سوال و جواب

سوال

کیا Life Insurance ہم خرید سکتے ہیں۔ میں نے جب ۱۹۸۷ میں اس کو خریدا تھا تب میں اسلام سے بہت واقف نہ تھا۔ اور اس زمانے میں مَیں جناب پرویز صاحب کی کتابیں پڑھا کرتا تھا۔ لیکن ان کی ساری کتابیں پڑھنے کے بعد بھی دل کو اطمینان نہیں ہوا۔ ادھر ۱۹۹۹ میں میں نے ایک بُک اسٹور میں آپ کی ایک کتاب دیکھی جس کا نام تھا سفر نامہ۔ غیر ملکی اسفار (۱)۔ ویسے بھی انگریزی میں  Travel Books پڑھا کرتا ہوں۔ جب میں نے آپ کی کتاب دیکھی تو دل میں ہوا کہ چلو دیکھیں (گستاخی معاف) مُلّا دنیا کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ جب میں نے آپ کی کتاب پڑھی تو مجھے آپ کی باتیں بڑی اچھی لگیں اور آپ کے خیالات پڑھتے پڑھتے دل نے کہا کہ مجھے جس انسان کی تلاش تھی وہ یہی انسان ہے۔ تب سے آج تک آپ کی بہت ساری کتابیں پڑھیں، دل کو سکون ہوا۔ پھر سے کلمہ پڑھا اور خدا کو پالیا۔ (احمد اچھا، لندن)

جواب

لائف انشورنس کے بارے میں علماء کے فتوے آچکے ہیں، وہ سب کو معلوم ہیں۔ میں اِس قسم کے فتووں سے ایک بنیادی اختلاف رکھتا ہوں، وہ یہ کہ یہ فتوے عباسی دور میں پیدا ہونے والے مدارسِ فقہ کو شعوری یا غیر شعور ی طورپر ماڈل مانتے ہیں۔ اور اسی کو اسلام کا آخری نمونہ سمجھ کر فتوے دیئے جاتے ہیں۔ مگر اصولی اعتبار سے یہ بات درست نہیں۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ کو مکّی دور اور مدنی دور میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مکّی دور کی حیثیت اسلام کے ابتدائی دور کی ہے، اور مدنی دور کی حیثیت اسلام کے تکمیلی دَور کی۔ مگر یہ تصور مکمل طورپر غلط ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مکّی دور اور مدنی دَور دونوں یکساں طورپر، اسلامی نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔مکّی دَور اُس حالت کا ایک معیاری نمونہ ہے جب کہ اہلِ اسلام سیاسی اقتدار کی حالت میں نہ ہوں اور مدنی دور اُس حالت کا ایک معیاری نمونہ ہے جب کہ اہلِ اسلام سیاسی اقتدار کے مالک ہوں۔ یہ دونوں نمونے ہمیشہ کے لیے معیاری نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مسلمان جب سیاسی اقتدار کے مالک نہ ہوں تو اُنھیں مکّی دَور سے رہنمائی حاصل کرنا چاہیے اور جب وہ سیاسی اقتدار کے مالک بن جائیں تو اُنھیں مدنی دَور سے رہنمائی لے کر اپنا نظام بنانا چاہیے۔ اگر چہ یہ تقسیم مطلق تقسیم نہیں ہے۔ کیوں کہ مکّی دَور میں بھی مدنی تقاضے شامل رہتے ہیں، اِسی طرح مدنی دور میں بھی مکّی تقاضے شامل رہتے ہیں۔

قرآن سے یہ ثابت ہے کہ سیاسی اقتدار کبھی کسی کو مستقل طورپر نہیں ملتا۔ سیاسی اقتدار ایک پرچۂ امتحان ہے اس لیے وہ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے، کبھی ایک گروہ کے پاس اور کبھی دوسرے گروہ کے پاس (تلک الأیام نداولہا بین الناس)۔ ایسی حالت میں عبّاسی دور میں بننے والا ماڈل ابدی طور پر اسلام کا معیاری ماڈل نہیں ہوسکتا۔ ماڈل ہمیشہ حالات کے تابع ہوگا نہ کہ کسی دَورِ حکومت کے تابع۔

واقعات بتاتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں مسلمان ساری دنیا میں مکّی دَور جیسے حالات میں ہیں، مسلم اقلیت والے ملکوں ہی میں نہیں بلکہ مسلم اکثریت والے ملکوں میں بھی۔ یعنی جہاں مسلمانوں کی سیاسی حکومت قائم نہیں ہے وہاں بھی اور جہاں مسلمانوں کی سیاسی حکومت قائم ہے وہاں بھی، مسلم اقلیت والے ملکوں میں مقامی حالات کے اعتبار سے اور مسلم اکثریت والے ملکوں میں عالمی حالات کے اعتبار سے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے میں غیر مسلم قوموں کا سَیطرہ اتنے بڑے پیمانے پر قائم ہے کہ نام نہاد مسلم حکومتوں کے علاقے میں بھی مسلمان عملاً انھیں حالات میں ہیں جو کہ مکّی دور کے حالات تھے۔

ایسی حالت میں میرے نزدیک یہ اسلام کی تعمیل نہیں ہے کہ دَورِ اقتدار میں لکھی ہوئی کتابوں کے حوالے نکال کر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے لیے فتوے دئے جائیں۔ یہ اسلام کو گویا مضحکہ بنانا ہے۔ کیوں کہ یہ یقینی ہے کہ غالب تہذیب کے تحت جو طریقے رائج ہو گیے ہیں وہ عالمی زور پر چلتے رہیں گے اور مفتی کا فتویٰ ایک مذاق بن کر رہ جائے گا۔

ایسی حالت میں میری رائے ہے کہ صحابی ٔ رسول وابصہ بن معبد والی حدیث پر عمل کیا جائے۔ وابصہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اِثم (گناہ) اور بِرّ (نیکی) کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا: یا وابصۃ، استفتِ قلبک(مسند احمد، الدّارمی، کتاب البیوع) یعنی اے وابصہ، تم اپنے دل سے فتویٰ پوچھو۔ ظاہرہے کہ رسول اللہ کا یہ جواب فاجر انسان کے لیے نہ تھا بلکہ صالح انسان کے لیے تھا۔ میری رائے ہے کہ جو شخص دین داری کی زندگی گذار رہا ہو، جس کے دل میں نیک نیتی ہو، جو آخرت میں اللہ کی پکڑ سے ڈرتا ہو اس کو ہر معاملے میں مفتی سے فتویٰ پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ کچھ چیزوں میں مسئلہ پوچھنا یقینا ضروری ہے مگر بہت سے امور ایسے ہیں جن میں آدمی کو اپنے قلب یا اپنے ضمیر کی رائے پر چلنا چاہیے۔

سوال

الرسالہ ستمبر ۲۰۰۵ کے صفحہ نمبر ۴۳ پر کشمیر کے عبد الرشید بٹ کے سوال کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ—اصل بات یہ ہے کہ ایک باپ کو اپنی اولاد سے جوگہرا تعلق ہوتا ہے وہی تعلق آپ کو اپنے الرسالہ مشن سے بھی ہے۔ آپ کے اس جواب سے اس قدر متاثر ہوا ہوں کہ بقیہ زندگی اسی مشن میں گزارنے کا تہیہ کرچکا ہوں۔ مجھے یقین ہوچلا ہے کہ جس تنظیم یا مشن سے صاحب مشن کو اَولاد جیسا گہرا لگاؤ ہو اُس مشن کو زوال نہیں۔

راقم الحروف سنٹر گورنمنٹ کے ریلوے محکمہ سے بطورO.S. ریٹائرڈ ہوچکا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ دونوں لڑکے وطن سے بہت دُور برسرِ روزگار ہیں اور اب وطن میں آکر بسنا نہیں چاہتے۔ میں اپنے وطن میں تنہائی کی زندگی سے اُکتا چکا ہوں۔ چاہتا ہوں کہ اپنا ذاتی مکان کسی فلاحی تنظیم کے لیے وقف کردوں اور اپنی فیملی پینشن کسی ایسی بیوہ یا مطلقہ کے نام منسوب کردوں جو میرے بعد بھی اس مشن کو جاری رکھے۔

تمنّا ہے تو بس شارق، تمنا آخری اپنی    جو گزرے، خدمتِ خلقت میں گزرے زندگی اپنی

اس بارے میں آپ کے پُر خلوص مشورے کا انتظار رہے گا۔ (شارق، آکولہ)

جواب

آپ نے دعوتی مشن کے لیے جو ارادہ کیا ہے وہ ایک قربانی کی بات ہے۔ اور قربانی کے جذبے کے اعتبار سے وہ بلاشبہہ قابل ثواب ہے۔ لیکن اسلام میں قربانی کا تصور حکمت کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ اسلام میں وہی قربانی مطلوب قربانی ہے جو اپنے مقصد کے اعتبار سے نتیجہ خیز ہو۔ بے نتیجہ قربانی اسلام میں نہیں۔

دعوت الی اللہ کا کام بلڈنگ کے ذریعے یا پیسے کے ذریعے نہیں ہوتا۔ دعوت الی اللہ کا کام جب بھی ہوتا ہے اسپرٹ کے ذریعے ہوتا ہے۔ اور اسپرٹ کوئی ایسی چیز نہیں جو منتقل کی جاسکے۔ آپ کے اندر جو دعوتی اسپرٹ پیدا ہوئی ہے وہ آپ کے اوپر اللہ کا ایک خصوصی انعام ہے۔ اِس اسپرٹ کو آپ بطور خود کسی بھی تدبیر سے کسی اور کے اندر منتقل نہیں کرسکتے۔ آپ کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی اِس دعوتی اسپرٹ کو اللہ کا انعام سمجھیں اور اس کو بھر پور طورپر استعمال کریں۔

آپ کے پاس جو مکان ہے یا آپ کو جو پنشن مل رہی ہے، اس کو آپ اپنے لیے خدا کی مدد سمجھیے۔ آپ یہ کیجئے کہ اپنے گھر میں ایک لائبریری قائم کیجئے اور جو ماہانہ رقم آپ کو ملتی ہے اس کو بقدر ضرورت اپنے اوپر خرچ کرنے کے بعد الرسالہ اور الرسالہ کی مطبوعات کو پھیلانے پر لگائیے۔ اپنے پیسے کو کسی اور کو دینے کے بجائے الرسالہ مشن کو پھیلانے میں لگائیے۔ جو لوگ الرسالہ خرید نہیں سکتے مگر وہ اس کو پڑھ سکتے ہیں، اُنھیں مفت الرسالہ پہنچائیے۔ اِس طرح اپنی پوری زندگی اِس مشن پر وقف کردیجئے۔ آپ کا وقت اورآپ کا پیسہ دونوں اس مشن کو فروغ دینے پر استعمال ہونا چاہیے۔ اپنا مکان اور اپنا پیسہ دوسروں کو دینا، میرے نزدیک کوئی حکیمانہ فیصلہ نہیں۔

سوال

۸؍اکتوبر ۲۰۰۵ کو پاکستان میں زلزلہ آیا۔ اِس سے بعض علاقوں میں شدید تباہی آ ئی۔ مثلاً اسلام آباد اور مظفر آباد (کشمیر) وغیرہ میں۔ اِس کے بعد یہاں کے مذہبی طبقے یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ خدا کا ایک عذاب تھا۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ عذاب اِس لیے آیا کہ پاکستان کے لوگوں نے یہاں ’’اسلامی نظام‘‘ قائم نہیں کیا۔ کسی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اسلامی اخلاقیات کو بہت پامال کیا جارہا تھا۔ کوئی کہتا ہے کہ پاکستان کے لوگ جھوٹ اور منافقت میں جی رہے تھے۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے۔ کیا واقعی یہ خدا کا عذاب تھا۔ (عبد اللطیف، کراچی)

جواب

میرے نزدیک زلزلے کے اِس واقعے کو عذاب کہنا درست نہیں۔ عذاب کا لفظ سزا کے لیے بھی بولا جاتا ہے اور تکلیف کے لیے بھی۔ سزا کے مفہوم میں یہ عذاب نہ تھا۔ البتہ تکلیف کے مفہوم میں اس کو عذاب کہہ سکتے ہیں۔

قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب یا تکلیف کی تین خاص صورتیں ہیں۔ ایک وہ جس کی حیثیت تنبیہہ یا وارننگ کی ہوتی ہے۔ اِس نوعیت کے عذاب کے لیے قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: فلولا إذ جائہم بأسنا تضرّعوا (الانعام: ۴۳) اِس نوعیت کے معاملے کو تنبیہی عذاب کہا جاسکتا ہے۔ یہ تنبیہات انسان کو جھنجھوڑنے کے لیے آتی ہیں۔ ایسی تنبیہات ہمیشہ آتی رہی ہیں۔ موجودہ زمانے میں جو فرق ہوا ہے وہ صرف یہ کہ میڈیا کی وجہ سے بہت جلد عالمی طور پر لوگوں کو اس کا علم ہوجاتا ہے، جب کہ پچھلے زمانے میں ایسا واقعہ صرف ایک مقامی واقعہ بن کر رہ جاتا تھا۔

عذاب کی دوسری صورت وہ ہے جس کو قرآن میں دمّرناہم تدمیرا(الفرقان: ۳۶) کہاگیا ہے۔ اِس نوعیت کا عذاب ایک مخصوص گروہ کے لیے اُس وقت آتا ہے جب کہ اس کے پاس پیغمبر آئے اور وہ اتمامِ حجت کی حد تک اپنا پیغام اس کو پہنچا دے۔ یہ عذاب سزا اور ہلاکت کے معنیٰ میں ہوتا ہے۔ پیغمبری کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد اب اِس قسم کا عذاب کسی قوم پر آنے والا نہیں۔

عذاب کی تیسری صورت وہ ہے جس کے لیے قرآن میں اِس قسم کے الفاظ آئے ہیں: إن زلزلۃ الساعۃ شیٔ عظیم(الحج: ۱) یہ معاملہ اُس وقت پیش آئے گا جب کہ خدا موجودہ دنیا کو ختم کرنے کا فیصلہ کرے گا۔ ایسا واقعہ صرف ایک بار پیش آئے گا، اور اس کا پیش آنا ابھی باقی ہے۔

سوال

الرسالہ کو عام کرنے میں مجھے بہت ہی صبر آزما حالات سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ یہاں بعض جماعتوں نے اپنا پروپیگنڈا شروع کردیا ہے۔ اور وہ الرسالہ کے خلاف کتابیں پھیلارہے ہیں۔ شہر کے لوگ بھی دھیرے دھیرے جاننے لگے ہیں کہ میں الرسالہ پھیلاتا ہوں۔ اس لیے لوگوں نے میری مخالفت شروع کردی ہے۔ (شاہ عمران حسن، مونگیر)

جواب

آپ کو اللہ تعالیٰ نے سلیم الطبع بنایا ہے۔ اِسی کے ساتھ آپ کو یہ ہمت بھی دی ہے کہ آپ حالات کی ناموافقت کے باوجود الرسالہ مشن کو لے کر کھڑے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح آپ کی مدد فرمائے۔ اس سلسلے میں ایک حکمت کی بات یہ ہے کہ اقدام ہمیشہ بقدر تیاری ہونا چاہیے۔ آدمی جو مقصد حاصل کرنا چاہے اس کے مطابق، اس کے پاس ضروری تیاری ہونا چاہیے۔ پہلے تیاری اور اس کے بعد اقدام یہی کام کا فطری طریقہ ہے۔

سوال

میں ایم۔اے۔ انگریزی (M.A. English from IGNOU) کی طالبہ ہوں اور جنوری ۲۰۰۲ سے میں الرسالہ پڑھتی رہی ہوں۔ پہلی بار جب الرسالہ میرے ہاتھوں میں آیا تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی اور پڑھنے کے بعد حقیقت میں دل بہت خوش ہوا اور سب سے بڑی بات یہ کہ میں الرسالہ سے فوراً متاثر ہوگئی۔ اس سے میری معلومات میں اضافہ ہوا۔ ایسا لگا جیسے الرسالہ صرف دل کو ہی نہیں بلکہ روح کو بھی تسکین دیتا ہے۔ تب سے میں نہایت ہی پابندی کے ساتھ الرسالہ کا مطالعہ ہر ماہ کررہی ہوں۔ بے شک اس کے مطالعے سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ بہت کچھ حاصل کیا ہے اور میں اس کا پورا کریڈٹ آپ کے نام کروں گی۔ بلا شبہہ آپ کی عظیم شخصیت کی بدولت ہی یہ سب کچھ ممکن ہوسکا۔

بے شک مجھے اس کے ذریعے اسلام کی حقیقت سے روشناس ہونے کا موقع ملا۔ مگر کچھ باتوں سے میں متفق نہیں ہوں۔ وہ یہ کہ ہر معاملے میں مسلمانوں کو قصور وار ٹھہرانا۔تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے۔پھر یہ کہنا کہاں تک درست ہے کہ یہ مسلمانوں کی غلطی کا ثمرہ ونتیجہ ہے۔(رخشاں ہاشمی، مونگیر)

جواب

مسلمانوں کو قصور وار ٹھہرانا‘‘ ایک غیر متعلق بات ہے۔ اس طرح کے معاملات میں اصل سوال یہ جاننے کا ہے کہ فطرت کا قانون کیا ہے۔ ہماری رائے فطرت کے قانون کے مطابق ہونی چاہیے نہ کہ اپنے جذبات یا خواہشات کے مطابق۔ قرآن میں فطرت کا یہ قانون اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وما أصابکم من مصیبۃ فبما کسبت أیدیکم (الشوری: ۳۰)

قرآن کی یہ آیت حتمی الفاظ میں بتارہی ہے کہ لوگوں کے اوپر جو مصیبت آتی ہے وہ ان کے اپنے ہی کیے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ایک او ر آیت میں فرمایا کہ: ان تصبروا وتتقوا لایضرکم کیدہم شیئاً (آلِ عمران: ۱۲۰) اِس دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس دنیا میں اصل مسئلہ ’’اغیار کی سازش‘‘ کی موجودگی نہیں ہے بلکہ خود مسلمانوں کے اندر صبر اور تقویٰ کی غیر موجودگی ہے۔ یعنی اگر مسلمانوں میں صبر اور تقویٰ ہوگا تو وہ اَغیار کی سازش سے محضوظ رہیں گے اور اگر صبراور تقویٰ نہیں ہوگا تو وہ اغیار کی سازشوں کا شکار ہوجائیں گے۔

ان قرآنی آیات کے مطابق، آپ نے جن باتوں کے بارے میں اپنے عدم اتفاق کا اظہار کیا ہے، اس کا تعلق الرسالہ سے نہیں ہے بلکہ خود قرآن سے ہے۔ آپ کو اگر کہنا ہے تو یہ کہیے کہ مجھ کو قرآن کی بات سے اتفاق نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ بات الرسالہ کی بات نہیں ہے بلکہ وہ خود قرآن کی بات ہے۔

مذکورہ قسم کی آیتوں کا مطالعہ کرنے سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ جب کوئی اُفتاد پڑے تو مسلمانوں کے اندر احتسابِ خویش (introspection) کا جذبہ جاگنا چاہیے۔ دوسروں کے خلاف احتجاج اور شکایت کرنا، سراسر قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہے۔

سوال

اپنی تشفی اور تفہیم (concept clearing) کے لیے اپنی ایک اُلجھن کے حل کے لیے آپ کی مدد چاہتا ہوں۔

اُلجھن— قرآن میں باربار خوفِ خدا کا ذکر آتا ہے۔ اور بندوں کو تلقین کی جاتی ہے کہ وہ اللہ کا خوف ہمیشہ اپنے دل میں رکھیں۔ مومنین کی صفات کے تذکرے میں خصوصی طور پر آتا ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتے ہیں۔ مثلاً اتقوا ربکم واخشوا یعنی اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو اور اس سے ڈرو۔ (لقمان: ۳۳) اس کا یہ مطلب ہوا کہ ہم اللہ کے غضب سے ڈر کر اس کی عبادت کریں۔ اس کے علاوہ متعدد مقامات پر اللہ سے خوف کھانے اور ڈرنے کو ہی مومن ہونے کے لیے لازم گردانا گیا ہے۔ جیسے:حقیقت یہ ہے کہ علم رکھنے والے ہی خدا سے ڈرتے ہیں (الفاطر: ۲۸)،خدا ہی کو پکارو خوف کے ساتھ، وغیرہ۔(الاعراف: ۵۶)

دوسری طرف بظاہر بالکل متضاد طورپر اللہ جل شانہُ سے محبت کرنے کو بھی عین ایمان قرار دیا جاتا ہے۔ الرسالہ کے مختلف issue میں بھی محبت الی اللہ کے بارے میں بارہا پڑھا۔

اُلجھن یہ ہے کہ ایک آدمی بیک وقت دو متضاد صفات کا حامل کیسے ہو۔ اللہ سے ڈرے بھی اور محبت بھی رکھے، کیسے؟ جس کسی سے محبت ہوتی ہے اس سے ڈرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور جس کا ڈر اور خوف دل میں بیٹھ جائے اس سے محبت کرنا فطرتاً ممکن ہی نہیں ہوتا۔ آدمی اس سے صرف ڈر سکتا ہے اور ڈر اور خوف کی وجہ سے اس کا اتباع کر بھی لے تو یہ محبت تو نہ ہوئی۔ (جنید جاذب بھٹی، کشمیر)

جواب

ایک شخص اپنی ماں سے محبت کرتا ہے۔ اسی طرح ایک مؤمن خدا سے محبت کرتا ہے۔ بظاہر دونوں محبت کی صورتیں ہیں مگر دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ ماں کے ساتھ محبت میں صرف ایک جذبہ کام کرتا ہے، وہ یہ کہ ماں اپنے بیٹے کے حق میں آخری حد تک شفیق ہے۔ یہاں تک کہ بیٹا اگر کوئی غلط کام کرے تب بھی ماں کی طرف سے اس کو شفقت ہی ملتی ہے، ماں کی محبت صرف محبت ہے، ماں کی محبت میں انصاف کا پہلو شامل نہیں۔ اس لیے بیٹا اپنی ماں سے صرف محبت کرتا ہے۔ اس کے ذہن میں ماں کی نسبت سے ایسا کوئی سبب نہیں جو اس کو ماں سے ڈرنے پَر مجبور کرے۔

مگر خدا کا معاملہ ماں سے مختلف ہے۔ خدا اپنے بندوں کے حق میں شفیق بھی ہے، اور ساتھ ساتھ منصف بھی۔ خدا کے ساتھ محبت میں محاسبہ (accountability) کا پہلو جڑا ہوا ہے۔ انسان خدا سے اس لیے محبت کرتا ہے کہ خدا نے اس کو اَن گنت نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ انسان کے سامنے یہ تصور بھی رہتا ہے کہ خدا منصف ہے۔ موت کے بعد ایک فیصلے کا دن (Day of judgement) آنے والا ہے۔ اُس دن خدا تمام انسانوں کو عالَمِ آخرت میں اکھٹا کرے گا۔ وہ ہر ایک کے عمل کا جائزہ لے کر یہ فیصلہ کرے گا کہ کون اپنے عمل کے مطابق، جنت کا مستحق ہے اور کون اپنے عمل کے مطابق، جہنم کا مستحق۔

خدا کوئی خوف ناک چیز نہیں۔ خدا سے خوف، خدا کی خوف ناکی کی بنا پر نہیں ہوتا بلکہ اِس تخلیقی نقشے کی بنا پر ہوتا ہے کہ انسان کو دنیا میں جو نعمتیں ملی ہیں وہ بطور حق نہیں ملی ہیں، بلکہ وہ بطور امتحان ملی ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ نعمتوں کے ساتھ منعم کو یاد رکھے۔ وہ ایک ذمے دار انسان کی طرح یہ سوچے کہ میں آزاد نہیں ہوں کہ جو چاہوں کروں، بلکہ میں زیر امتحان ہوں۔ موت کے بعد وہ دن آنے والا ہے جب کہ قانونِ انصاف کے مطابق، میرے اعمال کا حساب لیاجائے، اور میرے اعمال کے مطابق، میرے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے۔

ماں اور خدا کا یہی فرق، دونوں کے معاملے کو ایک دوسرے سے الگ کردیتا ہے۔ ماں کسی انسان کے لیے صرف محبت کا موضوع بنتی ہے۔ ماں کی محبت کے ساتھ خوف شامل نہیں ہوتا۔ مگر خدا کے ساتھ محبت میں فطری طورپر خوف شامل ہوجاتا ہے۔ ایک طرف خدا کی رحمتوں کی بنا پر اس سے محبت، اور دوسری طرف زندگی کی امتحانی نوعیت کی بنا پر شدید اندیشہ۔ یہی وجہ ہے کہ ماں سے محبت صرف محبت ہوتی ہے، جب کہ خدا سے محبت میں خوف اور اندیشے کی کیفیت بھی شامل ہو جاتی ہے۔

سوال

الرسالہ ستمبر ۲۰۰۵ کا شمارہ پڑھا۔ اس کے صفحہ ۳۳ پر ’’اعلیٰ عبادت ‘‘کے عنوان کے تحت، ایک حدیث اس طرح پڑھنے کو ملی:’’ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: المؤمن الذی یخالط الناس ویصبر علی اذاہم اعظم اجراً من الذی لایخالطہم ولایصبر علی اذاہم (ابن ماجہ کتاب الفتن، الترمذی کتاب القیامۃ، مسند احمد ۲؍۴۳) یعنی وہ مؤمن جو لوگوں کے ساتھ اختلاط کرتا ہے اور ان کی ایذاؤں پر صبر کرتا ہے اس کا اجر اس مؤمن سے زیادہ بڑا ہے جو کہ لوگوں کے ساتھ اختلاط نہیں کرتا اور ان کی ایذاؤں پر صبر نہیں کرتا‘‘۔

آپ نے اس حدیث کے صرف پہلے جزء پر روشنی ڈالی ہے جو کہ الرسالہ مشن سے بالکل مطابقت رکھتا ہے لیکن اس کے دوسرے جزء سے کہ—جو مؤمن لوگوں کے ساتھ اختلاط نہ رکھے اور ان کی ایذاؤں پر صبر نہ کرے، آپ نے صرفِ نظر فرمایا ہے۔ حالانکہ علمی تقاضا یہی تھا کہ حدیث کے دونوں پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے۔ اور دونوں باتیں عام قارئین الرسالہ کے سامنے بھی آجائیں۔ تاہم اگرچہ اس حدیث کے پہلے جزء سے ایک مؤمن کی نمایاں صفت یہی بتائی گئی ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ اختلاط رکھے گا اور ان کی ایذاؤں پر صبر کرنے میں بہت بڑا درجہ حاصل کرے گا۔ لیکن اس کے دوسرے جزء سے یہ بات بھی تو واضح ہو جاتی ہے کہ لوگوں کے ساتھ اختلاط نہ رکھنے اور ان کی ایذاؤں پر صبر نہ کرنے کی صورت میں بھی مؤمن اجر سے محروم نہیں رہے گا۔

اس طرح اس حدیث کا مجموعی طورپر یہی مفہوم سامنے آتا ہے کہ اول الذکر والے مؤمن کی بہ نسبت ثانی الذکر والے مؤمن کا طرز فکر وعمل اگر چہ کمتر و فروتر ضرور ہے مگر غلط یا شریعتِ اسلامی سے مختلف یا عند اللہ ثواب سے محرومی کا باعث نہیں ہے۔ نیز جو لوگ آپ کے صبر کے فلسفے سے اختلاف کرتے ہیں ان کا موقف مطلق طورپر اس حدیث کی روشنی میں غلط ٹھہرانا آسان نہیں معلوم ہوتا ہے۔ کیا آپ اس پر کوئی وضاحت کرنا چاہیں گے۔ (غلام نبی کشافی، سری نگر)

جواب

آپ کا خط ملنے کے بعد میں نے الرسالہ ستمبر ۲۰۰۵ میں شائع شدہ مضمون (اعلیٰ عبادت) کو دوبارہ پڑھا۔ میرے نزدیک اس میں کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں۔ علماء کا یہ عام طریقہ ہے کہ وہ کسی آیت یا حدیث کو لے کر اس کے چند پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہیں نہ کہ اس کے سارے پہلوؤں کی۔ مُدرّس کے لیے ضروری ہے کہ وہ آیت یا حدیث کے سارے پہلوؤں کو بیان کرے، مگر داعی کا یہ طریقہ نہیں۔ داعی ہمیشہ دعوتی تقاضے کے تحت کچھ پہلوؤں کو نمایاں کرتا ہے۔ یہی ہر داعی کا طریقہ ہے۔

آپ نے اپنے خط میں یہ تاثر دیا ہے گویا کہ مذکورہ مضمون سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ ’’ثانی الذکر مسلمان کا طریقہ غلط یا شریعتِ اسلامی سے مختلف ہے، اور عند اللہ ثواب سے محرومی کا باعث ہے‘‘۔ میں عرض کروں گا کہ میرے مطبوعہ مضمون میں ایسی کوئی بات موجود نہیں۔ آپ کا یہ تبصرہ پڑھ کر مجھے اردو شاعر کایہ شعر یاد آیا:

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہیں      وہ بات ان کو بہت ناگوار گذری ہے

سوال

میں تصوف کے موضوع پر کام کرنا چاہتا ہوں اور فرداور معاشرے کی تطہیر کے باب میں تصوف کے رول کو اجاگر کرنا چاہتا ہوں۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس سلسلے میں میری رہنمائی فرمائیں۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ تصوف کے بارے میں لوگوں نے الگ الگ خیالات ظاہر کیے ہیں۔ زیادہ تر لوگ اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ کچھ لوگوں نے تو اسے چنیا بیگم کہا ہے۔ میں تصوف کو اس پس منظر میں دکھانا چاہتا ہوں کہ وہ فرد کی شخصیت سازی کے لیے از حد ضروری ہے۔ کیا مستند تاریخ سے ایسی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ ماضی میں تصوف نے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے اور تاریخ کی بڑی شخصیات کی زندگیوں میں ہلچل پیدا کی اور معاشرہ پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ آپ اس سلسلے میں کچھ رہنما کتابوں کی نشان دہی فرمائیں۔ خواہ وہ آپ کی کتاب ہوں یا کسی اور مصنف کی کتاب۔

پچھلے ڈھائی سالوں سے ایک غیر مسلم ڈاکٹر میرے رابطے میں ہیں ان کا ذہن اسلام سے قریب ہے۔ ایک بار انھوں نے خود مجھ سے فرمائش کی کہ آپ مجھے ہندی یا مراٹھی میں قرآن کا ترجمہ لا کردیں۔ میں نے انھیں مکتبہ اسلامی کا چھپا ہوا ترجمہ لاکر دے دیا۔ پھر خیال آیا کہ اسی کے ساتھ انھیں اسلامی موضوعات پر لٹریچر بھی پڑھاناچاہیے۔ ڈائریکٹ ترجمۂ قرآن پڑھانا شاید زیادہ مفید نہ ہو۔

آپ سے گزارش ہے کہ آپ کچھ ایسی کتابوں کے نام (فہرست) ارسال فرمادیں جو ڈاکٹر صاحب کے لیے مفید ہوں۔ خواہ وہ اسلامی مرکز کی کتابیں ہوں یا کسی اور ادارے کی۔ بس آپ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ وہ کتابیں ہندی یا انگریزی میں ہوں۔ اور شخص مذکور (ڈاکٹر صاحب) کے ذہن کو اپیل کرنے والی ہوں۔ (شفیق الایمان، رتنا گیری)

جواب

آپ کے خط کا براہِ راست جواب نہ دیتے ہوئے میں ایک اصولی بات کہوں گا۔ اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایک موضوع لے کر اس کے بارے میں دوسروں سے سوال کرتے ہیں۔ حالاں کہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ موضوع کا مطالعہ کرکے خود اپنے سوال کا جواب دریافت کیا جائے۔

مثلاً آپ تصوف کے سماجی رول پر کتاب لکھنا چاہتے ہیں تو خود آپ کو اپنے مطالعے سے اس کا مواد حاصل کرنا ہوگا۔ دوسروں سے اس موضوع پر سوال کرکے آپ کوئی قابل قدر کتاب نہیں لکھ سکتے۔

اسی طرح غیر مسلم کو اسلام کی کون سی کتاب پڑھائی جائے یہ پوچھنے کی بات نہیں ہے بلکہ خود دریافت کرنے کی بات ہے۔ آپ مذکورہ غیر مسلم سے بات چیت کرکے ان کے ذہن کو جاننے کی کوشش کریں۔ پھر آپ خود مختلف کتابوں کا مطالعہ کرکے یہ جانیں کہ کون سی کتاب مذکورہ غیر مسلم کے مائنڈ کو ایڈریس کرتی ہے۔

اصولی طورپر آپ اس بات کو سمجھ لیں کہ آپ کا کام کوئی دوسرا شخص نہیں کرسکتا۔ فطرت کا نظام ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے حصے کا کھانا نہیں کھاسکتا۔ اسی طرح کوئی شخص دوسرے کے حصے کا ذہنی عمل بھی نہیں کرسکتا۔

سوال

میرا خیال ہے کہ مدرسے کے بچوں کو دینی تعلیم، اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کی تربیت کے ساتھ ساتھ انھیں ذریعۂ معاش میں کفیل بنانے کی بھی فکر کی جائے۔ بچوں کو مدرسے کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اُنھیں ہُنر بھی سکھائے جائیں۔ مدرسے میں دینی تعلیم کے ساتھ ان لڑکوں کو سلائی کی تربیت، ٹوپی بنانے کا ہنر، جائے نماز، لکڑی کے سامان تیار کرنے، لکڑی اور لوہے کے پائپ کے فرنیچر تیار کرنے کے ہنراور کشیدہ کاری کے کام بھی سکھائے جائیں، تاکہ جب یہ لڑکے مدرسے کی تعلیم سے فراغت پاکر دنیاوی زندگی میں قدم رکھیں تو اس لائق ہوسکیں کہ دین کی زندگی کے ساتھ ساتھ دنیاوی زندگی بھی سنوارنے میں کامیابی حاصل کرسکیں۔

عام اسکول اورکالجوں میں بھی لڑکوں کو جو تعلیم دی جاتی ہے وہ بھی Job oriented یعنی روزگار سے منسلک نہیں ہوتی ہے۔ لیکن ان کی تعلیم چونکہ دنیاوی زندگی کے تقاضوں پر مبنی ہوتی ہے۔ یعنی ان کے courses of studies میں ایسے ایسے سبجیکٹ پڑھائے جاتے ہیں کہ وہ ملازمت کے ممکنہ امتحانات میں بیٹھ کر ملازمت حاصل کرنے کے قابل ہوسکیں۔ اس کے برعکس، مدرسے کی تعلیمات میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ ان کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔ (محمد ابوالکلام، پھلواری شریف، پٹنہ)

جواب

اِس تجویز سے مجھے اصولی طورپر اتفاق ہے۔ آج کل عام مزاج یہ ہے کہ مدرسے کی تعلیم کے ساتھ کسی ہنر کو شامل کرنے کی بات کی جائے تو لوگ اُس کو پسند نہیں کرتے۔ کہا جاتاہے کہ اِس طرح کی پیوند کاری سے دینی تعلیم کو نقصان ہوگا۔ مگر یہ بات سراسر غلط ہے۔ اس کا ایک تجرباتی ثبوت یہ ہے کہ قدیم روایتی دَور میں مدارس کے تعلیمی نظام کے ساتھ عام طورپر خطّاطی یا جلد بندی اور طِب جیسے پروفیشنل کام کا شعبہ بھی موجود رہتا تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوا کہ اِس کی بنا پر تعلیم میں نقصان واقع ہوجائے۔ بلکہ تجربہ برعکس طورپر بتاتا ہے کہ پچھلے دَور میں مدارس سے بڑے بڑے علماء نکلے۔ جب کہ موجودہ زمانے میں مدارس سے اُس طرح کے بڑے بڑے علماء کی پیدائش تقریباً بند ہوگئی ہے۔

میری رائے یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں کم ازکم دو چیزوں کی تعلیم وتربیت کو ہر مدرسے میں ضرور شامل کیا جائے۔ ایک ہے انگریزی زبان اور دوسری چیز ہے کمپیوٹر۔ مجھے یقین ہے کہ مروّجہ تعلیم میں کسی بھی قسم کا نقصان کیے بغیر ان دونوں چیزوں کو مدرسے کے تعلیمی نظام میں شامل کیا جاسکتا ہے۔

سوال

میں ایک مسلم نوجوان ہوں۔ میں نے ایک دینی مدرسے میں تعلیم حاصل کی ہے۔مسلم معاشرے کی موجودہ حالت کو دیکھ کر میرے اندر اصلاح کا جذبہ ابھرتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے اندر اصلاح معاشرہ کا کام کروں۔ اِس مقصد کے لیے میں اصلاحی مضامین لکھنا چاہتا ہوں۔ کیوں کہ موجودہ زمانہ پریس اور صحافت کا زمانہ ہے۔ آپ اِس معاملے میں مجھے اپنا مشورہ دیں اور رہنمائی فرمائیں۔ (ایک قاری الرسالہ، مہاراشٹر)

جواب

عرض یہ ہے کہ اصلاحی مضمون لکھنے کا کام کوئی سادہ کام نہیں۔ اس کے لیے خود اصلاح کے میدان میں اترنا پڑتا ہے۔ متعلقہ موضوعات کا گہرا مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ ان لوگوں کے دردمیں جینا پڑتا ہے جن لوگوں کے بارے میں آدمی اصلاحی مضمون لکھ رہا ہے۔ اصلاحی تحریر کوئی سائڈ بزنس یا پارٹ ٹائم جاب جیسا کام نہیں۔

آپ جانتے ہیں کہ قرآن کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوتا ہے۔ معروف معنوں میں، یہ کوئی بر کت یا فضیلت کا کلمہ نہیں ہے، اور نہ وہ کوئی رسمی بول ہے۔ یہ زندگی کے ایک اصول کی طرف رہنمائی ہے۔ اِس میں یہ پیغام دیاگیا ہے کہ اپنا کام صحیح نقطۂ آغاز سے شروع کرو:

Begin your work from the right point of beginning.

اصلاحِ معاشرہ کے کام کا آغاز خود اپنی تیاری سے شروع ہوتا ہے۔ اِس سلسلے میں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اپنے اندر تعمیری سوچ پیدا کی جائے۔ نفرت اور شکایت جیسے منفی جذبات کو مکمل طورپر ختم کردیا جائے۔ خارجی مطالبے کے بجائے داخلی تعمیر کو ساری اہمیت دی جائے۔ سیاسی طریقِ کار سے آخری حد تک پرہیز کیا جائے۔ جو کام کیا جائے وہ انسانی جذبے کے تحت کیا جائے نہ کہ قومی جذبے کے تحت۔ سب کچھ کرنے کے بعد بھی کسی سے معاوضے کی امید نہ رکھی جائے۔ کامیابی اور ناکامی کی پروا کیے بغیر اپنا کام مسلسل جاری رکھا جائے۔ یہی اصلاحِ معاشرہ کے کام کی شرطیں ہیں۔ ان شرطوں کو پورا کیے بغیر اصلاحِ معاشرہ کا کام مؤثر طور پر انجام نہیں دیا جاسکتا۔

سوال

الرسالہ دسمبر ۲۰۰۵ کے شمارے میں ثانیہ مرزا کے لباس کے بارے میں خبر نامے کے تحت صفحہ ۴۷ پر آپ کا تبصرہ پڑھنے کو ملا تو اس مسئلے پر دوسرے علماء کے فتوے بے وزن و بے معنی محسوس ہوئے۔

آپ نے ثانیہ مرزا کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے وہ بلاشبہہ درست ہے اور اس طرح کے سوالات کا اس کے سوا کوئی اور جواب نہیں ہوتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے دوسرے علماء اور اہل دانش اس طرح کے نت نئے مسائل کے بارے میں مثبت اور تعمیری وفکری جواب دینے سے ہمیشہ قاصر اور ناکام رہتے ہیں اور نتیجۃً ان کے غیر متعلق جوابات سے ہمیشہ فتنہ پیدا ہوتا ہے۔ اور اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی سوال کا جواب سرے سے دینا جانتے ہی نہیں ہیں۔ (غلام نبی کشافی، کشمیر)

جواب

ہمارے مدارس میں افتاء نویسی کا باقاعدہ شعبہ ہوتا ہے اور اس کے تحت، فتوؤں کا جواب دینے کی تربیت دی جاتی ہے۔ مگر افتاء نویسی کے اس شعبے میں ایک بنیادی کمی ہے۔ وہ یہ کہ اِس شعبے کے تحت، مسائلِ فتویٰ تو بتائے جاتے ہیں مگر حکمتِ فتویٰ نہیں بتائی جاتی۔

حکمتِ فتویٰ سے میری مراد یہ ہے کہ مفتی کو یہ بتایا جائے کہ اس کو کب فتویٰ دینا ہے اور کب فتوے کی زبان استعمال نہیں کرناہے۔ مثلاً ایک شخص اگر خود اپنے لباس کے بارے میں فتویٰ پوچھے تو مفتی کو چاہیے کہ وہ اس کا جواب دے۔ لیکن اگر کوئی شخص ثانیہ مرزا کے بارے میں فتویٰ پوچھے، یا کسی امام کے وضع قطع کو لے کر فتویٰ پوچھے تو ایسے معاملے میں مفتی کو یہ جواب دینا چاہیے کہ تم جس کے بارے میں فتویٰ مانگ رہے ہو اس سے جاکر ملو اور اس کو تیار کرو کہ وہ خود اپنے بارے میں فتویٰ پوچھے۔ موجودہ شکل میں تمہارا طریقہ درست نہیں۔

اسی طرح ایک کیس اگر ملکی قانون کے تحت، فوج داری کا کیس ہو اور کوئی شخص اس کے بارے میں فتویٰ پوچھے تو مفتی کو یہ کہنا چاہیے کہ یہ ایک عدالتی معاملہ ہے۔ تم اِس بارے میں ہم سے فتویٰ مت پوچھو بلکہ اس معاملے میں عدالت سے رجوع کرو۔ اِسی طرح اگر کوئی شخص ایک ایسے معاملے میں فتویٰ پوچھے جس میں یقینی ہو کہ مفتی کا فتویٰ مؤثر نہیں ہوگا۔ مثلاً کوکوکولا کو پینے یا نہ پینے کا مسئلہ، تو ایسے معاملے میں بھی مفتی کو فتویٰ نہیں دینا چاہیے۔ بلکہ مفتی کو مولانا عبد الحق حقانی کی زبان میں یہ کہنا چاہیے کہ— میرا فتویٰ نہیں چلے گا’’کوکوکولا‘‘ چل جائے گا۔

میری قطعی رائے ہے کہ جو شخص قدیم فقہی کتابوں میں لکھے ہوئے مسائل کو جانے اور حالاتِ زمانہ کو نہ جانے، اس کے لیے فتویٰ دینا جائز نہیں۔

سوال

میں ۱۹۹۹ء میں بینک میں agriculture officer کے عہدے پر فائز ہوا تھا۔ دورانِ تعلیم الرسالہ کا مستقل قاری تھا لیکن ملازمت میں آنے کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ لیکن میں جب بھی گھر جاتا ہوں تو وہاں سے سارا الرسالہ اپنے ساتھ لے کر آتا ہوں۔ کیوں کہ میرے والد محترم اس کے مستقل قاری ہیں۔ میری شادی ہوئے اب تقریباً چار سال ہونے جارہے ہیں۔ ایک لڑکا بھی ہے۔ لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ شادی ہونے کے اتنی مدّت کے بعد بھی ہم لوگوں میں خوشگوار ماحول نہیں بن سکا۔ شادی کے اوائل سے ہی جھگڑے ہوتے رہے۔ کئی بار ایسے حالات ہوئے کہ شاید ہم لوگوں کو الگ ہو جانا پڑے گا۔ لیکن میں ہمیشہ صبر اور تحمل سے کام لیتا رہا۔ اور اب بھی صبر کا دامن تھامے ہوئے بہتر حالات کی امید یں لگائے ہوئے ہوں۔

شادی کے اوائل سے ہی میری بیوی میرے گھر والوں سے نفرت کرنے لگی۔ پھر میرے والدین اور میرے سسرال والوں کے درمیان نا اتفاقی بڑھتی گئی۔ فرزانہ میرے خاندان کی پہلی بہو تھی۔ اس لئے میرے والدین کو بھی بہت ساری توقعات تھیں۔ لیکن اس نے کسی بھی طرح adjust کرنے کی کوشش نہیں کی۔ پھر کچھ دن بعد وہ سسرال جانے سے منع کرنے لگی۔ جب کہ وہ میرے ساتھ پیلی بھیت میں رہتی تھی۔ ہم لوگ لمبے وقفے کے بعد گھر جاتے تھے۔ دو چار دن گھر میں مہمان کی طرح گذار کر پھر واپس پیلی بھیت آجانا تھا۔ دوران قیام ہم لوگ مہمان ہی رہتے تھے۔ لیکن فرزانہ نے کبھی بھی میرے بوڑھے والدین کو ایک کپ چائے بنا کر نہیں پلائی۔ جب کہ میں ہمیشہ اسے یہی سمجھاتا تھا کہ ہم لوگ کچھ دنوں کے لیے آئے ہیں سب سے مل جل کر اور سب کو خوش کرکے واپس چلا جاؤں گا۔ لیکن اس نے میری باتوں کو کبھی نہیں مانا۔ جس کی وجہ سے میں upset رہتا تھا۔ پھر ہم لوگوں کے درمیان اِنھیں گھریلو معاملات کو لے کر جھگڑے بھی ہوئے۔ حالانکہ وہ میرا خوب خیال رکھتی ہے۔ لیکن میرے گھر والوں سے اس کی نفرت میں اضافہ ہوتا گیا۔ پھر وہ کہنے لگی کہ آپ اپنے بھائیوں کو خرچ نہیں دیں گے۔ میں نے اس کی بات نہیں مانی۔ اب وہ کہہ رہی ہے کہ اب میں اپنے میکے ہی میں رہوں گی جب تک آپ اپنے فرائض سے چھٹکارا نہیں پالیں گے۔ میں عید کے موقع پر اسے گھر چھوڑ آیا تھا۔ بقرعید کے موقع پر میں پھر اسے لینے گیا لیکن وہ آنے سے انکار کر گئی۔ میں ٹکٹ cancelکرکے واپس آگیا ہوں۔ میں نے صبر سے کام لے کر کسی قسم کا کوئی جھگڑا نہیں کیا۔چپ چاپ واپس پیلی بھیت آچکا ہوں۔ لیکن یہاں آنے کے بعد طرح طرح کے سوالات میرے ذہن کو پریشان کئے ہوئے تھے۔ انھیں tensions کی وجہ سے فرزانہ بیمار رہنے لگی ہے۔ اس کے سر میں ہمیشہ درد رہتا ہے۔ وہ گھنٹوں بے ہوش پڑی رہتی ہے۔ کافی علاج کرایا لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ میں بہت پریشان ہوں کیوں کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید میری غلطی سے ہی حالات اتنے بگڑتے چلے گیے۔ یا پھر میرے گھر والوں کی کوئی کمی رہی۔ یا پھر میرے سسرال والوں نے اس کی صحیح رہنمائی نہیں کی۔ حالاں کہ میرے گھر والوں نے اس کا بہت خیال رکھنے کی کوشش کی۔یہ بھی کبھی اتفاق نہیں ہوا کہ میری بیوی اپنے سسرال میں جاکر رہی ہو۔ جہاں میری غیر موجودگی میں میرے گھر والوں نے اس کے ساتھ بد سلوکی کی ہو۔ وہ جب بھی سسرال گئی میرے ساتھ ہی گئی اور میرے ساتھ ہی واپس آگئی۔

جہاں تک میری ازدواجی زندگی کا سوال ہے میں نے اپنے جانتے ہوئے کسی قسم کی کوئی کمی نہیں کی۔ ایک officer جن basic amenities کے ساتھ زندگی گذارتا ہے وہ ساری چیزیں دستیاب ہیں۔ میں اپنے بھائیوں کو صرف تین ہزار روپئے ماہانہ دیتا ہوں۔ اس کے علاوہ میں اپنے گھر میں کچھ بھی نہیں دیتا ہوں۔ میری بہت خواہش تھی کہ میں اپنے والدین کو کچھ دنوں کے لئے لاؤں اور U.P. دکھا دوں۔ لیکن میں یہ خواہش کبھی ظاہر کرنے کی ہمت نہیں کرسکا۔ کیوں کہ میں جانتا تھا کہ یہ میرے لئے ممکن ہی نہیں ہے۔ وہ کبھی بھی میرے گھر والوں کی خیریت دریافت نہیں کرتی ہے۔ جب کہ میرے گھر والے اکثر فون کر کے اس سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ ہمیشہ بات کرنے سے گریز کرتی ہے۔ (نازش ریحان، پیلی بھیت)

جواب

آپ کے مسائل کی جڑ یہ ہے کہ آپ جب ملازمت میں آئے تو آپ نے الرسالہ کا مطالعہ چھوڑ دیا۔ یہ آپ کی بہت بڑی غلطی تھی۔ الرسالہ، زندگی کی سائنس بتاتا ہے۔ الرسالہ، آرٹ آف لونگ (art of living)کا شعور دیتا ہے۔ الرسالہ، یہ بتاتا ہے کہ زندگی کے مسائل کو کیسے مینیج کیا جائے۔ الرسالہ ایسی چیز نہیں ہے جس کو کچھ دن پڑھا جائے اور پھر اس کے بعد چھوڑ دیا جائے۔ الرسالہ پوری زندگی کا کورس ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ اب آپ دوبارہ الرسالہ پڑھنا شروع کردیں۔ اور پابندی کے ساتھ بلا ناغہ ہر ماہ پڑھیں۔

بیوی کے معاملے میں آپ کا نظریہ غیر فطری ہے۔ اِس حقیقت کو سمجھ لیجئے کہ آپ کو خونی رشتے کی بنا پر اپنے والدین سے جو دلچسپی ہے وہ آپ کی بیوی کو کبھی نہیں ہوسکتی ہے۔کیوں کہ آپ کی بیوی کا خونی رشتہ آپ کے والدین سے نہیں ہے۔ آپ کو میرا مشورہ ہے کہ آپ بیوی سے وہ امید نہ رکھیں جو فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ خوش گوار زندگی گذاریں تو بیوی جیسی ہے ویسی ہی اس کو قبول کرلیں اور پھر اس پر راضی ہوجائیے۔ اور اگر آپ کے لیے ممکن ہو تو آپ مشترک خاندانی زندگی کو ختم کردیجئے، اور الگ گھر بنانا شروع کردیجئے۔

یاد رکھیے، زندگی حقیقت پسندی کا نام ہے۔ آپ اپنے جذبات کے مطابق، زندگی کا نقشہ نہیں بنا سکتے۔ زندگی کا نقشہ وہی رہے گا جو فطرت کے قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔ آپ کی موجودہ شکایت آپ کے غیر حقیقت پسندانہ ذہن کی پیداوار ہے۔ آپ اپنے غیر حقیقت پسندانہ ذہن کو ختم کردیجئے اور پھر آپ کو کسی سے کوئی شکایت نہیں ہوگی۔

سوال

میرا لڑکا افسر ہے عرب میں رہتا ہے۔ بہت دیندار ہے۔ میں نے اپنے لڑکے کی شادی کی ہے۔ B.A. پاس بہو ہے۔ وہ لوگ بھی کھاتے پیتے خوش حال ہیں۔ ہم لوگ بہت ارمان سے بہو بیاہ کر لائے لیکن بہو کسی کو منہ نہیں لگاتی ہے۔ میں اور میرے گھر میں بہو کی بہت عزت ہوئی۔ کوئی روک ٹوک نہ کوئی دباؤ۔ جب میکے جانا چاہتی میں اسے بھیج دیتی۔ میں بلاتی تو وہ اپنی مرضی سے ہی آتی۔ شادی کو ۲ سال گذر گیے ہیں لیکن وہ سب سے الگ تھلگ رہتی ہے۔ میرے کسی رشتے دار کا فون آتا ہے تو بات نہیں کرتی۔ گھر کے کسی کام میں دلچسپی نہیں لیتی۔کبھی میں کوئی چیز بنانے کو کہتی تو کہتی ہے مجھے نہیں آتا ہے بنانا۔ بہو اچھی شکل وصورت کی ہے۔ میں نے کچھ نہیں کہا میں خودہی ہر کام کرلیتی۔ پھر بھی وہ میرے گھر خوش نہیں رہی۔ ہم لوگوں نے اور میرے بیٹے نے اسے ہر طرح کا سکھ دیا۔ ہر آدمی اس کے لیے کچھ سامان لاتا تاکہ وہ میرے گھر خوش رہے لیکن نہیں۔ وہ کسی کو اپنا نہیں سمجھتی۔ نہ صبح میں ناشتہ بنانے کی فکر نہ کھانا بنانے کی۔ میرا بیٹا اسے عرب اپنے ساتھ لے گیا وہاں بھی اس کا وہی حال ہے۔ میرے بیٹے نے لکھا ہے کہ میں نے آرام کی ہر چیز گھر میں رکھ دی ہے کہ وہ خوش رہے لیکن اس کا یہاں دل نہیں لگتا۔ میرے بیٹے نے یہ بتایا کہ یہ میکے رہنا چاہتی ہے۔ مولانا صاحب مجھے اس مسئلے کا حل بتائیے۔ (ایک قاری الرسالہ)

جواب

زندگی میں ہمیشہ آدمی کے لیے دو میں سے ایک کا چوائس ہوتا ہے۔ مگر آدمی اکثر ایسا کرتا ہے کہ وہ تیسرا چوائس لینا چاہتا ہے، جب کہ تیسرا چوائس اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ شادی کا معاملہ بھی یہی ہے۔

اکثر ماں باپ ایسا کرتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے ڈھونڈ کر اچھی شکل و صورت والی بہو لاتے ہیں، اور پھر شادی کے بعد یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کی بہو اُن کی بات نہیں سُنتی۔ والدین کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اچھی شکل و صورت والی بہو کبھی ان کی بات نہیں سنے گی۔ اگر وہ بات سننے والی بہو چاہتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ معمولی صورت والی بہو اپنے گھر میں لائیں۔ اِس معاملے میں کوئی اور چیز ان کے لیے قابلِ عمل نہیں۔

اچھی شکل و صورت والی لڑکی کے ساتھ یہ حادثہ پیش آتا ہے کہ دو چیزیں اس کے مزاج کو خراب کردیتی ہیں۔ ایک، اس کے ماں باپ، اور دوسرے، آئینہ۔ ایسی لڑکی کی جب شادی ہوتی ہے اور وہ اپنی سسرال میں آتی ہے تو یہ دونوں چیزیں اس کو بگاڑ چکی ہوتی ہیں۔ ایسی حالت میں لڑکے کے والدین کو چاہیے کہ وہ اگر اچھی شکل و صورت والی لڑکی کو اپنی بہو بناتے ہیں تو وہ اس سے کوئی امید نہ رکھیں۔ اور اگر وہ بہو کو اپنی امید کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ ایسی لڑکی کو اپنے گھر لائیں جو صورت کے اعتبار سے پُرکشش نہ ہو۔

اِس معاملے میں سب سے بُرا کردار لڑکی کے ماں باپ کا ہے۔ لڑکی کے ماں باپ عام طور پر یہ کرتے ہیں کہ وہ اچھی شکل و صورت والی لڑکی کے ساتھ بہت زیادہ لاڈ پیار (over-pampering) کا معاملہ کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکی جب شادی کے بعد اپنی سسرال میں جاتی ہے تو وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر وہاں بھی اپنے لیے لاڈ پیار والے سلوک کی امیدوار رہتی ہے۔ مگر فطری طورپر ایسا ہونا ممکن نہیں۔ اِس لیے اِس قسم کی لڑکیاں ہمیشہ پریشان رہتی ہیں۔ اِس پریشانی کو دور کرنے کے لیے وہ بھاگ کر اپنے میکے جاتی ہیں جو کہ صرف ان کی پریشانی میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اِس مسئلے کا حل یہ ہے کہ میکے والے اور سسرال والے دونوں حقیقت پسندانہ انداز اختیار کریں۔

سوال

پوجیہ مولانا صاحب کو عید کے مبارک موقعے پر میرا سلام قبول ہو۔ بہت عرصے سے آپ کے درشن کرنے کا موقع نہیں ملا۔ کئی سوال میرے ذہن میں گھوم رہے ہیں۔ کیا دھرتی پر کبھی ایسا بھی وقت آئے گا جب انسان کے بیچ میں بھائی بھائی کا رشتہ قائم ہو جائے گا۔ اگر ہاں، تو اس کو قائم کرنے میں آپ جیسے سنتوں، فقیروں کا کیا رول ہوگا۔ کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ آپ کو اس مقصد کے لیے کوئی بڑا initiative لینا چاہیے۔ کیوں کہ چھوٹے مو ٹے قدموں سے آج کے ماحول پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اگر آج ہی آپ نے اور آپ جیسے سنتوں نے positive دِشا میں کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا تو شایدکل حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔

آپ سے عرض ہے کہ دنیا کے حالات کو سدھارنے کے لیے آپ historical initiative لیں تاکہ آنے والی پیڑھیوں کے لیے یہ دھرتی ایک محفوظ جگہ بن سکے۔ (سوامی اوم پورن سوتنتر، راجستھان)

جواب

آپ کے جذبات بہت قابلِ قدر ہیں۔ میں کہوں گا کہ میں CPS Internationalکے تحت، عین وہی کام کررہا ہوں جو آپ نے فرمایا۔ مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگ بڑے بڑے کام کو کام سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ بڑے کام کا آغاز چھوٹے کام سے ہوتا ہے، بڑی چھلانگ کے ذریعے کسی بھی کام کا آغاز نہیں ہوتا۔ ہم نے اپنے ملک میں دیکھا ہے کہ کئی لوگوں نے بڑے بڑے اقدامات سے کام کا آغاز کیا۔ مثلاً مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، جَے پرکاش نرائن وغیرہ۔ مگر یہ بڑے بڑے اقدامات کوئی مثبت نتیجہ پیدا نہ کرسکے۔

اِن تجربات سے سبق لیتے ہوئے میں نے CPS International کے تحت، ایک کام کا آغاز کیا ہے۔ اس کام کا نشانہ بہت بڑا ہے۔ اوّلاً پورا ملک، اور پھر ساری دنیا۔ مگر حقیقت پسندانہ انداز اختیار کرتے ہوئے ہم نے اپنے کام کو چھوٹے آغاز کے ساتھ شروع کیا ہے۔ خدا کے فضل سے یہ کام دن بدن بڑھ رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یقینا وہ دن آئے گا جب کہ یہ چھوٹا آغاز بڑے نتیجے تک پہنچے گا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom