صلاحیت کا کم تر استعمال
ایک گفتگو کے دَوران میں نے کہا کہ غالب کو اپنی زندگی میں کچھ ناخوشگوار تجربات پیش آئے۔ اِس پر اپنے ردّ عمل کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے کہا:
زندگی اپنی جب اِس طرح سے گذری غالب! ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
میں نے کہا کہ غالب زندگی کی حقیقت کو سمجھ نہ سکے۔ زندگی میں مشکلات کا پیش آنا اِس لیے تھا تاکہ غالب خدائے برتر کو یادکریں۔ وہ خدا سے تعلق قائم کرکے اپنے اندر اعلیٰ روحانی شخصیت کی تعمیر کریں۔ مگر انھوں نے مشکلات کے مقابلے میں صرف منفی تاثر لیا۔ حالاں کہ ضرورت تھی کہ وہ اس کو مثبت تاثر میں ڈھال دیں۔ اسی طرح غالب کا ایک اور شعر اِس طرح ہے:
رنج کا خوگر ہُوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں
یہ بھی غالب کی ایک سنگین غلطی ہے۔ مشکل کا عادی ہو کر اس کو اپنے لیے قابلِ برداشت بنا لیناکوئی صحیح بات نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ آدمی مشکل کو اپنے ذہنی ارتقاء کا ذریعہ بنا سکے۔ وہ مشکل کو چیلنج کے روپ میں لے نہ کہ عادت کے روپ میں۔ غالب کے ساتھ یہ سانحہ پیش آیا کہ ان کو اپنے زمانے میں کوئی رہبر نہیں ملا جو ان کو صحیح سوچ دے، جو ان کی فکری رہنمائی کرے، جو اُن کو فکری ارتقاء کا راز بتائے۔ اِس بنا پر ایسا ہوا کہ غالب اپنی اعلیٰ ذہانت کے باوجود صرف شاعر ہو کر رہ گیے۔ وہ سخن وری میں اپنا کمال دکھاتے رہے۔ حالاں کہ اپنی اعلیٰ ذہانت کی بنا پر وہ اِس قابل تھے کہ کوئی بڑا علمی اور فکری کارنامہ انجام دے سکیں۔ وہ شاعر کے بجائے مفکّربن سکیں۔ اور پھر انسان کو فکری رہنمائی عطا کریں۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ وہ اپنی صلاحیت کے صرف کم تر استعمال تک پہنچے، وہ لوگوں کو شاعرانہ اہتزاز سے زیادہ اور کچھ نہ دے سکے۔
کہا جاتا ہے کہ غالب نے الطاف حسین حالی سے کہا تھا کہ تم اگر شاعری نہیں کروگے تو اپنے آپ پر ظلم کروگے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اِس سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ غالب خود اپنے بارے میں یہ دریافت کریں کہ میں نے شاعری کرکے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے۔