بنتا ہے۔ یہ عمل تمام تر ذہنی سطح پر ہوتا ہے۔ کو ئی بھی پُر اسرار طریقہ روحانی انسان بنانے والا نہیں۔